میری ان سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ لیفٹیننٹ کرنل تھے اور میں نے سی ایس ایس کر کے نئی نئی ملازمت شروع کی تھی۔ کسی ''لائق‘‘ ڈاکٹر نے عینک کا نمبر غلط دے دیا تھا۔ ایک سینئر نے کہا کہ چلو تمہیں ایک بہت ہی اچھے ڈاکٹر کے پاس لے چلوں۔ وہ ایم ایچ کے آئی ڈیپارٹمنٹ میں کرنل کمال اکبر کے پاس لے گئے۔ دو منٹ کے اندر اندر یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ پرانے دوست ہوں۔ سحر تھا یا کچھ اور‘ ایک عجیب مقناطیسی شخصیت تھی۔ کرنیلی تھی نہ ڈاکٹری! صرف نرم گفتاری تھی اور اپنائیت۔ نظر اُن کے سٹاف نے چیک کرنا تھی مگر انہوں نے خود کی۔ یہ اُس تعلق کی ابتدا تھی جو لگ بھگ پچاس برس قائم رہا۔ وہ فوج میں پروموٹ ہوتے گئے‘ میں سول سروس میں! وہ تھری سٹار جنرل ہو گئے۔ میں گریڈ بائیس میں پہنچ گیا۔ وہ آرمی میڈیکل کالج کے پرنسپل رہے۔ پھر سرجن جنرل ہو گئے‘ یعنی تینوں مسلح افواج کے میڈیکل شعبوں کے سربراہ! مگر نرم گفتاری اور اپنائیت میں کوئی فرق نہ پڑا۔ وہ ہمیشہ کمال اکبر رہے۔ کبھی جنرل کمال اکبر نہ بن سکے۔
خلقِ خدا کی خدمت کا عجیب جذبہ ودیعت ہوا تھا انہیں۔ بتایا کرتے تھے کہ سیالکوٹ میں بطور کپتان تعینات تھے۔ اپنے کتنے ہی ساتھیوں کے موٹر سائیکلوں پر حفاظتی اضافی چیزیں لگوائیں۔ پھر جب سینئر ہو کر راولپنڈی تعینات تھے تو ان کی زندگی کا مقصد لوگوں کی جان بچانا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھنے والے تو کیا‘ ڈرائیور بھی سیٹ بیلٹ نہیں باندھتے تھے۔ اُس زمانے میں مَیں نے دیکھا کہ جنرل کمال اکبر پچھلی سیٹ پر سیٹ بیلٹ لگا کر بیٹھتے تھے۔ ایک بار اُن کے پاس گیا تو آپریشن تھیٹر میں لے گئے۔ ایک خاتون دکھائی جس کا چہرہ‘ آنکھوں سمیت زخموں سے اتنے برے حال میں تھا کہ دیکھا نہیں جاتا تھا۔ کہنے لگے: یہ خاتون کار کے حادثے میں زخمی ہوئی ہے۔ اگر اس نے سیٹ بیلٹ باندھی ہوتی تو چہرا بچ جاتا۔ تب پنڈی لاہور موٹروے کا وجود ہی نہ تھا۔ جڑواں شہروں میں سیٹ بیلٹ باندھنے کا تصور عنقا تھا۔ گاڑیوں میں بیلٹ ہوتی ہی نہیں تھی۔ جنرل کمال اکبر سلطان کے کھوہ (جہاں نئے اور پرانے سپیئر پارٹس بِکتے ہیں) جاتے۔ کثیر تعداد میں سیٹ بیلٹیں خریدتے اور پھر اپنے مریضوں سمیت‘ ہر ملنے والے کو دیتے اور تاکید کرتے کہ خدا کا واسطہ ہے‘ سیٹ بیلٹ گاڑی میں لگاؤ اور پھر اسے ہر حال میں استعمال کرو۔ یہ اور بات کہ ہماری قوم قانون شکنی کو بہادری سمجھتی ہے۔ جہاں شیر خوار بچے کو گود میں بٹھا کر گاڑی چلائی جائے وہاں کون سی سیٹ اور کیسی بیلٹ! موٹروے بنی تو اس کے بعد ایک عرصہ تک اسلام آباد شہر میں سیٹ بیلٹ کا استعمال لازم نہیں تھا۔ ٹول پلازا سے نکلتے ہی ڈرائیور حضرات سیٹ بیلٹ سے یوں آزاد ہوتے جیسے سیٹ بیلٹ پولیس پر احسان کرنے کے لیے باندھی تھی۔
جنرل صاحب کے اندر ایک چھوٹا معصوم بچہ چھپا ہوا تھا‘ سٹاف میں سے جو ملتا اسے جیب سے بال پوانٹ یا ڈیجیٹل گھڑی یا کوئی اور گفٹ نکال کر پیش کرتے۔ ایک بار مجھے ایک چھوٹی سی عجیب وغریب بطخ دی۔یہ کبھی دائیں طرف‘ کبھی بائیں طرف جھکتی۔ دل چاہتا اسے گھنٹوں دیکھتے رہیے۔ کہنے لگے: یہ مریضوں کا وقت گزارنے کے لیے بہترین شے ہے۔ اسے بنانے والے کا سراغ لگانا چاہتے تھے۔ میں نے بھی کوشش کی۔ اندرون لاہور کوئی کاریگر تھا جس کی یہ ایجاد تھی۔ اب وہ یہ کام چھوڑ چکا تھا۔ جنرل صاحب کو ایسی اشیا ڈھونڈنے اور جمع کرنے کا شوق تھا جو مفید ہوں مگر سستی ہوں۔ اکثر اتوار کے دن پانی کی بوتل لیتے‘ پشت پر بیک پیک باندھتے اور چھوٹی گاڑی لے کر راجا بازار اور اس کے نواحی بازاروں کو نکل پڑتے۔ پلاسٹک کی بڑی دکانوں کو ضرور چھانتے۔ کوئی بھی نئی شے جو مفید ہو‘ خرید لیتے۔ پھر جو کچھ خریدتے‘ دوستوں اور سٹاف میں تقسیم کر دیتے۔ ایک دن غریب خانے پر تشریف لائے۔ دیوانِ غالب کا ایک بہت خوبصورت نسخہ عنایت کیا‘ کہنے لگے: یہ مجھے کسی نے تحفہ دیا ہے اور تم مجھ سے کہیں زیادہ اس کے مستحق ہو۔
پیشہ ورانہ امور میں حد سے زیادہ دیانت دار اور بے لوث تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد شفا آئی ٹرسٹ کو اپنی خدمات پیش کیں۔ وہیں ایک دن میں حاضر ہوا۔ عینک کے نمبر کا مسئلہ تھا۔ معائنہ کے دوران انہیں گلوکوما کا شک ہوا۔ اس شک کو دور کرنے کے لیے ایک عرصہ تک مجھے نگرانی میں رکھا۔ ایم ایچ کے آئی ڈیپارٹمنٹ میں سب بڑے بڑے ڈاکٹر اُن کے شاگرد تھے۔ انہیں میرے بارے میں خصوصی ہدایات دیں۔ کئی ٹیسٹوں اور طویل معائنوں کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ چونکہ عینک کا نمبر بہت ہائی ہے‘ اس لیے گلو کوما کا شک ہو گیا تھا۔ ان کے شاگردوں کی بات ہوئی ہے‘ تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ شہید جنرل مشتاق بیگ بھی اُن کے شاگرد تھے اور جانشین بھی۔ ان سے ملاقات جنرل کمال اکبر ہی نے کرائی تھی۔ وہ بھی سراپا انکسار اور محبت تھے۔ دہشت گردی کی نذر ہو گئے اور شہادت پائی۔ جنرل مشتاق مرحوم میرے والد صاحب کے بھی معالج تھے۔ مجھے کہا ہوا تھا کہ وہ خود موجود نہ ہوں یا مصروف ہوں تو والد صاحب کو کرنل مظہر اسحاق کے پاس لے جایا کروں۔ کرنل صاحب مریضوں کے جمگھٹے میں رہتے اور بہت ہر دلعزیز تھے۔ ایک بار میں نے عرض کیا کہ والد صاحب عدم اطمینان کا اظہار فرماتے ہیں اس لیے انہیں اکثر لے آتا ہوں۔ کرنل صاحب کہنے لگے ''انہیں وہم بھی ہو تو فوراً لے آیا کریں اس لیے کہ ان کا اطمینان زیادہ ضروری ہے‘‘۔ مظہر اسحاق جنرل ہو کر ریٹائر ہوئے۔ ان کا کلینک اب انکم ٹیکس دفاتر کی بغل میں ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جنرل کمال اکبر نے آئی سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی کئی نسلوں کو پڑھایا‘ ان کی تربیت کی۔ ان میں سے ہر ایک مریضوں کے لیے مینارۂ نور ثابت ہوا۔ لاکھوں لوگ ان چشمہ ہائے فیض سے شفایاب ہوئے اور مسلسل ہو رہے ہیں۔ وہ ذاتی زندگی میں بھی عام لوگوں کے لیے دردِ دل رکھتے تھے۔ ایک بار ان کے ایڈریس پر ایک ایسا خط آگیا جس میں کسی طالب علم کو انٹرویو کے لیے بلایا گیا تھا۔ یہ انٹرویو ملازمت کے لیے تھا۔ کال لیٹر پر بھی ایڈریس نامکمل تھا۔ جنرل صاحب پریشان ہوئے کہ اگر یہ کال لیٹر امیدوار کو نہ ملا تو اس کا نقصان ہو گا۔ انہیں تین دن لگے مگر مسلسل تلاش اور دوڑ دھوپ کے بعد وہ خط طالب علم تک پہنچا کر رہے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو کسی اجنبی کے لیے تین دن کا آرام تج دیں؟
2014ء میں ڈیفنس شفٹ ہوا تو باکل سامنے والے گھر میں خواجہ جاوید قیام پذیر تھے۔ وہ اٹامک انرجی کے بڑے سائنسدان تھے۔ ان کی بیگم پروفیسر سہیلہ یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے شعبے کی صدر تھیں۔ انتہائی شائستہ جوڑا تھا۔ ایک دن جنرل کمال اکبر غریب خانے پر تشریف لائے۔ کہنے لگے: سامنے خواجہ جاوید کے پاس آیا تھا۔ سوچا تمہیں بھی ملتا جاؤں۔ معلوم ہوا جنرل صاحب خواجہ صاحب کے بہنوئی ہیں۔ یوں ان سے ایک اور تعلق نکل آیا اور اس بہانے ملاقاتیں پہلے کی نسبت زیادہ ہو گئیں۔ جنرل صاحب میں حسِ مزاح بھی بہت تھی۔ کہنے لگے: ایک مریض آیا جو خود ڈاکٹر تھا۔ مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ کوئی ہومیو پیتھ ڈاکٹر ہی ہو سکتا ہے۔ نسخہ لکھا تو اسے دیکھے بغیر ہی‘ تہہ کر کے جیب میں ڈال لیا۔ ڈاکٹر ہوتا تو پہلے نسخہ پڑھتا!
کل جب خواجہ جاوید صاحب نے کینیڈا سے اطلاع دی کہ دل میں بے لوث محبت کے خزانے رکھنے والے کمال اکبر اُفق کے پار چلے گئے تو دل مٹھی میں جیسے جکڑا گیا۔ رحمان اور رحیم ان کی لغزشوں سے درگزر کرے اور نیکیوں کو قبول کر کے ان کے ساتھ بہترین معاملہ کرے۔