سولہ دسمبر

بنگالی دوستوں سے کئی مسائل پر اختلافات کے باوجود ہمارے تعلقات میں کبھی کوئی رخنہ نہ پڑا۔ مجموعی طور پر مشرقی پاکستان میں قیام میری آئندہ زندگی اور کیریئر کیلئے سنگِ میل ثابت ہوا۔ ڈھاکہ یونیوسٹی میں تب سی ایس ایس کا امتحان بہت مقبول تھا۔ ٹاپ کی پہلی یا دوسری پوزیشن مشرقی پاکستان ہی لے جاتا تھا۔ سی ایس ایس میں قسمت آزمانے کا ارادہ وہیں بنا۔
کچھ مشاہیر کو پہلی بار ڈھاکہ ہی میں دیکھا۔ میرے دوست مقصود کی طبیعت خراب تھی۔ معلوم ہوا کہ حکیم محمد سعید آئے ہوئے ہیں۔ میں اسے لے کر ان کے مطب میں گیا۔ یوں انہیں پہلی بار دیکھا۔ مولانا مودودی اور چودھری رحمت الٰہی کو بھی پہلی بار ڈھاکہ ہی میں دیکھا۔ ایک دن مرکز پسند بنگالی طلبہ آئے اور کہنے لگے کہ نواب زادہ نصراللہ خان آئے ہوئے ہیں۔ چلو‘ ان سے ملاقات کرتے ہیں۔ وہ پرانے ڈھاکہ میں مسلم لیگ کے خواجہ خیرالدین کے ہاں قیام پذیر تھے۔ شاید یہ احسن منزل تھی جہاں 1906ء میں مسلم لیگ کی تشکیل ہوئی تھی! نواب زادہ نصراللہ خان نے ململ کا سفید کُرتا زیب تن کر رکھا تھا جس کے کندھوں اور سینے پر بیل بوٹے کڑھے ہوئے تھے۔ سر پر حسبِ معمول ترکی ٹوپی تھی اور منہ میں حقے کی نَے! جن اشیا سے ہماری تواضع کی گئی ان میں ڈھاکہ کا مشہورِ زمانہ پنیر بھی تھا! طارق علی کی تقریر بھی ڈھاکہ یونیورسٹی ہی میں سنی۔
یہ درست ہے کہ ڈھاکہ یونیورسٹی طلبہ کی سیاست کا گڑھ تھی‘ مگر پڑھائی میں مگن رہنے والے طلبہ سیاست سے کنارہ کش ہو کر ا پنا کام کرتے رہتے تھے۔ لائبریری 24گھنٹے کھلی رہتی تھی۔ جس زمانے میں پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ بھی انگریزی سوٹ پہنتے تھے‘ ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر کُرتے اور پاجامے میں ملبوس ہوتے تھے۔ پاکستان کو دولخت ہونے سے بچانے کا واحد باعزت حل‘ چھ نکات‘ ڈھاکہ یونیورسٹی کے اساتذہ ہی کی تخلیق تھے۔ کامرس‘ ریاضی‘ اسلامک ہسٹری اینڈ کلچر‘ اکنامکس ڈھاکہ یونیورسٹی کے کامیاب ترین اور مشہور شعبے تھے۔ اساتذہ خوب تیاری کر کے آتے تھے۔ میرے پسندیدہ پروفیسر ڈاکٹر کے ٹی حسین تھے۔ وہ ہمارے اکنامکس کے شعبے کے سربراہ تھے اور ہمیں یعنی ایم اے فائنل کی کلاس کو دو مضامین پڑھاتے تھے۔ ڈیموگرافی اور ڈویلپمنٹ۔ وہ ہاتھ میں بیگ لٹکائے متانت اور دھیمے پن سے چلتے ہوئے تشریف لاتے تھے۔ ان کی آخری کلاس نہیں بھولتی! انہوں نے کہہ رکھا تھا کہ آخری لیکچر میں حاضری بھرپور ہونی چاہیے! انہوں نے حسبِ معمول‘ آہستگی سے رول نمبر پکارنا شروع کیے۔ 125طلبہ و طالبات کی کلاس تھی اور انہیں سب کے رول نمبر ازبر تھے۔ رول نمبر پکار کر وہ طالب علم کو تلاش کرتے اور جب وہ یس سر کہتا یا کہتی تو وہ اسے دیکھ رہے ہوتے۔ ہم نے انہیں کبھی غصّے کی حالت میں نہیں دیکھا بلکہ پیشانی پر ہلکی سی شکن بھی کبھی نظر نہ آئی۔ پھر انہوں نے حسبِ معمول ہینڈ بیگ کھولا جس میں وہ ہر روز نئی نئی کتابیں بھر کر لاتے تھے۔ کچھ کتابوں کے ٹائٹل دکھاتے کہ یہ کتاب پڑھو۔ کچھ سے اعداد و شمار دیکھتے تھے۔ اس آخری پیریڈ میں انہوں نے کسی خاص موضوع پر گفتگو نہیں کی بلکہ صرف ہدایات دیں۔ وہ جذباتی بالکل نہ تھے مگر کلاس روم کا ماحول سوگوار تھا۔ بقول شبیر شاہد...
فضا میں لہرا رہے تھے افسردگی کے سائے
تمام ذہنوں میں ایک سایہ سا چل رہا تھا
وہ کہہ رہے تھے اور ہم ہمہ تن گوش تھے ''تم بعد میں کمیونسٹ بنو یا کیپٹلسٹ یا فاشسٹ‘ لیکن یاد رکھو صرف اپنی سوچ‘ اپنے مطالعہ اور اپنی تحقیق پر انحصار کرنا! ان کا زور ''Your own Thinking‘‘ پر تھا! ایک طالب علم نے سوال کیا کہ آپ خود کیا ہیں؟ انہوں نے مسکرا کر جواب دیا ''ایک شہری کی حیثیت سے میری اپنی رائے اور اپنے خیالات ہیں لیکن ایک استاد کی حیثیت سے میں اپنے نظریات کا پرچار کلاس میں کرنا پسند نہیں کرتا کہ تم ان نظریات کی طرف جھک نہ جاؤ۔ اسی لیے میں نے تم پر اپنے نظریات مسلط نہیں کیے‘‘۔ پھر انہوں نے کچھ ہدایات دیں۔ یہ وہ نکات تھے جو اس کے بعد کسی نے نہ بتائے! ''فضول کتابیں نہ پڑھنا! خاص طور پر Made easy قسم کی کتابیں! ایسی کتابیں انڈرگریجوایشن کو بھی نہیں زیب دیتیں اور تم تو ایم اے فائنل میں ہو! اپنے اساتذہ کے بتائے ہوئے حوالہ جات کو اہمیت دینا! امتحان میں سوال کا جواب لکھتے وقت بالکل ٹو دی پوائنٹ نہیں ہونا چاہیے۔ ممتحن کو احساس ہونا چاہیے کہ تم کچھ پڑھ کر آئے ہو‘ رَٹ کر نہیں آئے! تمہارے جواب کا دائرہ (رینج) وسیع ہونا چاہیے۔ یہ غلط ہے کہ پورے سال کے دوران تم جو کچھ پڑھتے ہو‘ بھول جاتے ہو۔ امتحان میں وہ چیزیں ضرور کام آتی ہیں جو بہت پہلے پڑھی ہوتی ہیں۔ امتحان کے ایام میں جس قدر ممکن ہو کم بولنا‘ کم پڑھنا‘ خاص کر پرچے کے دن تازہ دم ہونا چاہیے! نوٹس لیتے وقت چھوٹے سائز کی کاپی استعمال نہیں کرنی چاہیے! فل سکیپ کاغذ پر لکھا کرو اس لیے کہ صفحے پر بہت سی چیزیں سمائیں گی۔ کمرۂ امتحان میں تمہارے ذہن پر پورا صفحہ ابھرے گا تو زیادہ چیزیں یاد آئیں گی! مطالعہ میں تمہیں Selective ہونا ہو گا۔ اخبار ضرور پڑھو مگر نصف گھنٹے سے زیادہ نہیں‘‘! پھر انہوں نے زندگی میں وہی سپرٹ برقرار رکھنے کا حکم دیا جو اُس وقت ہم میں تھی! ''تمہارے دل میں انسانیت کیلئے وہی درد اور محبت ہونی چاہیے جو آج ہے! اگر کسی مرحلے پر تمہارا ذہن کرپٹ ہو گیا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تم شکست کھا گئے ہو! ملازمت اچھی نہ ملے‘ تب بھی اپنا معیار‘ اپنا جذبہ اور اپنا ڈسپلن مجروح نہ کرنا! اصولوں پر سمجھوتا نہ کرنا!‘‘
پھر انہوں نے اقبال کی تصنیف اسرارِ خودی پڑھنے کی تلقین کی۔ پھر اُردو کے کچھ اشعار پڑھے۔ انہوں نے زندگی میں اقبال‘ ٹیگور اور عظیم تھنکرز کی رہنمائی حاصل کرنے کی نصیحت کی! آخر میں سارا سال پُرامن رہنے پر کلاس کا شکریہ ادا کیا۔ بیگ بند کیا اور مسکراتے ہوئے چلے گئے! یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ایک گھنے درخت کا سایہ دور ہو رہا ہے۔ تقریباً دس سال بعد معلوم ہوا کہ وہ کسی کانفرنس میں اسلام آباد تشریف لائے ہوئے ہیں! میں نے انہیں تلاش کیا۔ انہوں نے کمال شفقت سے میری دعوت قبول فرمائی! تب میرا بڑا بیٹا ڈاکٹر محمد اسرار الحق پانچ چھ سال کا تھا۔ میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ دعا کیجیے یہ بھی ڈھاکہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرے! وہ مسکرائے۔ یقینا میری یہ خواہش غیرحقیقت پسندانہ تھی! میری دوڑ‘ اپنے ہی ملک کی یونیورسٹی ڈھاکہ تک تھی۔ بچوں کا زمانہ اور ہے۔ ایک نسل جہاں سفر کا اختتام کرتی ہے‘ آنے والی نسل کا وہاں سے آغاز ہوتا ہے۔
ڈھاکہ یونیورسٹی سے نکلے ہوئے پچپن برس ہو چکے ہیں مگر مادرِ درسگاہ کی محبت دل میں آج بھی اسی طرح ہے! اس کے بعد گردشِ زمانہ نے وہاں جانے نہیں دیا مگر دل آج بھی اس کے نام پر دھڑکتا ہے۔ آرٹس بلڈنگ کے چھلکتے ہوئے برآمدے آج بھی نگاہوں کے سامنے لہرا سے جاتے ہیں۔ محسن ہال (نیل کھیت) کا کمرہ نمبر 367جس میں مَیں رہتا تھا‘ آج بھی میرے دل کا مسکن ہے۔ نیو مارکیٹ اور بلاکا (Blaka) سنیما آج بھی پانچ منٹ کی پیدل مسافت پر ہیں۔ میرے بنگالی دوست جو مجھ سے محبت کرتے تھے اور اپنے گھروں میں لے جا کر میزبانی کرتے تھے‘ آج بھی یاد آتے ہیں تو دل میں باغ مہک اٹھتے ہیں! میری حسرت تھی کہ میں اسی یونیورسٹی میں پڑھاؤں مگر کاتبِ تقدیر نے ایک مختلف راستہ چن رکھا تھا اور مجھے بہر طور اسی راستے پر گامزن ہونا تھا۔ ہم زندگی بھر رابرٹ فراسٹ کی نظم ''The Road Not Taken‘‘ کی عملی تصویر بنے رہتے ہیں۔ شاید ہم میں سے اکثر! ہم زندگی بھر زخموں کے اوپر بنے ہوئے کھرنڈ چھیلتے رہتے ہیں! اور رِستے خون سے لذت کشید کرتے رہتے ہیں۔
(اپنی خود نوشت ''بکھری ہے میری داستاں‘‘ سے ایک اقتباس)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں