ایک مقتول استاد اور ایک گمشدہ لڑکی

یقین جانیے کہ نہ میں جنوبی سوڈان کا حال احوال لکھ رہا ہوں اور نہ آپ کو افریقہ کے بدنصیب ملک کانگو کی حالتِ زار بتانا چاہتا ہوں۔ آج کا کالم پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے دوسرے بڑے صوبہ سندھ سے آنے والی بے حد تشویشناک‘ کربناک اور درد ناک خبروں پر تبصرہ سے شروع ہو کر بڑھتے ہوئے مصائب کے مداوا کی تجویز پر ختم ہو گا۔ براہِ مہربانی یہ بات ذہن میں رکھ کر مندرجہ ذیل سطور پڑھیے گا کہ سندھ وہ صوبہ ہے جہاں گزشتہ تین عشروں کے لگ بھگ ایک ہی سیاسی جماعت برسر اقتدار ہے اور باعثِ شرم کارکردگی کے باوجود اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ماہِ اپریل کے شروع میں ایوانِ بالا کے انتخابات میں اس سیاسی جماعت کے نامزد امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوئے۔ زندہ باد! پائندہ باد! موجودہ صورتِ حال کے تناظر میں پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ کم از کم ایک عشرہ مزید بھی اقتدار کا ہما اسی سیاسی جماعت کے موجودہ رہنماؤں کی اگلی نسلوں کے سر پر بیٹھا رہے گا۔ نجانے تاریخ کا وہ کون سا جبر ہو گا جو موروثی سیاست کی لعنت کو ختم کرکے سلطانی جمہور کا چراغ روشن کرے گا۔ جب وطنِ عزیز کو قوتِ اُخوتِ عوام کے بل بوتے پر ہی قائم و دائم رکھا جائے گا۔ یہ کیسے ہو گا؟ فلاحی مملکت بنا کر۔ قانون کی حکمرانی کا نظام قائم کر کے۔ انصاف اور مساوات کے زریں اصولوں کو اپنا کر۔ آئین کو پامال کرنے کے بجائے اس کو مقدس سمجھ کر۔ اس کا مکمل احترام کرکے۔ ایک فیصدی حکمران طبقہ کے لیے محلات بنانے اور ان کی سرکاری خرچ پر کروڑوں روپوں کی مرمت کرانے اور پھر ان محلات کے مکینوں کی حفاظت پر مزید کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بجائے‘ بقول اقبال مٹی کا نیا حرم بنا کر۔ پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھا کر۔ عوام دشمن چراغِ حرم و دیر بجھا کر۔ دہقاں کو روزی نہ دینے والے کھیت میں اُگنے والے ہر خوشۂ گندم کو جلا کر۔ کاخِ اُمرا کے در و دیوار ہلا کر۔ فرشتوں کو دیے جانے والے فرمانِ خدا کے ہر لفظ پر عمل کر کے۔ داغ داغ اُجالے اور شب گزیدہ سحر کے بعد گزارے ہوئے 76برس کے عذاب سے نکل کر‘ عوام دوست سویرے سے اپنا اُفق روشن کرکے ہم اپنے شب و روز بدل سکتے ہیں۔ جلد یا بدیر ہم وہ مبارک دن دیکھیں گے۔ ضرور دیکھیں گے۔ یہ پیشگوئی نہ صرف فیض صاحب نے پورے وثوق سے کی بلکہ یہ انسانی تاریخ کے جدلیاتی عمل کا وہ انجام اور اختتام ہے جو روس‘ چین اور ویتنام سے لے کر کیوبا‘ ایران اور افغانستان میں دیکھا گیا۔ ماسوائے روس کے‘ باقی کے پانچ عوامی انقلابات تو اس بوڑھے کالم نگار نے اپنی زندگی میں دیکھے۔ ذرا سوچیں کہ ہے نا کمال کی بات! پانچ بڑے عوامی انقلابات ایک فرد کی زندگی میں رونما ہوئے۔
تاریخ کا سبق کیا ہے؟ ظلم و ستم‘ ناانصافی‘ عدم مساوات‘ عوام دشمنی (عوام سے مراد کسان‘ مزدور اور نچلا و متوسط طبقہ ہے)‘ معاہدۂ عمرانی کی پامالی‘ عقل پر بھینس کی برتری‘ لاٹھی بردار ہونے کا مطلب بھینس کا مالک ہونا‘ امریکی سامراج کی کٹھ پتلی بن کر شاہ کا مصاحب ہونے پر اترانے کی شرمناک روش۔ ان کا دور ہمیشہ عارضی ہوتا ہے۔ آخر کار روشنی اندھیرے پر غالب آجاتی ہے۔ میں یہ سطور سندھ کے ستم زدہ لاکھوں افراد کو مخاطب کرکے لکھ رہا ہوں۔ وہ تو شاید انہیں نہ پڑھ سکیں مگر کتنا اچھا ہو کہ جو پڑھ سکتے ہیں وہ اپنے بھائیوں بہنوں کو پڑھ کر سنا دیں۔ سندھی زبان کے اخبار ان کا ترجمہ شائع کر دیں۔ میری دلی دعائیں لیں اور ثواب بھی کمائیں۔
میں سب سے کڑی تنقید اپنے اوپر کرتا ہوں۔ مجھے اپنے آپ سے کئی شکایات ہیں مگر سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ بات شروع کرتا ہوں قطب شمالی سے اور چلتے چلتے قطب جنوبی تک پہنچ جاتا ہوں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ باقی بوڑھے لوگوں کی طرح میں بھی ناقابلِ اصلاح ہوں۔ براہِ مہربانی در گزر فرمائیے گا۔
یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ نے کندھ کوٹ کا نام نہ سنا ہو۔ یہ اُس بدقسمت بستی کا نام ہے جو ڈاکوؤں کی مار دھاڑ‘ اغوا برائے تاوان اور مافیا سے مماثلت رکھنے والی بدترین غنڈہ گردی کی آماجگاہ ہونے کی وجہ سے آئے دن خبروں میں رہتی ہے۔ جہاں نہ شہری محفوظ ہیں اور نہ ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار۔ حکمران نہایت بے بسی سے اپنی خراب کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے دکھی لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نجانے ڈاکوؤں کو اتنا جدید اور مہلک (پولیس سے بدرجہا بہتر اور مؤثر) اسلحہ کہاں سے مل جاتا ہے اور مسلسل ملتا رہتا ہے؟ بقول غالب: کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
میں نہیں جانتا کہ سندھ میں کشمور کی بستی کندھ کوٹ سے کتنی دور یا قریب ہے مگر میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ ان دونوں علاقوں کے حالات ایک جتنے خراب ہیں۔ خراب تو بہت نرم لفظ ہے‘ حقیقت میں یہ بستیاں جہنم زار بن چکی ہیں۔ کشمور میں ایک سکول کے مدرس کو جان کا خطرہ محسوس ہوا تو اس نے بندوق خریدی اور اسے ساتھ رکھ کر سکول آنے جانے لگا مگر یہ حفاظتی تدبیر بھی محترم مدرس کو خون آشام‘ درندہ صفت ڈاکوؤں کی گولی سے نہ بچا سکی۔ میری نظر میں یوں قتل کر دیے جانے والے استاد بلاشبہ شہید ہیں۔ وہ چاہتے تو بندوق خرید کر سفر کرنے کے بجائے سکول جانا اور پڑھانا چھوڑ دیتے۔ سلام ہے ان کی بہادری کو! سندھ کے سارے باشندوں خصوصاً وہاں کے اساتذہ پر ہم جتنا فخر کریں کم ہوگا۔
سندھ سے اگلی بری خبر یہ ہے کہ ڈھائی برس قبل سنگرار کی بستی سے ایک ہندو لڑکی پریا کماری کی پُراسرار گمشدگی کا آج تک کوئی سراغ نہیں ملا۔ اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ بدقسمتی سے پولیس بھی (حسبِ معمول) ناکام ثابت ہوئی ہے۔ اس واقعہ سے اس کمیونٹی میں پائے جانے والے عدم تحفظ کے احساس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل امر نہیں۔ رونے کا مقام ہے کہ سیاسی رہنماؤں نے مذکورہ اقلیت سے کسی قسم کی یکجہتی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی کسی ایک تقریر میں بھی اس ایک واقعے (انگریزی زبان میں کہتے ہیںOne is too many) کا سرِ راہ بھی ذکر نہیں کیا‘ نہ کبھی کریں گے۔ گلگت سے لے کر گوادر تک وقوع پذیر ہونے والے ظلم کے یہ واقعات ہمارے حکمرانوں کی آنکھوں سے اوجھل کیوں رہ جاتے ہیں۔ آپ غالباً جانتے ہوں گے کہ ماہِ مارچ میں اسلام آباد میں فلسطینی عوام کی حمایت میں جماعت اسلامی کے جلوس کو پولیس نے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا نشانہ بنایا۔ ہمارے حکمران اور ان کی ماتحت پولیس لاچار‘ بے بس اور بے زبان لوگوں کا لحاظ کیوں کریں؟ ان سے کیوں ڈریں؟ جب یہ خبر امریکہ پہنچی ہو گی تو واشنگٹن نے ہمارے (زیادہ تر بیمار) حکمرانوں کے لیے جامِ صحت نوش چھلکایا ہوگا اورغالباً ان دنوں صدر بائیڈن اپنا دوسرا تعریفی خط ٹائپ کروا رہے ہوں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں