لطیفہ ہے یا واقعہ۔ خاتون نے گاڑی سرخ سگنل پر روکی۔ بھکاری مانگنے آیا۔ خاتون نے اسے دیکھا تو کہا: تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔ بھکاری نے دانت نکالے اور کہنے لگا ''باجی! ہم فیس بک پر ایک دوسرے کے دوست ہیں‘‘۔
یہ اگر لطیفہ ہے تو اسے لطیفہ نہیں‘ سانحہ کہنا چاہیے۔ اس لیے نہیں کہ بھکاری انسان نہیں۔ اس لیے کہ سوشل میڈیا نے باہمی پردے ہٹا دیے ہیں۔ طبقات ایک دوسرے کے ساتھ مکس ہو رہے ہیں۔ جو لوگ نرم گفتار‘ وضعدار اور مہذب ہیں‘ اب وہ ان لوگوں سے نہیں بچ سکتے جو گالیاں دیتے ہیں‘ آوازے کستے ہیں اور ایک خاص طرزِ زندگی رکھتے ہیں۔ آپ اُس محلے میں بچوں کو نہیں رکھنا چاہتے جس میں غنڈے اور بدمعاش رہتے ہیں۔ آپ کسی بہتر آبادی میں منتقل ہو جاتے ہیں‘ مگر آپ ان غنڈوں اور بدمعاشوں سے نہیں بچ سکتے۔ اب وہ سوشل میڈیا پر آپ کو آ ملتے ہیں۔ ساری احتیاط دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ میر تقی میر بیل گاڑی پر دلّی یا لکھنؤ جا رہے تھے۔ سارا راستہ ہم سفروں سے بات نہ کی کہ زبان پر برا اثر پڑے گا۔ کیا اچھا زمانہ تھا کہ خراب زبان بولنے والوں سے بچا جا سکتا تھا اور بچوں کو بچایا جا سکتا تھا۔ میر صاحب آج کی دنیا میں ہوتے تو شاید کپڑے پھاڑ کر جنگل کو سدھار جاتے۔
پھاڑ ڈالا میں گریباں رات کو داماں سمیت
ایسے گھرانوں کے لڑکے لڑکیاں‘ جو ''آپ‘‘ کے عادی ہیں‘ اور جنہیں ان کے ماں باپ نے کبھی ''تم‘‘ کہہ کر مخاطب نہیں کیا‘ اب ان بچوں سے فیس بک پر دوستیاں کر رہے ہیں جنہیں کھانے کی تمیز ہے نہ پہننے کی نہ بات کرنے کی‘ جنہیں بڑوں کا ادب کرنا سکھایا ہی نہیں گیا۔ میں اخبار کی ویب سائٹ پر اپنے کالم کے نیچے جب ان لوگوں کے کمنٹ پڑھتا ہوں جو گالیاں دیتے ہیں‘ بدتمیزی کرتے ہیں‘ ذاتی حملے کرتے ہیں اور موضوع سے ہٹ کر ناشائستہ کلمات لکھتے ہیں تو سوچتا ہوں ویب سائٹ سے پہلے کا زمانہ کتنا بھلا تھا‘ اس قماش کے لوگوں کو نزدیک پھٹکنے کا بھی موقع نہیں ملتا تھا! کس کی مجال ہے کہ آپ کو راہ چلتے روکے اور کھڑا کر کے بتائے کہ وہ کل لاہور جا رہا ہے جہاں فلاں شخص اسے لنچ کھلائے گا۔ مگر سوشل میڈیا آپ کھولتے ہیں تو یہی شخص آپ کو اپنی تمام مصروفیات سے مکمل طور پر آگاہ کر رہا ہوتا ہے جن سے آپ کا کوئی تعلق نہیں۔ آپ سوشل میڈیا کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو سوشل میڈیا کے فوائد سے‘ مثبت پہلوؤں سے بھی محروم ہو جاتے ہیں!
بیکری کے جس لڑکے نے چیف جسٹس کے ساتھ بدتمیزی کی‘ یہ بھی سوشل میڈیا ہی کا شاخسانہ ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ کچھ خاص پڑھا لکھا نہیں تھا۔ سوشل میڈیا نہ ہوتا تو اسے بھڑکایا نہ جا سکتا۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے تعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان ہونے والی بحثیں اَن پڑھوں یا نیم تعلیم یافتہ لوگوں میں پہنچ گئیں۔ مسلکی حوالے سے بات کی جائے تو یہ نکتہ آسانی سے سمجھ میں آ جائے گا۔ سوشل میڈیا سے پہلے مسلکی بحثیں علما کے درمیان ہوتی تھیں۔ زیادہ سے زیادہ جلسوں میں علما کی تقریریں ہو جاتی تھیں۔ ان جلسوں میں وہی لوگ جاتے تھے جن کی ان معاملات میں خاص دلچسپی ہوتی تھی‘ مگر اب مسلکی معاملات یوٹیوب اور وٹس ایپ کے ذریعے ہر اس شخص تک بھی پہنچ گئے ہیں جس کا علم انتہائی سطحی ہے اور وہ مشتعل بھی ہو رہا ہے۔ اسے گالی دینے کے علاوہ کچھ آتا ہی نہیں۔ اس لیے وہ اپنے مخالف مسلک کو گالی دے کر اپنی دانست میں اپنا فرض ادا کر رہا ہے۔
اس صورتحال سے کیسے نکلا جائے؟ سوشل میڈیا کو ختم کرنا ناممکن ہے۔ ٹوپی چھوٹی ہے۔ سر کو چھوٹا کرنا ممکن نہیں۔ ٹوپی کو بڑا کرنا پڑے گا۔ جو سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں انہیں بدلنا ہو گا۔ انہیں سکھانا ہو گا کہ بات کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ شائستگی کسے کہتے ہیں۔ تہذیب کیا ہے؟ میں تحریک انصاف کا حامی نہیں۔ اگست 2018ء سے پہلے میں اس کا سخت حامی تھا مگر اس کے حکومت میں آنے کے بعد میری اُمیدیں خاک میں مل گئیں۔ اب میں اس کا مخالف ہوں‘ مگر میں یہ ماننے سے قاصر ہوں کہ بدتمیزی اور ناشائستگی انہوں نے سکھائی۔ کیا تحریک انصاف نے بدتمیزی سکھانے کے لیے خصوصی کورس کرائے؟ کیا گالیاں سکھانے کی کلاسیں لگائیں؟ نہیں ایسا نہیں! یہ تو ہمارے معاشرے کا وہ وصف ہے جو تحریک انصاف کی پیدائش سے پہلے کا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بحث ہمیشہ لڑائی اور دشنام طرازی پر ختم ہوتی آئی ہے۔ مسلکی بنیادوں پر خاندانوں میں جھگڑے ہمیشہ سے ہوتے آئے ہیں۔ ہمارا شعار ''جناب‘‘ کبھی بھی نہیں رہا۔ ہمیشہ ''اوئے‘‘ رہا ہے۔ جس سوسائٹی میں بات بات پر نکاح ٹوٹنے کی خوشخبری دینا عام چلن ہو‘ وہاں کوئی اور گالی سننے پر تعجب کیسا؟
Vulgarity ایسا وسیع لفظ ہے جس کا مجھ کم مایہ کو مترادف نہیں مل رہا۔ ہمارا معاشرہ Vulgarity کی انتہا پر پہنچ چکا ہے۔ اس لفظ کا مطلب بے ہودگی بھی ہے‘ اوچھا پن بھی‘ گنوار پن بھی‘ سفلہ پن بھی‘ ابتذال بھی‘ پستی بھی‘ رذالت بھی اور سوقیانہ پن بھی! یہ تمام اوصاف آج کے معاشرے میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ گالی دینا ہمارا تکیہ کلام ہے۔ بازار سے ایک بار گزر جائیں تو درجنوں گالیاں کانوں میں پڑتی ہیں۔ ہم آہستہ آواز میں بات ہی نہیں کر سکتے۔ ریل گاڑی میں ایک مسافر فون کرتا ہے تو پورا ڈبہ سنتا ہے۔ سونا ناممکن ہو جاتا ہے۔ جب تہذیب ہماری زندگی میں کہیں بھی نہیں تو صرف بدزبانی اور دشنام دہی پر اعتراض کیسا؟ کیا ہماری ٹریفک مہذب ہے؟ کیا ہم دوسرے کی باری کا احترام کرتے ہیں؟ کیا ہم گاڑی کے پیچھے گاڑی پارک نہیں کرتے؟ کیا ہم ہسپتالوں‘ عدالتوں‘ تھانوں‘ مسجدوں پر حملے نہیں کرتے؟ کیا ہاتھا پائی ہمارے ہاں عام نہیں؟ کیا ہم دعوتوں میں ایسا مظاہرہ نہیں کرتے جس سے جانور شرما جائیں؟ تحریک انصاف کے نوجوانوں نے وہی گالیاں دہرائی ہیں جو ہمارے معاشرے میں پہلے سے عام ہیں اور جو بزرگوں کے منہ سے یہ نوجوان سنتے آئے ہیں۔
یہ والدین کا اور اساتذہ کا فرض ہے کہ اس کلچر کو تبدیل کریں۔ بچوں کو بتائیں‘ سکھائیں اور اپنے عمل سے دکھائیں کہ وہ آہستہ بولیں‘ چیخیں نہیں‘ گالی نہ دیں‘ اختلاف رائے میں دوسرے کا احترام کرنا نہ بھولیں‘ بحث میں طعن وتشنیع سے نہیں دلیل سے کام لیں‘ اپنی غلطی ماننا سیکھیں‘ زبان سے یا عمل سے دوسرے کو تکلیف نہ دیں۔ دعوتوں میں انسانیت اور تہذیب کا مظاہرہ کریں۔ بچوں کو یہ بھی سکھانا ہوگا کہ مذہبی‘ مسلکی اور سیاسی بحثوں سے پرہیز کریں۔ ایسی بحثیں سنیں نہ ان میں حصہ لیں۔ ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم ویلے ہیں یعنی فارغ! جن معاشروں میں وقت کی پابندی ہے اور مصروفیت‘ ان میں بحث اور لڑائی کے لیے لوگوں کے پاس وقت ہی نہیں! ہمارے ہاں صبح دفتر یا سکول کالج‘ یا کارخانے میں دیر سے پہنچنا عام ہے۔ اس لیے رات بحث‘ جنگ و جدل اور گالی گلوچ میں گزر جائے تو کیا غم ہے۔ کون سا صبح آٹھ بجے کام پر پہنچنا ہے؟ امریکہ‘ یورپ‘ آسٹریلیا‘ جاپان‘ ہر جگہ ڈنر غروبِ آفتاب کے وقت یا اس سے بھی پہلے ہوتا ہے۔ بازار سرشام بند ہو جاتے ہیں‘ لوگ نو بجے بستروں میں ہوتے ہیں! کیوں؟ اس لیے کہ صبح کام پر پہنچنا ہے اور وقت پر پہنچنا ہے۔ ہمارا تو دن ہی مغرب کے بعد شروع ہوتا ہے۔ راتیں جاگتی ہیں اور دن نکمے پن میں گزرتے ہیں۔ وقت وافر ہے۔ تین چار گھنٹے سیاسی یا مسلکی بحث میں گزر جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ ہمارے سیاستدان بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ وہ بھی ٹاک شو میں ایک دوسرے پر پل پڑتے ہیں۔ کروڑوں فارغ اور نکمے لوگ ایک دوسرے کو گالیاں نہ دیں تو وقت کیسے کٹے؟