کہسار مارکیٹ وفاقی دارالحکومت کا ایک معروف لینڈ مارک ہے۔ (یہیں پر ایک قتل بھی ہوا تھا)۔ تین چار ہفتے پہلے کسی کام سے وہاں جانا ہوا۔ پارکنگ میں ایک مشکوک سا شخص گھوم پھر رہا تھا۔ بلاشک و شبہ وہ افغان تھا۔ پارکنگ کے گارڈ سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ وہ مسکرایا مگر خاموش رہا۔ میں نے افغان سے پوچھا کہ افغان ہو؟ کہنے لگا: نہیں! پنجابی ہوں۔ میں نے کہا کہ شناختی کارڈ تو دکھاؤ۔ اس نے فوراً جیب سے شناختی کارڈ نکالا اور میری آنکھوں کے سامنے کر دیا۔ شناختی کارڈ کے اعتبار سے وہ خوشاب ضلع کے ایک گاؤں سے تھا۔ اب میں نے اس سے خوشاب کی ٹھیٹھ پنجابی میں بات کی مگر وہ مسلسل افغان زدہ اردو میں بات کرتا رہا اور بالکل نہ مانا کہ وہ افغان ہے۔ میں نے اسے اس کے حال پر چھوڑا‘ اپنا کام نبیڑا اور گھر واپس آگیا۔ دوسرے دن ایک اور واقعہ پیش آیا جو اس سے بھی زیادہ حیران کن تھا! میں اپنی ایک قریبی عزیزہ کے گھر گیا ہوا تھا۔ اس وقت اس کے ہاں اس کی ملازمہ بھی تھی۔ عزیزہ نے بتایا کہ اس پنجابی عورت کا داماد افغان ہے۔ یہ رو دھو رہی ہے کہ وہ رُوپوش ہے‘ سامنے آیا تو افغانستان بھیج دیا جائے گا۔ رو دھو اس لیے رہی تھی کہ شناختی کارڈ بنانے والے ایک لاکھ روپے مانگتے ہیں۔ ایک لاکھ وہ کہاں سے لائے!!
ان دونوں‘ ایک سو ایک فیصد سچے واقعات سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ پہلا نتیجہ یہ کہ جتنی کوششیں ادارے کر لیں‘ اچھی خاصی تعداد افغانوں کی کبھی بھی واپس نہیں جائے گی! دوسرا یہ کہ ہم پاکستانیوں میں ایسے پدر سوختہ‘ غدار‘ وطن فروش‘ بد عاقبت اور لالچی افراد موجود ہیں جو چند ٹکوں کی خاطر قومی دستاویزات بیچ کر تنورِ شکم میں ایندھن ڈال رہے ہیں! ایک بڑھیا تو ایک لاکھ روپے نہ ہونے کی وجہ سے داماد کو چھپائے بیٹھی ہے مگر جو رشوت کی رقم کا بندو بست کر لیں انہیں شناختی کارڈ مل جاتا ہے۔ شناختی کارڈ مل جائے تو پاسپورٹ بھی بن جاتا ہے۔ نہ جانے کتنے لاکھ غیرملکیوں کو یہ غدارانِ وطن ''پاکستانی‘‘ بنا چکے ہیں! آخر یہ غدار ہمارے سمارٹ اداروں سے پکڑے کیوں نہیں جاتے؟ کیا یہ ہمارے اداروں کی کارکردگی کے آگے سوالیہ نشان نہیں ؟
اب ایک تازہ خبر پڑھیے ''امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق افسر نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل نے ایران میں ہزاروں افغان پناہ گزینوں کو جاسوسی کیلئے بھرتی کیا۔ سی آئی اے کے سابق افسر جان کریا کو نے انٹرویو میں بتایا کہ اسرائیلی ایجنٹوں نے افغان پناہ گزینوں کو کسی بھی افسر کی نقل و حرکت کی اطلاع دینے کا ٹاسک دیا۔ اسرائیل کی جانب سے اس کام کے عوض ایک سو ڈالر دیے گئے۔ اس طرح ہزاروں افغان پناہ گزینوں کو جاسوسی کے کام میں لگایا گیا!‘‘۔ پڑھ لی آپ نے خبر! مزہ تو آیا ہو گا! قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند!! جس ملک نے ان طوطا چشموں کو پناہ دی‘ کھانے کیلئے روٹی دی‘ پینے کیلئے پانی دیا‘ رہنے کیلئے چھت دی۔ جس کی ہوا‘ دھوپ اور چاندنی سے انہوں نے زندگی پائی‘ اسی ملک کے خلاف جاسوسی کر رہے ہیں! وہ بھی صرف ایک سو ڈالر کے عوض!! انا للہ و انا الیہ راجعون! آپ کا کیا خیال ہے جو افغان پاکستان میں پناہ لیے بیٹھے ہیں اور جانے کا نام نہیں لے رہے‘ وہ ان افغانوں سے مختلف ہوں گے جو ایران میں پناہ گزین ہیں؟ اگر ایران میں پناہ لینے والے افغان اسرائیل کے گماشتے بنے ہوئے ہیں تو پاکستان میں پناہ لینے والے افغان یقینا بھارت کیلئے جاسوسی کر رہے ہوں گے! کیوں؟ اس لیے کہ تاریخ سینکڑوں بار ثابت کر چکی ہے کہ یہ قوم احسان فراموش ہے! یہ جو دہشت گرد دھاوے بول رہے ہیں تو پاکستان میں ٹِکے ہوئے افغان یقینا ان دہشت گردوں کو مدد فراہم کر رہے ہیں!! احسان فراموشی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ جن مُلا صاحب نے ایک عمر پاکستان میں گزاری‘ جائدادیں یہاں بنائیں‘ بچے یہاں پلے بڑھے‘ وہ افغانستان میں وزیر ہوئے تو بھارت کے چرنوں میں جا گرے! اینٹی پاکستان مُلا حضرات نے پاکستان سے خوب خوب فائدے اٹھائے۔ اقتدار ملا تو آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں اور دشمنی پر اُتر آئے۔ ویسے امارت ''اسلامیہ‘‘ ہے کمال کی امارت! کل ہی ایک معروف صحافی اپنے وی لاگ میں بتا رہے تھے کہ جب سے افغانستان سے اشیا آنا بند ہوئی ہیں‘ ولایتی شراب مہنگی ہو گئی ہے۔ سائل دہلوی یاد آگئے:
یہ مسجد ہے یہ مے خانہ تعجب اس پر آتا ہے
جناب ِشیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی
لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھنا چاہیے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ سب نہیں تو اس کا بہت سا حصہ پاکستان کا اپنا ہی کیا دھرا ہے‘ تو غلط نہ ہو گا۔ چیخنے والے چیختے رہے کہ افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں مگر ارباب ِحل و عقد کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ چمن تک آگئی دیوارِ زنداں! ہم نہ کہتے تھے۔ صدر ضیا الحق اس سارے گھڑمس کے بانی تھے۔ چلئے اگر امریکہ سے آئے ہوئے ڈالر افغان ''مجاہدین‘‘ میں بانٹنے تھے تو ضرور بانٹتے مگر لاکھوں جنگجوؤں کو بغیر ویزے اور پاسپورٹ کے پاکستان میں لانے کی کیا تُک تھی؟ ضیا الحق کا یہ جرم ناقابلِ معافی ہے۔ ایران کی پالیسی کے بالکل بر عکس‘ پورا ملک افغانوں کے حوالے کر دیا۔ روزگار کے تمام ذرائع پر افغان مہاجرین کا قبضہ ہو گیا۔ کہنے کو مہاجر تھے مگر مالک بن بیٹھے۔ اور اب واپس جانے کا نام نہیں لے رہے۔ ملک میں اسلحہ کی ریل پیل‘ منشیات‘ دہشت گردی‘ یہ گناہِ جاریہ ہے جو مرد مومن مردِ حق کما گیا۔ پھر ایک اور شوشہ چھوڑا گیا کہ روس گرم پانیوں تک آنا چاہتا ہے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ اب کیوں نہیں آنا چاہتا؟ یہ صرف شوشہ تھا جو امریکی ڈالروں کے حصول کیلئے چھوڑا گیا۔ جو لوگ کہتے تھے کہ روس افغانستان کے بعد پاکستان میں در آئے گا‘ اس گریٹ گیم سے نا واقف تھے جو دو سو سال جاری رہی صرف اس لیے کہ روس ہندوستان سے دور رہے۔
مگر سب سے بڑا جرم جو پاکستانی طالع آزماؤں نے کیا‘ اور تھا۔ اس میں کچھ جرنیل بھی ملوث تھے اور کچھ عَلم بردارانِ اسلام بھی! ان اہلِ غرض نے اپنے بچوں کو اعلی تعلیم کیلئے امریکہ بھیجا۔ پھر انہیں کاروبار پر لگایا مگر افغان بچوں کے ہاتھوں میں کتاب آنے دی نہ لیپ ٹاپ۔ ان کے ہاتھوں میں بندوقیں دیں! یہی بچے آج پاکستان کیلئے مصیبت بنے ہوئے ہیں! تعجب ہے کہ ''جہاد‘‘ کے یہ ٹھیکیدار خود غازی بنے نہ شہید ہوئے۔ ان کے بچوں نے بھی ''جہاد‘‘ سے مکمل پر ہیز کیا۔ ہاں افغان بچوں کا مستقبل ان اہلِ غرض نے تاریک کر دیا۔ لکھاریوں کی ایک کھیپ نے بھی صدر ضیا الحق کا اس معاملے میں پورا ساتھ دیا اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ مفاد کی اس کتاب کے ایک باب کا عنوان '' اوجڑی کیمپ‘‘ بھی ہے! تھوڑے لکھے کو بہت جانیے اور سمجھ جائیے!
افغانستان کے بگاڑ سے پاکستان اپنے آپ کو کبھی بھی بری الذمہ نہیں قرار دے سکتا۔ تاریخ دوبارہ لکھی جائے گی۔ آج نہیں تو کل! جو تاریخ آج پڑھی اور پڑھائی جا رہی ہے وہ لکھی نہیں‘ لکھوائی گئی ہے۔ جو تاریخ کل لکھی جائے گی اس میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ داروں کے نام بھی آئیں گے‘ افغانستان ''جہاد‘‘ کا کچا چٹھا بھی کھلے گا‘ نام نہاد جہادیوں کو ملک کے اندر لانے والوں کو بھی برہنہ کیا جائے گا اور دوسروں کے بچوں کو مروانے اور اپنے بچوں کو امیر بنانے والوں کے چہروں سے بھی ماسک اتریں گے! افسوس!
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روزِ سیاہ
خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے