قاتلوں کا گروہ اور مقتولین

چیخ تھی اور ایسی کہ زمین و آسمان نے ایسی چیخ نہیں سنی تھی۔
سب دوڑ رہے تھے۔ سب ایک ہی سمت جا رہے تھے۔ لاتعداد لوگ! شمار سے باہر لوگ! حیرت کی بات یہ تھی کہ ہجوم لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہا تھا۔ دھوپ تیز سے تیز تر ہو رہی تھی۔ دور دور تک کوئی درخت‘ کوئی چھت‘ کوئی سائبان‘ کوئی بادل نہیں نظر آ رہا تھا۔ سب سنتے آئے تھے کہ سورج سوا نیزے پر ہو سکتا ہے۔ آج سب یہ ہوتا دیکھ رہے تھے۔ سب پسینے میں شرابور تھے۔ پیاس اتنی تھی کہ زبانوں پر دراڑیں پڑ رہی تھیں۔ کہیں کوئی دریا‘ کوئی جھیل‘ کوئی چشمہ‘ کوئی کنواں‘ کوئی تالاب‘ کوئی جوہڑ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میدان اتنا بڑا تھا کہ ایک کنارہ ایک افق سے تو دوسرا دوسرے افق سے مل رہا تھا۔ یہ میدان بالکل بنجر تھا۔ کہیں کوئی روئیدگی نہیں تھی۔ گھاس کا تنکا تک کہیں نہ تھا۔ لوگ گرتے تھے‘ اُٹھ کر پھر دوڑنے لگتے تھے۔ سینے دھونکنیوں کی طرح چل رہے تھے۔
پھر اس لاتعداد خلقت نے دیکھا کہ ایک طرف‘ افق سے‘ آسمان پر ایک سایہ سا چلا۔ یہ سایہ پھیلتے پھیلتے‘ بڑھتے بڑھتے‘ سب کے سروں پر تن گیا۔ یہ اور بات کہ دھوپ اسی طرح چلچلاتی رہی۔ یہ سایہ ایک فرشتے کا پر تھا۔ پھر یہ پر غائب ہو گیا۔ جیسے ہی غائب ہوا‘ لوگ ایک خودکار الیکٹرانک کھلونے کی طرح ٹکڑیوں میں بٹ گئے۔ کیسے؟ کوئی نہ جان سکا! اب یہ ٹکڑیاں چلنے لگیں۔ تعجب کی بات یہ تھی کہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کچھ لو گ گروہوں کی صورت بیٹھے نظر آنے لگے۔ کچھ گروہ دائیں طرف تھے‘ کچھ بائیں طرف! دائیں طرف والے گروہ سایہ دار درختوں کے نیچے فروکش تھے۔ ہوا‘ نہ جانے کہاں سے آ رہی تھی‘ مگر چل رہی تھی۔ ان کے پاس پانی کا بھی انتظام تھا۔ کسی کسی گروہ کے پاس پھل بھی پڑے دکھائی دے رہے تھے۔ کچھ سبز گھاس پر بیٹھے تھے۔ کچھ گدوں پر نیم دراز تھے۔ کچھ آرام دہ کر سیوں پر بیٹھے تھے۔ بائیں طرف والے گروہ بُرے حال میں تھے۔ اتنے برے کہ ان کی حالت ناقابلِ بیان تھی‘ ناقابلِ تصور تھی۔ چلتے چلتے‘ دوڑتے دوڑتے‘ لوگوں نے دیکھا کہ دائیں طرف ایک ایسا گروہ بیٹھا ہے جن کی خدمت کیلئے خدام ادھر ادھر دوڑ رہے تھے۔ یہ شیشوں کے کمروں میں تھے۔ باہر جلی حروف میں لکھا تھا ''مقتولین‘‘۔ اندر روشنی کے قمقمے تھے۔ میوے اور مٹھائیاں میزوں پر چُنی تھیں۔ سینکڑوں اقسام کے مشروبات پیش کیے جا رہے تھے مگر یہ لوگ کھانے پینے سے انکار کر رہے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ پہلے ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے۔ خدام یقین دلا رہے تھے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں‘ انصاف کا وقت قریب آ رہا ہے‘ بس کچھ دیر اور! خدام درست کہہ رہے تھے۔ کچھ دیر گزری تھی کہ مقتولین کے سرسبز وشاداب احاطے کے سامنے ایک اور احاطہ نمودار ہوا۔ اس کے اردگرد پردے تنے ہوئے تھے۔ آہستہ آہستہ پردے اوپر اٹھنے لگے۔ پردے اٹھنے کے بعد جو منظر سامنے آیا اسے دیکھ کر مقتولین کی روحیں بھی کانپ اٹھیں۔ کہاں تو وہ انصاف کا مطالبہ کر رہے تھے‘ کہاں اب اس نئے احاطے کے اندر رہنے والوں کو دیکھ کر ان پر کپکپی طاری ہو رہی تھی۔
اس احاطے میں بند لوگ بیٹھے تھے نہ کھڑے تھے۔ دراز تھے نہ نیم دراز تھے۔ بس ایک پاؤں زمین پر رکھتے تو چیخ کر فوراً یہ پاؤں ہٹا لیتے اور دوسرا پاؤں رکھ دیتے۔ پھر چیختے اور دوسرا پاؤں بھی ہوا میں اٹھا لیتے۔ بس یوں کہیے کہ عملاً یہ ایک ہی پاؤں پر کھڑے تھے۔ ایک ثانیہ ایک پاؤں پر اور دوسرا ثانیہ دوسرے پاؤں پر! اس لیے کہ ان کے نیچے زمین پر سلاخیں گڑی تھی۔ نوکدار سلاخیں! یہ نوکدار سلاخیں اتنی گرم تھیں کہ سرخ ہو رہی تھیں جیسے لوہا بھٹی میں سرخ ہو جاتا ہے۔ ان سلاخوں پر ایک ثانیے سے زیادہ پاؤں رکھنا ممکن ہی نہ تھا۔ یہ ایک ثانیہ بھی ایسا تھا کہ نوکدار سلاخیں تلوے کے اندر جاتیں پھر فوراً باہر آ جاتیں۔ تلوے سے خون کا فوارہ نکلتا۔ اتنے میں دوسرا پاؤں نوکدار سلاخوں میں پرویا جاتا اور خون میں نہا جاتا۔ مگر یہ تو صرف پاؤں تھے۔ پَیروں سے اوپر کا منظر دیکھ کر قوی سے قوی اور مضبوط سے مضبوط انسان کا پتّا پانی ہو جاتا تھا۔ ان لوگوں کے سروں پر آگ کی ٹوپیاں تھیں۔ ان ٹوپیوں کے اندر سے آگ نکلتی‘ پھر بجھتی‘ پھر جلتی۔ ان کی آنکھیں کھنڈر بن چکی تھی! ایک ایک دانت ان کا پہاڑ کے سائز کا ہو گیا تھا۔ ناک سے دھواں نکل رہا تھا۔ ان کے ہاتھ لوہے کے تھے اور اس قدر بھاری کہ بازو اس بوجھ سے لمبے ہو گئے تھے‘ یہاں تک کہ ہاتھ زمین کو چھو رہے تھے۔ انہیں پینے کے لیے ابلتا پانی دیا جا رہا تھا۔ جیسے ہی اس پانی کا گھونٹ بھرتے‘ حلق سے لے کر معدے تک آگ بھڑک اٹھتی۔ روٹی میں کانٹے تھے‘ لمبے نوکدار کانٹے! کھانے سے انکار کرتے تو کوڑے پڑتے اور آواز سنائی دیتی ''ذُق! اِنَّکَ انت العزیز الکریم! چکھ! تو بڑا زبردست عزت دار آدمی تھا‘‘۔
یہ وہ لوگ تھے جو بڑے بڑے مناصب پر فائز تھے۔ یہ بہت طاقتور لوگ تھے۔ یہ محلات میں رہتے تھے۔ ان کے گھروں اور دفتروں میں ملازموں کے ہجوم تھے۔ یہ کوئی چیز لانے کا حکم دیتے تو ملازم بجلی کی رفتار سے حاضر کرتے۔ پولیس ان کی کنیز تھی۔ قانون ان کے پیروں تلے قالین کی صورت بچھا تھا جس پر یہ جوتوں سمیت چلتے تھے۔ ان کی گردنیں تنی رہتیں۔ ان کی پیشانیوں پر بل پڑے رہتے۔ یہ اپنے سے بلند تر لوگوں کے سامنے گھگھیاتے‘ ممیاتے‘ رکوع میں چلے جاتے۔ یہ اپنے سے کمتر لوگوں پر غرّاتے‘ ان کے سلام کا جواب ابرو کے اشارے سے دیتے۔ انہیں ملنے سے ان صاحبان کو گھن آتی۔ ان میں کچھ وڈیرے تھے‘ کچھ عدل وانصاف کی مسندوں پر فائز تھے‘ کچھ صنعتکار تھے‘ کچھ حاکم تھے۔ ان میں عورتیں بھی تھیں جو بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھیں۔ ان سب میں ایک چیز مشترک تھی۔ ان کے پاس بڑی بڑی‘ جہازی سائز کی گاڑیاں تھیں۔ ایک ایک گاڑی کی قیمت دس دس‘ بیس بیس کروڑ تھی۔ ان کی اولاد ان گاڑیوں کو چلاتے وقت یوں محسوس کرتی جیسے آسمانوں پر اُڑ رہی ہو! سامنے آنے والے راہگیر‘ سائیکل اور موٹر سائیکل سوار انہیں کیڑوں کی طرح دکھائی دیتے۔ یہ انہیں کچل دیتے۔ پھر ان کے طاقتور ماں باپ‘ اقتدار اور اختیار کے نشے میں چور‘ مقتولین کے گھروں میں جاتے۔ وہاں جاکر معافی کم مانگتے اور اپنی پوزیشن کا رعب زیادہ جھاڑتے۔ یہ مقتولین پر ہر وہ دباؤ ڈالتے اور ڈلواتے جس کا تصور ممکن ہوتا۔ پولیس بھی ان کے کہے پر دباؤ ڈالتی۔ سوسائٹی کے معززین بھی ان کی خاطر دباؤ ڈالتے۔ یہاں تک کہ کمزور‘ بے بس‘ بے کس‘ غریب پسماندگان ہتھیار ڈال دیتے۔ ان پسماندگان کے دہانوں میں زبردستی کرنسی نوٹ ٹھونسے جاتے۔ یہ بے بس کمزور لوگ عدالتوں میں جا کر مقدمے واپس لے لیتے۔ ہلاک کرنے والے امیر زادوں کو سزا ملنے کا سوال ہی نہ پیدا ہوتا۔
کارروائی شروع ہوئی۔ مقتولین کے احاطے سے ایک ایک مقتول کو بلایا جاتا۔ قاتل اور اس کے مربیوں کو بھی بلایا جاتا۔ یہ آگ‘ دھوئیں اور خون میں لپٹے ہوتے۔ مقتول لڑکیاں‘ مقتول لڑکے اور مقتول مرد اور عورتیں ان سے مخاطب ہوتیں اور کہتیں: طاقت ہے اور اختیار ہے تو آج بھی ہمارے خاندانوں پر دباؤ ڈالو! تب انصاف کرتے یا انصاف ہونے دیتے تو آج ذلت کے گڑھے میں نہ ہوتے۔ تم بھول گئے تھے کہ دنیا کی نام نہاد عدالت کے بعد ایک عدالت اور بھی لگے گی جہاں تمہاری گردنیں تنی ہوئی نہیں ہوں گی بلکہ ڈھلکی ہوئی ہوں گی۔ تمہیں اپنے لاڈلوں کی بہت فکر تھی مگر دوسروں کے لخت ہائے جگر کو تم کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت دینے کیلئے تیار نہ تھے۔ آج تمہاری آہ و زای‘ منت سماجت‘ گڑگڑانا‘ رحم کی بھیک مانگنا‘ سب عبث ہے! جاؤ! ہماری نظروں سے دور ہو جاؤ!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں