''ہم بُک فیئر منعقد کر رہے ہیں‘ فلاں تاریخ کو آپ کا پروگرام رکھا ہے‘ فلاں نمبر پر بات کر کے تفصیلات لے لیجیے‘‘۔
یہ نادر شاہی حکم ایک نیم سرکاری‘ نیم علمی ادارے کی ایک اہلکار نے ٹیلی فون پر صادر کیا۔ جب کہا کہ مجھ سے پوچھے بغیر آپ نے پروگرام کیسے رکھ لیا؟ اور تاریخ بھی خود ہی طے کر لی؟ تو اہلکار‘ یعنی اہلکارن نے فون بند کر دیا۔ ادارے کے سربراہ سے اس ''آمریت‘‘ کا ذکر کیا تو موصوف نے معذرت کم کی اور اہلکارن پر کام کے بوجھ پر بات زیادہ کی۔
سوال یہ ہے کہ ادیب اور شاعر کے ساتھ Taken for granted والا سلوک کیوں کیا جانے لگا ہے؟ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ کچھ ذمہ دار اس صورتحال کے ادیب اور شاعر خود بھی ہیں۔ ہر پروگرام‘ ہر مشاعرے‘ ہر کتابی میلے میں شامل ہونے کیلئے ''جدوجہد‘‘کرنا! ہر کس وناکس کی‘ ہر ایرے غیرے کی منت سماجت کرنا‘ پروگرام لینے کیلئے مرے جانا‘ عزتِ نفس کو گروی رکھ دینا ہم میں سے کچھ ادیبوں اور شاعروں کا وتیرہ ہی بن گیا ہے۔ اس رویے کے سبب پروگرام منعقد کرنے والے عزت تو کیا کریں گے‘ اہمیت ہی نہیں دیتے۔ یہ تصور جو عہدِ قدیم میں تھا‘ آج بھی موجود ہے‘ اگرچہ کم! کہ شاعر آئے گا‘ بہت سی غزلیں سنائے گا‘ جاتے ہوئے قرض یا مدد بھی مانگے گا۔ آج اگرچہ بہت سے شاعر اور ادیب اچھے مناصب پر فائز ہیں مگر چند دریوزہ گروں کی وجہ سے پورے طبقے کو ہلکا لیا جاتا ہے۔ دوسرا سبب‘ جو پہلے سے بھی بڑا سبب ہے‘ ادبی اور نیم ادبی اداروں کو ایسے افراد کے سپرد کر دینا ہے جنہیں معلوم ہی نہیں کہ کون سا ادیب یا شاعر کتنے پانی میں ہے؟ لٹریچر سے تعلق ہی نہ ہو تو شاعروں ادیبوں کا مقام کیسے معلوم ہو گا؟ اس وقت وفاقی دارالحکومت میں دو اہم اور مرکزی ادارے اکادمی ادبیات اور مقتدرہ قومی زبان ( نیا نام ادارۂ فروغِ اردو) ہیں۔ دونوں کے سربراہ علم اور ادب کی دنیا میں معروف ہیں اور باعزت مقام رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم مظہر فارسی ادبِ عالیہ کے سمندر ہیں۔ خود ادیب ہیں۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف زندگی بھر اردو ادب پڑھاتی اور لکھتی رہی ہیں۔ علمی اور ادبی اعتبار سے اس قدر بلند مرتبہ ہونے کے باوجود کسی پروگرام میں مجھ جیسے بے بضاعت کو نامزد کریں تو دونوں شخصیات خود فون کر کے‘ عزت افزائی کرتی ہیں۔ اس لیے کہ: نہد شاخِ پُر میوہ سر بر زمین! جو شاخ پھلوں سے لدی ہو گی وہ جھکی ہوئی ہو گی! مگر جس کا ادب سے تعلق ہی نہ ہو اسے ادیب یا شاعر کی کیا قدر ہو گی۔ ادیبوں اور شاعروں پر لازم ہے کہ اپنی عزتِ نفس کا خیال رکھیں۔ معمولی سی تشہیر یا فائدے کی خاطر کسی سبک سر کو اہمیت نہ دیں۔ بے نیاز رہیں۔ یہ پیاسے کا کام ہے کہ کنویں کے پاس آئے‘ کنویں کو کیا ضرورت ہے کہ پیاسے کو بلائے۔ بہت سے لوگ شاعروں کو تفریح (entertainment) کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ کسی غیر سنجیدہ مجلس میں لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ ایک شاعر بھی موجود ہے تو اکثر تفننِ طبع کے طور پر اس سے شعر سنانے کی فرمائش کرتے ہیں‘ جبکہ ہر محفل اس لائق نہیں ہوتی کہ وہاں سنجیدہ کلام سنایا جائے یا اپنا تعارف بطور شاعر کرایا جائے۔ حفیظ جالندھری صاحب سے ایک لطیفہ نما واقعہ منسوب ہے۔ نہیں معلوم اس میں کتنی سچائی ہے! حفیظ صاحب ریل میں سفر کر رہے تھے۔ فرسٹ کلاس یا سیکنڈ کلاس کا چھوٹا ڈبہ تھا۔ حفیظ صاحب سے پوچھا گیا کہ وہ کون ہیں اور کیا کرتے ہیں۔ انہوں نے بہت اعتماد سے کہا: میں حفیظ ہوں! ان کا خیال تھا کہ وہ چونکہ صفِ اول کے شاعر ہیں اس لیے نام سنتے ہی ان کے ہم سفر ادب واحترام کا مظاہرہ کر یں گے۔ مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ انہوں نے دوبارہ کہا کہ میں حفیظ ہوں‘ شاہنامہ اسلام کا خالق! برف پھر بھی نہ پگھلی۔ حاضرین متاثر نہ ہوئے۔ اب کے انہوں نے زیادہ زور سے کہا کہ بھئی! میں حفیظ ہوں جس نے قومی ترانہ لکھا ہے۔ اس پر بھی کسی نے کوئی اہمیت نہ دی۔ آخر زچ ہو کر انہوں نے کہا: بھئی! میں حفیظ جالندھری ہوں! اس پر دو تین افراد جوش میں آکر کھڑے ہو گئے۔ حفیظ صاحب سے بھرپور معانقہ کیا اور کہا: اچھا! تو آپ بھی جالندھر کے ہیں!‘‘۔ ویسے آج کل کے زمانے میں‘ شعر سنانے کا ہَوکا زیادہ تر اُن شاعروں کو ہوتا ہے جو ترنم سے پڑھتے ہیں! ترنم بھی کیا چیز ہے!! ناشاعروں کو شاعر بنا دیتا ہے!
ادیبوں اور شاعروں کی بات چل نکلی ہے تو اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ خود ادیب اور شاعر اپنے طبقے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ وفاقی حکومت نے کم از کم اسلام آباد میں ایک ''رائٹرز ہاؤس‘‘ بنا دیا ہے جہاں دوسرے شہروں سے آئے ہوئے اہل قلم قیام کر سکتے ہیں۔ جہاں تک اس لکھنے والا کی ناقص معلومات کا تعلق ہے‘ کراچی لاہور اور دوسرے بڑے شہروں میں ایسا کوئی انتظام نہیں۔ کچھ ادیب اور شاعر ثروت مند بھی ہیں۔ کیا انہوں نے کبھی اس زاویے سے سوچا ہے؟ دو کمروں کا اپارٹمنٹ بھی ہو اور عرصۂ قیام کی اجازت تین دن سے زیادہ نہ ہو‘ تو اتنی سہولت بھی بہت بڑی ہے۔ اس سیاق وسباق میں جناب حسین مجروح کی انتھک اور مسلسل کوششوں کا ذکر نہ کرنا احسان فراموشی ہو گی! حسین مجروح اہل قلم کی تن تنہا اتنی خدمت کر رہے ہیں جتنی کوئی تنظیم‘ کوئی سوسائٹی بھی نہیں کر رہی۔ پہلے ''سائبان‘‘ کے نام سے انجمن بنائی جو قلم کاروں کی فلاح وبہبود کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ سائبان تحریک کا بنیادی نعرہ ہے کتاب پڑھیے اور خرید کر پڑھیے۔ پھر مجروح صاحب نے ادبی جریدے کا اجرا کیا جو باقاعدگی سے نکل رہا ہے اور اعلیٰ معیار کو قائم رکھے ہے۔ مجروح صاحب کا تازہ کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے لاہور میں ایک مہمان خانے (گیسٹ ہاؤس) کا انتظام کر کے اس منصوبے کا افتتاح بھی کر دیا ہے۔ یہ مہمان خانہ ٹھوکر نیاز بیگ کی بغل میں واقع ایک سوسائٹی میں واقع ہے۔ دوسرے شہروں کے اہلِ قلم پیشگی بکنگ کے بعد یہاں قیام کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بہت بڑی سہولت ہے اور مجروح صاحب کی انتھک کوشش کا ثمر۔ ساتھ ہی یہاں ادبی بیٹھک کا بھی انتظام کیا گیا ہے جو جنوبی لاہور میں پہلی ادبی بیٹھک ہو گی۔ ظاہر ہے جنوب کے رہنے والوں کے لیے پاک ٹی ہاؤس بہت دور پڑتا ہے۔ مجروح صاحب کا ایک اور کارنامہ ساہیوال کے مشہور ''سٹیڈیم ہوٹل‘‘ کی بحالی ہے۔ اس ہوٹل کا اعزاز ہے کہ یہاں مجید امجد بیٹھا کرتے تھے۔ بہت عرصہ یہاں ادیبوں اور شاعروں کی منڈلی جمتی رہی۔ جعفر شیرازی‘ اسرار زیدی‘ منیر نیازی اور سجاد میر بھی یہاں بیٹھتے رہے۔ اوکاڑہ سے ظفر اقبال صاحب بھی آکر ان محفلوں میں شریک ہوتے رہے۔ پھر یہ ہوٹل امتدادِ زمانہ سے ویرانے میں بدل گیا۔ مجروح صاحب نے ذاتی کوششوں سے اسے دوبارہ اس قابل بنایا ہے کہ ادیب یہاں آ کر بیٹھا کریں۔ اس سلسلے میں ساہیوال کے ڈی سی صاحب نے مجروح صاحب کی مدد کی ہے۔
اس ساری تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ پہلو میں دردمند دل ہو تو فردِ واحد بھی بہت کچھ کر سکتا ہے۔ اور دل کے بجائے پتھر ہو تو انجمن بھی کچھ نہیں کر سکتی۔ اصولی طور پر تمام بڑے شہروں میں ادیبوں کے ہوسٹل ہونے چاہئیں۔ حیدر آباد‘ کراچی‘ ملتان‘ فیصل آباد اور پشاور میں جن اہلِ قلم کو قدرت نے استطاعت عطا کی ہے انہیں مل بیٹھ کر سوچنا چاہیے کہ اس حوالے سے وہ کیا کچھ کر سکتے ہیں! سفر کا عزم پختہ ہو تو راستہ آسان ہو جاتا ہے۔