اکتوبر‘ نومبر میں پاکستان میں تین ہفتے کے قیام کے دوران میں نے چھ اہم اجلاسوں میں شرکت کی۔ ان میں سے جن تین اجلاسوں کا ذکر گزشتہ کالم میں کیا گیا‘ وہ تھے: لاہور میں تعمیر پاکستان فورمِ (شیخ محمد اشفاق صاحب اس کے روحِ رواں ہیں)‘ اسلام آباد میں قومی مجلس مشاورت اور بین الاقوامی شہرت کے پاکستانی تحقیقی ادارے SDPI کی مقامی حکومتوں کی بنیادی اہمیت پر کانفرنس۔ اس کانفرنس میں پیپلز پارٹی‘ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے رہنمائوں نے بھی شرکت کی اور مجھے صدارت کا اعزاز بخشا گیا۔ لاہور میں جن تین اہم تقریبات میں شرکت کا موقع ملا آج آپ کو اُن کی تفصیل بتائوں گا۔
دو نومبر کو لاہور میں ایک اعلیٰ درجے کے تحقیقی ادارے‘ تھاپ(Thaap) نے ہڑپہ کے دریائوں پر دو روزہ کانفرنس منعقد کی۔ یہ تھاپ کی تیرہویں کانفرنس تھی۔ ڈاکٹر پرویز ونڈل اور ڈاکٹر ساجدہ ونڈل‘ دونوں میاں بیوی مل کر اس ادارے کو بڑی کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی تہذیب اور ثقافت پر بڑی عمدہ کتابیں بھی شائع کی ہیں۔ چونکہ ہوائی جہاز پر مجھے صرف 23 کلو سامان لے جانے کی اجازت تھی اور میرے پاس پہلے ہی کتابوں کا انبار اکٹھا ہو چکا تھا‘ اس وجہ سے میں صرف تین کتابیں خرید سکا۔ تھاپ کا مقصد ہڑپہ کی چھ ہزار سالوں پر پھیلی ہوئی تہذیب کا مطالعہ ہے۔ دریائے سندھ کے طاس کا کل رقبہ تین لاکھ مربع میل بنتا ہے‘ جو برطانیہ سے تین گنا بڑا ہے۔ ہڑپہ کی کھدائیوں سے جس مٹ جانے والی تہذیب کے کھنڈرات دریافت ہوئے ہیں‘ وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ قبل از مسیح دور میں یہ خطہ بالکل پُرامن تھا۔ وسائل کی تقسیم منصفانہ تھی۔ نہ کوئی محل تھا اور نہ کوئی مقدس مقام۔ مرد اور عورت ہر قسم کے منفی تعصبات سے بالاتر ہو کر سماجی زندگی میں برابر کا کردار ادا کرتے تھے۔ اس کے باشندے دستکاری کے ماہر تھے۔ پانی کا بہترین استعمال جانتے تھے۔ یہاں سرسوتی اور چولستان کو سیراب کرنے والے دریا بہتے تھے۔ قبل از مسیح دور میں انسان سفر کے لیے دریائوں کو استعمال کرتے تھے۔ ہر ایک میل کے بعد زمین کا نشیب ایک فٹ ہو جاتا ہے۔ یہ علاقہ بے حد زرخیز تھا۔ مشرق وسطیٰ اور ہندوستان میں بڑے پیمانے پر تجارت ہوتی تھی۔ اس دو روزہ کانفرنس میں کل 20 تحقیقی مقالے پڑھے گئے‘ جن میں میرے لیے سب سے دلچسپ اُس مہم کی رُوداد تھی جو ڈاکٹر عاطف امجد‘ ڈاکٹر ذیشان حیدر اور ڈاکٹر انعام اللہ نے ہزاروں سال پہلے (ہڑپہ سے 150 میل جنوب میں) بہنے والے ایک گم شدہ دریا''گنویری والا‘‘( Ganweriwala) کا سُراغ لگانے کے لیے شروع کی۔ یہ کمال کی جدوجہد‘ محنت اور لگن کی شاندار مثال تھی۔ محمد عبداللہ اور عائشہ لطیف نے اپنے مقالوں میں پنجابی کی صوفیانہ شاعری پر ہڑپہ تہذیب کے خدوخال بیان کر کے کالم نگار کی طرح باقی سامعین کے علم میں گراں قدر اضافہ کیا۔ ڈاکٹر نائلہ نے پنجاب کے مشہور شاعر شاہ حسین کی شاعری میں نسوانیت کی حمایت کا رنگ جھلکنے پر روشنی ڈالی۔ سدرہ اشرف اور ڈاکٹر انیلہ ذوالفقار نے ہڑپہ کے علاقے میں بہتے ہوئے دریائوں کی مقامی موسیقی پر گہرے اثر کی وضاحت کی۔
اب ہم نو نومبر کی طرف چلتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر منصورہ میں جناب الطاف حسن قریشی (مدیر اُردو ڈائجسٹ) کی نئی کتاب کی تقریبِ رُونمائی تھی۔ اس تقریب میں میرے علاوہ جناب مجیب الرحمن شامی‘ فاضل مصنف‘ حافظ نعیم الرحمن (امیر جماعت اسلامی)‘ پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ (پرنسپل پنجاب یونیورسٹی لاء کالج) اور سجاد میر (سینئر صحافی) نے اس کتاب‘ جس کا عنوان ہے ''میں نے آئین بنتے دیکھا‘‘ کے مختلف پہلوئوں کو اُجاگر کیا۔ الطاف قریشی صاحب سے میرا تعلق 66 سال پرانا ہے۔ ہم دونوں پچاس کی دہائی میں پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے پولیٹکل سائنس کی کلاس میں ہم جماعت تھے۔ قریشی صاحب اُن دنوں محکمہ انہار سے وابستہ تھے مگر جُز وقتی طالب علم ہونے کے باوجود وہ ایم اے کے امتحان میں اوّل آئے تھے۔ اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ نے کتاب کی تیاری میں قریشی صاحب کا ہاتھ بٹایا اورکتاب کے سرورق پر ان کے نام کے ساتھ ''شریک مصنف‘‘ کے الفاظ درج ہیں۔ قریشی صاحب نے مذکورہ کتاب کی جلد اوّل میں زیادہ تر (بلکہ تمام) وہ باتیں لکھی ہیں جو سرسیّد احمد خاں کے دور سے شروع ہو کر 1947ء تک کے زمانے کا احاطہ کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ قریشی صاحب‘ جنہوں نے جون 1947ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا اور وہ اس امتحان میں بھی اول آئے تھے‘ نے 16 برس کی عمر میں ہندوستان میں رونما ہونے والی آئینی تبدیلیاں اور بعد ازاں پاکستان اور آئین پاکستان کو بنتے بھی خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو گا اور اس مناسبت سے کتاب کا عنوان بہت موزوں ہے۔ قریشی صاحب نے بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے کہ محض کانگریس کی ہٹ دھرمی‘ تنگ نظری اور تعصب کی وجہ سے ہندوستان ایک وحدت بن کر انگریز سے آزاد ہونے کے بجائے دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور حصے بھی ایسے‘ جو مستقل طور پر ایک دوسرے سے برسر پیکار رہے۔ مارچ 1942ء میں برطانوی حکومت کے ایک سینئر وزیر اور معزز سیاست دان سر سٹیفورڈ کرپس (Stafford Crips) اور 1946ء میں کیبنٹ مشن (جو برطانوی کابینہ کے تین سینئر وزرا پر مشتمل تھا) نے ہندوستان کو ایک وفاقی وحدت اور خود مختار صوبائی حکومتوں کی شکل میں آزادی دینے کا فارمولا پیش کیا تھا۔ مسلم اکثریت کے پانچ صوبوں کو اتنی داخلی خود مختاری دی گئی تھی کہ قائداعظم پاکستان کے مطالبے سے دستبردار ہو گئے تھے۔ کانگریس نے بھی پہلے اس فارمولے سے اتفاق کیا مگر پھر بدقسمتی سے وہ ہاں کر کے مُکر گئی۔ چنانچہ پاکستان کا بننا ناگزیر ہو گیا۔ فاضل مصنفین نے کتاب کے صفحات 235 تا 237 میں کالم نگار کی برطانیہ سے شائع شدہ ایک کتاب کا نہ صرف حوالہ دیا بلکہ میرے مؤقف کی تائید بھی کی۔ کتاب کا نام ہے: Indian Independence and British Parliament۔
میری چھٹی‘ لاہور میں تیسری اور وطن عزیز کے حالیہ وزٹ میں آخری تقریب ملک سے روانگی سے محض تین گھنٹے پہلے ختم ہوئی۔ یہ تقریب ختم ہوئی تو میں بھاگم بھاگ ایئر پورٹ پہنچا۔ یہ تقریب قومی مجلس مشاورت کے عوام دوست محاذ کا اجلاس تھا‘ جس میں بھٹہ مزدوروں کے دو رہنمائوں افضال گورائیہ اور لیاقت جاوید‘ لاہور ہائیکورٹ کے سینئر وکلا‘ جن میں اشتیاق چودھری‘ نور نعیم خان اور اُن کی بیگم فرحت نور صاحبہ نمایاں ہیں‘ پنجاب اساتذہ یونین کے سیکرٹری کاشف شہزاد‘ تحریک اُردو زبان کی فاطمہ قمر اور صحافیوں کے علاوہ بہت سے سیاسی کارکنوں نے حصہ لیا۔ کاشف شہزاد نے بڑی تفصیل سے حکومت کی اس عوم دشمن کارروائی کو بیان کیا‘ جس کے تحت 4600 سکولوں کو سرکاری ملکیت سے نکال کر نجی ملکیت میں دیا جا رہا ہے۔ حاضرین مجلس نے اُنہیں اس اجتماعی تحریک میں اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا اور اسی موضوع پر اگلے ماہ ایک اور اجلاس منعقد کرنے کا بھی اعلان کیا گیا۔