ہم اور اسلام کا اصل چہرہ

''ہم پوری دنیا کو اسلام کا اصل چہرہ دکھانا چاہتے ہیں۔ ہمیں قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیوں کو اس طرح ڈھالنا ہے کہ ہم دنیا کو اسلام کا صحیح چہرہ دکھانے کیلئے خود کو اس قابل بنا سکیں کہ ہم زبان سے دعوت دینے کے بجائے انہیں اپنے کردار سے دعوت دے سکیں‘‘۔
یہ قابلِ تحسین بیان ہمارے مذہبی امور کے وفاقی وزیر صاحب کا ہے۔ ماشاء اللہ! بہت خوش آئند عزم ہے۔ ہر اچھے مسلمان کی یہی خواہش ہے۔ ہم بھر پور تائید کرتے ہیں۔ تائید سے ایک قدم آگے بڑھ کر ہم اس نیک کام میں ان کی معاونت کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری تجویز ہے کہ جب دنیا کو اسلام کا اصل چہرہ دکھائیں تو رائیونڈ کے محلات ضرور دکھائیے گا اور مختلف شہروں میں بنے ہوئے زرداری ہاؤس بھی! ایک جھلک لندن کے فلیٹوں کی بھی! اور ابھی آپ نے بڑی شخصیات کو جو عدالتی استثنا دیا ہے‘ اس سے بھی ضرور دنیا کو آگاہ کیجیے گا۔ اور اگر دنیا کہے کہ خلفائے راشدین حکمران ہوتے ہوئے بھی عدالتوں میں پیش ہوتے رہے‘ تو بحث میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں! دنیا کو کیا معلوم کہ آج کیا درست ہے اور کیا نادرست! ان بابوں کو بھی ضرور دکھائیے گا جو ملک کے اطراف و اکناف میں تشریف فرما ہیں۔ اور خلقِ خدا کی حاجات چٹکیوں میں پوری کرتے ہیں۔ کچھ مریدوں میں کرنٹ چھوڑتے ہیں۔ کچھ تھاپڑے مارتے ہیں۔ کچھ اولاد دیتے ہیں۔ کچھ صحت کے انچارج ہیں۔ کچھ محبوب ملوانے کے سپیشلسٹ ہیں۔ کچھ نے خلیفے رکھے ہوئے ہیں۔ ایک ایک ماہ کے اخراجات ایک ایک خلیفہ کے ذمے ہیں۔ بہت کم حقیقی اور جینوئن پیر اور اللہ والے بھی ہیں۔ انہیں مت دکھائیے گا ورنہ اکثریت ان صاحبان کی ناراض ہو جائے گی۔ اسلام کا اصل چہرہ دکھاتے وقت خواتین کو فراموش نہ کیجیے گا۔ ہمارے ہاں خواتین کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے وہ بھی اسلام سے بہت مطابقت رکھتا ہے۔ عورت بیٹی کو جنم دے تو اس پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ مار پیٹ‘ تشدد اور بعض اوقات طلاق کی سزا بھی ملتی ہے۔ شہر شہر گاؤں گاؤں نجی پنچایتیں‘ کھلے عام‘ متوازی نظامِ انصاف لیے بیٹھی ہیں۔ مرد جرم کا ارتکاب کرے تو سزا اس کی بہن یا بیوی کو ملتی ہے۔ دس پندرہ سال کی بچی کی ''شادی‘‘ ساٹھ ستر سالہ بُڈھے کے ساتھ ہو جاتی ہے۔ ہماری حکومت چونکہ اسلام کے معاملے میں ازحد سنجیدہ ہے اس لیے آج تک ان نجی پنچایتوں کو خلافِ قانون قرار نہیں دیا گیا‘ نہ ہی ان معاملات میں سزا دی جاتی ہے۔
پاکستان میں جو نظامِ انصاف رائج ہے‘ اسے ضرور دنیا کے سامنے لائیے گا۔ یہی تو اصل چہرہ ہے۔ اس ضمن میں دو نام ضرور دنیا کو بتائیے گا۔ حاجی عطا اللہ اور مجید خان اچکزئی۔ اول الذکر ٹریفک سارجنٹ تھا اور چوک پر کھڑا ڈیوٹی دے رہا تھا۔ جناب مجید خان اچکزئی قانون ساز ادارے کے معزز رکن تھے۔ انہوں نے عطا اللہ کو اپنی گاڑی کے نیچے دے کر ہلاک کر دیا۔ مگر یہ وہ بات نہیں جو دنیا کو بتائے جانے کے لائق ہے۔ آپ نے جو چہرہ دنیا کو دکھانا ہے اس میں ایم پی اے صاحب دو انگلیوں سے فتح کا نشان بنا رہے تھے۔ موصوف کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔ نظام انصاف کے حوالے سے ظاہر جعفر کا بھی دنیا کو بتانا چاہیے جس نے نور مقدم کو قتل کیا اور ابھی تک یہ مقدمہ چل رہا ہے۔ اُن چار نوجوانوں کا ذکر بھی ضروری ہے جو ایبٹ آباد سے روزگار کی تلاش میں اسلام آباد آئے تھے اور ایک گاڑی نے‘ جو ایک طاقتور خاتون کی ملکیت تھی اور جسے مبینہ طور پر ان کا صاحبزادہ چلا رہا تھا‘ ان چاروں نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار کر غمِ روزگار سے آزاد کر دیا۔ ہمارے نظامِ انصاف میں ایک اور بے مثال واقعہ بھی رونما ہوا۔ وفاقی دارالحکومت کے ایک معروف ریستوران میں کام کرنے والے دو نوجوان چھٹی کر کے رات کو گھر جا رہے تھے۔ ایکسپریس وے پر ایک تیز رفتار گاڑی نے دونوں کو مار دیا۔ ایک مقتول کے وارث تو جلد ہی ''افہام و تفہیم‘‘ کو بروئے کار لے آئے۔ دوسرے مقتول کے بے وقوف والد نے انصاف حاصل کرنے کی ٹھان لی۔ مگر جلد ہی وہ بھی راہِ راست پر آ گیا اور مقدمہ واپس لے لیا۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں! پاکستانی نظام انصاف میں اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ مدعی کو اچانک معلوم پڑتا ہے کہ اس نے جس کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے‘ وہ تو بے قصور ہے۔ چنانچہ وہ کیس واپس لے لیتا ہے۔ جنابِ والا کی خدمت میں عرض ہے کہ دنیا کو اس اسلام کا اصل چہرہ‘ جو پاکستان میں رائج ہے‘ دکھاتے وقت نظامِ انصاف کو ضرور شامل کیجیے گا۔ اب ڈمپر اور ٹریکٹر ٹرالیاں ہی دیکھ لیجیے۔ انہیں مرد عورتیں بچے بوڑھے مارنے کی کھلی چھٹی ہے۔ کوئی قانون ہے نہ سزا!!
ماشاء اللہ! ہمارا ملک اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے۔ مساجد مدارس کی کثرت ہے۔ ہم نے عزم کیا ہوا ہے کہ کریملن سے لے کر وائٹ ہاؤس تک‘ ہر جگہ اسلام پہنچانا ہے۔ ہمارا معاشرہ اسلامی اقدار سے چھلک رہا ہے۔ گوگل کہتا ہے کہ انٹرنیٹ پر خبیث نوعیت کے مناظر دیکھنے میں ہمارا پہلا نمبر ہے۔ وعدہ خلافی میں ہمارا ایک نام اور مقام ہے۔ مذہب کو سیاست اور کاروبار کیلئے خوب خوب استعمال کرتے ہیں۔ شراب نوش بتاتے ہیں کہ اس ممنوع مشروب کا حصول اسلام کے اس قلعہ میں ذرا بھی مشکل نہیں مگر بظاہر پابندی ضرور لگانی ہے!! دروغ گوئی رگوں میں خون کی صورت رواں ہے۔ ہر شخص ہر جگہ ہر وقت ہر حال میں جھوٹ بولتا ہے۔ بچے ماں باپ سے‘ ماں باپ بچوں سے‘ میاں بیوی سے‘ بیوی میاں سے‘ آجر ملازموں سے‘ ملازم آجر سے‘ حکومت عوام سے اور عوام حکومت سے جھوٹ بولتے ہیں۔ ریڑھی والوں سے لے کر حکمرانوں تک کوئی بھی سچ نہیں بولتا۔ تنخواہ سب پوری لیتے ہیں اور جائے ملازمت پر سب تاخیر سے پہنچتے ہیں۔ وفاقی وزیر صاحب کو اللہ خوش رکھے۔ دنیا کو اسلام کا اصل چہرہ دکھانے سے پہلے ایک بار ایک عام پاکستانی کی طرح کچہری جا کر زمین یا جائداد کا ذرا انتقال کرا کے دیکھیں یا تھانے جا کر کسی کیس میں ایف آئی آر ہی کٹوا کر دکھائیں! کسی مکان کا نقشہ ہی منظور کرا کر دکھا دیں۔ چلیے اسلام آباد ہی میں یہ کام کرا کے دکھا دیں!! اس اسلامی جمہوریہ میں ہر جگہ ہر قدم پر ہر معاملے میں رشوت عام ہے۔ سرکاری تعمیرات (ورکس) میں ''کمیشن‘‘ کو شیرِ مادر سمجھا جاتا ہے اور سب جانتے ہیں کہ یہ ہو رہا ہے۔ متشرع تاجر غذا سے لے کر دوا تک ہر شے میں ملاوٹ کر رہے ہیں۔ مال بیچتے وقت نَقص نہیں بتاتے۔ ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ خریدا ہوا مال واپس کرنا تو دور کی بات ہے‘ تبدیل تک نہیں کرتے۔ سرکاری فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں۔ کوئی تاجر یا ڈاکٹر‘ یا وکیل‘ جرم کرے اور پکڑا جائے تو اسے بچانے کیلئے سب تاجر ‘سب ڈاکٹر اور سب وکلا ہڑتال کر دیتے ہیں۔ اس اسلامی ملک میں دل کے مریضوں کو جعلی سٹنٹ ڈالے جاتے ہیں اور وہ بھی ضرورت کے بغیر! قصاب بر افروختہ ہیں کہ ان کا کام اور نام ڈاکٹروں نے کیوں اپنا لیا ہے۔ ہم پاکستانی جس اسلام کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ اکثر و بیشتر مسلم ملکوں کو قابلِ قبول نہیں! چنانچہ سعودی عرب ہو یا یو اے ای‘ ایران ہو یا ترکیہ‘ ملاایشیا ہو یا انڈو نیشیا‘ ہمیں ہزاروں کی تعداد میں ملک سے باہر نکال دیاجاتا ہے!
ہم عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہیں۔ اس لیے اسلام کا اصل چہرہ دکھانے کی ذمہ داری بھی ہماری ہے۔ ہم اس معاملے میں محترم وزیر صاحب کے ساتھ ہیں۔ کچھ اور مشورے یاد آگئے تو بعد میں پیشِ خدمت کر دیں گے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں