پیدائش تو ماشا اللہ پاکستان کی ہے مگر رومانس بھارت کے ساتھ اتنا ہے جیسے کل ہی وہاں سے سب کچھ چھوڑ کر تشریف لائے ہیں۔ محلات کا سلسلہ ایسا تعمیر کرایا کہ عباسیوں کے دور میں البرامکہ نے بغداد میں کیا بنوائے ہوں گے! برامکہ نے تو بغداد کے اندر محلات بنوائے تھے‘ آپ نے لاہور کے نواح میں عظیم الشان محلات پر مشتمل ایک نیا شہر ہی بسا دیا۔ اور نام اس کا جاتی امرا رکھا۔ جاتی امرا سے ان کے والد گرامی مرحوم نے ہجرت کی تھی‘ خود انہوں نے نہیں! یہ کوئی ایسی قابلِ اعتراض بات بھی نہیں۔ من موہن سنگھ کو بھی اپنے چھوڑے ہوئے گاؤں سے پیار ہے۔ چکوال کے گاؤں ''گاہ‘‘ میں انہوں نے بچپن گزارا ہے۔ افسوس! ان کے پاس وسائل نہیں تھے۔ عقل بھی نہیں تھی کہ اِدھر اُدھر ہاتھ مارتے۔ ایف بی آر میں ایک دن ''ایس آر او‘‘ جاری کرتے۔ فائدہ اٹھا کر دوسرے دن کینسل کر دیتے۔ بیچارے من موہن سنگھ! یورپ میں جائیداد تو کیا بناتے‘ انڈیا میں بھی محلات کا شہر نہ بسا سکے کہ اس کا نام ''گاہ‘‘ رکھ دیتے! یہ خوش قسمتی صرف ہمارے میاں صاحب ہی کے نصیب میں تھی!
محتاط ماشا اللہ اتنے ہیں کہ جو بات پاکستانی صحافیوں سے کرنے کی ہوتی ہے وہ بھارتی صحافیوں سے کرتے ہیں۔ اگر پاکستان سے کوئی غلطی ہوئی بھی ہے تو اس کے بارے میں پاکستانیوں کو بتائیں اور سمجھائیں کہ آئندہ ایسا نہ کریں۔ مگر رومانس پھر رومانس ہوتا ہے‘ ازبکستان‘ بھارت‘ روس‘ چین‘ قزاقستان‘ کرغزستان‘ تاجکستان‘ بیلاروس‘ ایران‘ منگولیا اور ترکمانستان میں سے ان کی دور رَس نگاہ صرف بھارت پر ٹھہری۔ بھارت کی خاتون صحافی کو بطورِ خاص ایوانِ خاص میں ملے۔ وزیراعلیٰ بھی موجود تھیں۔ اس کے بعد بھارتی خاتون نے اپنے خاص نکتۂ نظر سے اس ملاقات کی خبر بنا کر وڈیو پر بات کی جو پاکستان کے لیے قابلِ رشک ہرگز نہیں تھی۔ میاں صاحب کو اگر پاکستان کی ترقی‘ پاکستان کے مستقبل اور پاکستان کے مسائل کی فکر ہوتی یا ان کی سو چ میں پختگی اور گہرائی ہوتی تو وہ اس خاص ملاقات کا اعزاز چین کے کسی صحافی کو بخشتے‘ سی پیک پر بات کرتے اور دہشت گرد جس طرح چینی شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں‘ اس پر بات کرتے اور تشویش کا اظہار کرتے! چلیے اگر بھارتی صحافی ہی کو یہ اعزاز بخشنا تھا تو کشمیر کی پامال کردہ آئینی حیثیت ہی کا ذکر کر دیتے۔ مگر ہو سکتا ہے آرٹیکل 370 ان کے ذہن ہی میں نہ ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کشمیر کو وہ بھول چکے ہوں۔ کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب بگاڑا جا رہا ہے۔ انہوں نے کبھی کلبھوشن کا بھی ذکر نہیں کیا۔
کوئی پاکستانی بی جے پی حکومت کے رویے کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ جب سے اس پارٹی کی حکومت آئی ہے‘ مسلمانوں کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ کتنے ہی مسلمان گائے کے حوالے سے کچلے جا چکے ہیں۔ کوئی اگر بکرے کا گوشت بھی لے جا رہا ہے تو اس کا بھی گھر جلا دیا جاتا ہے۔ کوئی گائے بیچنے جا رہا ہے تو اسے بھی شہید کر دیا جاتا ہے۔ سانس لینا بھی دو بھر ہو چکا ہے۔ ادتیا ناتھ نے کون سا ظلم ہے جو نہیں کیا۔ یہاں تک کہا کہ مسلمان عورتوں کی آبرو ریزی کرو۔ اس درندے نے مسلم دشمنی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ شہروں کے مسلمان نام ایک ایک کر کے تبدیل کر رہا ہے۔ سینکڑوں سال کی مسلم تہذیب کو مٹانے کے درپے ہے۔ آگرہ‘ الہ آباد‘ علی گڑھ اور کئی اور شہروں کے نام بدل کر ایسے نام رکھ رہا ہے جن سے ہندو تعصب منوں ٹنوں کے حساب سے ٹپک رہا ہے۔ آسام میں اُن مسلمانوں کو شہریت سے محروم کیا جا رہا ہے جو صدیوں سے وہاں رہ رہے ہیں۔ میاں صاحب نے‘ اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر‘ کبھی بھول کر بھی ان حقائق کا ذکر نہیں کیا۔ اس لیے کہ ان کا ایک خاص سٹائل ہے۔ ایک طرزِ زندگی ہے۔ اس میں سوچ کی گہرائی یا تاریخ کے ادراک کا گزر نہیں۔ حکومت میں ہوتے ہیں تو مہینوں قومی اسمبلی یا سینیٹ کا رُخ نہیں کرتے۔ کابینہ کے اجلاس تک نہیں ہوتے۔ غیرملکی دوروں کا ریکارڈ انہوں نے توڑ دیا۔ اور لندن کے دورے تو بے شمار کیے۔
کوئی مانے یا نہ مانے‘ سچ یہ ہے کہ ان کا ایک خاص طرزِ زندگی ہے۔ بچہ بھی جانتا ہے کہ جو سکون انہیں لندن میں ملتا ہے وہ پاکستان میں نہیں ملتا۔ وہاں کے ریستوران‘ وہاں کے شاپنگ سنٹر‘ وہاں کے شب و روز‘ ایون فیلڈ اپارٹمنٹوں کی زندگی کا لطف‘ اس سب میں وہ طمانیت محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے اکثر و بیشتر عیدیں لندن میں منائی ہیں۔ لگتا ہے اصلی وطن وہی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اب بھی بعض مجبوریوں کی بنا پر وہ پاکستان میں رکے ہوئے ہیں۔ خبریں نکلتی رہتی ہیں کہ بس جانے والے ہیں۔ پاکستان میں ہوں تو لاہور کے محلات میں رہنا پسند کرتے ہیں یا مری کے ایوانوں میں۔ الیکشن سے پہلے وہ لاہور سے باہر ہی نہ نکلے۔ دوسرے صوبوں میں جانے کی زحمت نہیں کی۔ امیدواروں کو لاہور ہی میں طلب کرتے رہے۔ الیکشن مہم جس طرح انہوں نے چلائی‘ اس کا حال سب کے سامنے ہے۔
اس انتہائی فُل آف لگژری زندگی میں‘ تاریخ تو دور کی بات ہے‘ ہم عصر بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں بھی کسی سوچ کا گزر کیسے ہو سکتا ہے۔ کشمیریوں پر کیا گزر رہی ہے؟ بی جے پی بھارتی مسلمانوں کے حوالے سے کیا کر رہی ہے اور کیا عزائم رکھتی ہے؟ ادتیا ناتھ کیا کر رہا ہے؟ امیت شاہ کے ارادے کیا ہیں؟ اگر اگلا وزیراعظم‘ خدا نخواستہ‘ ادتیا ناتھ ہو گیا تو کیا ہو گا؟ مودی مشرقِ وسطیٰ میں ایک کے بعد دوسرے ملک کو سفارتی میدان میں کیسے فتح کیے جا رہا ہے اور اس کے مضمرات پاکستان کے لیے کیا ہیں اور کیا ہوں گے‘ میاں صاحب کی شاہانہ زندگی میں ان تکلیف دہ موضوعات اور سوچوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ ان کا اشہبِ خیال شاہراہوں اور ہوائی اڈوں کی حد سے آگے نہیں جا سکتا۔ اس میں کیا شک ہے کہ موٹر وے ان کا کارنامہ ہے‘ مگر تعلیمی نظام‘ زرعی اصلاحات‘ آبادی کے مسائل‘ نئے صوبوں کی اشد ضرورت‘ مقامی حکومتوں کا وجود اور دوسرے گمبھیر مسائل کی تاب ان کا نازک دماغ نہیں لا سکتا۔ پہلے بھی کاروبارِ حکومت کی پیچیدگیاں انہوں نے اپنے معتمدِ خاص کے سپرد کر رکھی تھیں۔
بھارت کے ساتھ تجارت ہونی چاہیے۔ بالکل اسی طرح جیسے تائیوان اور چین کے درمیان ہو رہی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے چین اور بھارت کے درمیان ہو رہی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے امریکہ اور چین کے درمیان ہو رہی ہے۔ اس کالم نگار نے اس موضوع پر کئی مضامین لکھے ہیں۔ تجارت سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہے۔ بھارت ایک بہت بڑی منڈی ہے جو پاکستان کے ہاتھ آجائے گی۔ اس کے مقابلے میں پاکستان ایک چھوٹی منڈی ہے جو بھارت کو ملے گی۔ پاکستانی مصنوعات کو ڈیڑھ ارب گاہک ملیں گے اور بھارتی مصنوعات کو پچیس کروڑ! مگر تجارت اور سپردگی میں فرق ہے۔ تجارت اور محبت میں فرق ہے۔ چین اور بھارت اپنے اصولی اختلافات کبھی بھی پس پشت نہیں ڈالتے۔ تائیوان کے حوالے سے چین کی پالیسی کس قدر سخت ہے‘ انٹر نیشنل ریلیشنز کا مبتدی بھی اچھی طرح جانتا ہے۔ جب میاں صاحب کبھی کسی بھارتی کو مری میں خصوصی درشن دیتے ہیں اور کبھی کسی صحافی کو لاہور میں اور پاکستان کی ''غلطیوں‘‘ کا اعتراف کرتے ہیں مگر بھارت کی چیرہ دستیوں کی طرف ہلکا سا اشارہ بھی نہیں کرتے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ دماغ کا نہیں‘ دل کا معاملہ ہے۔ الیکشن مہم کے دوران مودی جو ہرزہ سرائی پاکستان کے بارے میں کرتے رہے ہیں‘ کسی وقت وہ بھی سُن لیتے!