جہاز میں داخل ہوا توکچھ مسافر ایشیائی شکل و صورت کے دکھائی دیے۔ ان کی جسامتیں بڑی تھیں اور وہ بھاری بھرکم تھے۔ مگر ایشیائی تو اس تن و توش کے مالک نہیں ہوتے۔ تو یہ کون تھے؟ نیوز ی لینڈ پہنچنے کے بعد اس نوع کے بہت سے مرد اور عورتیں دیکھیں۔ معلوم ہوا یہ وہ لوگ ہیں جو انگریزوں کی آمد سے پہلے سے نیوزی لینڈ میں رہ رہے تھے۔ ان کے آباؤ اجداد سینکڑوں سال پہلے تائیوان اور جنوب مشرقی ایشیا سے آئے تھے۔ یہ لوگ ماؤری کہلاتے ہیں اور نیوزی لینڈ کی کل آبادی کا 18 فیصد ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آسٹریلیا کے اصل باشندے ایبوریجنل (Aboriginal) کہلاتے ہیں۔ انگریز آئے تو ان اصل باشندوں پر بہت ظلم ہوئے۔ یہاں تک کہ ان کے بچے تک اٹھائے جاتے رہے۔ جس طرح آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ایک بنیادی فرق ہے‘ اسی طرح آسٹریلیا کے ایبوریجنل اور نیوزی لینڈ کے ماؤری باشندوں میں بھی بنیادی فرق ہے۔ آسٹریلیا میں بنیادی طور پر مجرموں اور سزا یافتہ انگریزوں کو آباد کیا گیا تھا جبکہ نیوزی لینڈ میں آنے والے انگریز آزاد تھے۔ اسی طرح آسٹریلیا کے ایبوریجنی لوگ ہمیشہ سے آسٹریلیا ہی میں رہتے ہیں۔ یہ شکل‘ رنگ اور نقوش سے کچھ کچھ جنوبی بھارت کے لوگوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ لاکھوں سال پہلے آسٹریلیا برصغیر ہند و پاک سے جڑا ہوا تھا۔ کسی بہت بڑے حادثے کے نتیجے میں آسٹریلیا الگ ہوا اور خشکی کا یہ بہت بڑا ٹکڑا جنوب مشرق کی طرف چلا گیا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ ایبوریجنی افریقہ سے آئے۔ بہر طور ایبوریجنی لوگ آسٹریلیا کی اکثریتی آبادی میں آج تک گھل مل نہیں سکے۔ اس کے برعکس ماؤری خوش شکل لوگ ہیں۔ ان میں تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ یہ نیوزی لینڈ کے سماج سے جڑے ہوئے یعنی well integrated ہیں۔ میڈیا‘ سیاست اور کھیلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی موجودہ گورنر جنرل بھی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ خوش شکل ماؤری خاتون ہے۔ آسٹریلیا‘ کینیڈا‘ نیوزی لینڈ اور گیارہ دوسرے ملکوں کا بادشاہ اور ریاست کا سربراہ آج بھی برطانیہ کا بادشاہ ہے۔ ان ملکوں میں گورنر جنرل بادشاہ ہی کا نمائندہ ہوتا ہے۔ موجودہ ماؤری خاتون گورنر جنرل سے پہلے بھی دو ماؤری مرد نیوزی لینڈ کے گورنر جنرل رہ چکے ہیں۔ اس کے مقابلے میں آسٹریلیا میں کوئی ایبوریجنی گورنر جنرل نہیں رہا۔ ہاں ایک ریاست کا گورنر ضرور ایبوریجنی رہا ہے۔ ماؤری لوگ جب کوئی تقریب کرتے ہیں یا خوشی مناتے ہیں تو بہت شور مچاتے ہیں۔ چیختے اور چنگھاڑتے ہیں۔ پوری زبان بار بار باہر نکالتے ہیں۔ اس ساری سرگرمی کو ''ہاکا‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ عورتیں ٹھوڑی پر نقش و نگار بناتی ہیں‘ یوں لگتا ہے فرنچ کٹ داڑھی رکھی ہوئی ہے۔
آج سے ہزار‘ نو سو سال پہلے نیوزی لینڈ میں کوئی آدم‘ آدم زاد نہیں تھا۔ ماؤری اسکے بعد آئے۔ 1642ء میں ڈَچ مہم جُو ایبل تسمان یہاں آیا۔ اسکے ملک یعنی نیدر لینڈز میں ایک علاقے کا نام زی لینڈ تھا۔ اس نسبت سے اس نے ان جزیروں کا نام نیوزی لینڈ رکھ دیا۔ نیوزی لینڈ کی آبادی صرف 53 لاکھ ہے۔ دودھ اور دودھ سے بنی ہوئی چیزیں برآمدات کا 18 فیصد ہیں۔ کہیں بھی چلے جائیں‘ شاہراہوں کے دائیں بائیں گائیں چرتی نظر آتی ہیں۔ سبزہ زار اور چراگاہیں میلوں تک دکھائی دیتی ہیں۔ گائیں باندھی نہیں جاتیں‘ رات کو نہ دن کو۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے ملک کا 80 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل تھا۔ انگریز آئے تو جنگلات کو کاٹا اور چراگاہیں بنائیں تاکہ مویشی پالے جا سکیں‘ چنانچہ اب جنگلات ملک کے کل رقبے کا صرف 23 فیصد رہ گئے ہیں۔ نیوزی لینڈ دنیا کے ٹاپ کے کرپشن فری ملکوں میں گنا جاتا ہے۔ اسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے‘ 1893ء میں اِسی نے عورتوں کو ووٹ کا حق دیا۔ تعلیم کا معیار بلند ہے۔ خواندگی 99 فیصد ہے۔ اس ملک کی آٹھ یونیورسٹیاں دنیا کی ٹاپ کی تین فیصد یونیورسٹیوں میں شامل ہیں۔ یہاں چین کے بعد طلبہ کی سب سے زیادہ تعداد بھارت سے تعلق رکھتی ہے۔ پاکستانی طلبہ اور طالبات کیلئے یہاں کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بہت مواقع ہیں۔
ہمارا جہاز آک لینڈ اُترا۔ آک لینڈ نیوزی لینڈ کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس کی آبادی 17 لاکھ کے لگ بھگ ہے جبکہ دارالحکومت ویلنگٹن کی آبادی اڑھائی لاکھ سے زیادہ نہیں۔ آک لینڈ کے بازار‘ مال اور ریستوران دیکھنے کے بجائے‘ جو ہر شہر میں ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں‘ ہم نے اصل نیوزی لینڈ دیکھنے کا فیصلہ کیا اور تین گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ایک قصبے ''وائٹی اینگا‘‘ میں ڈیرے ڈال لیے۔ یہ ایک خوابیدہ‘ سرسبزو شاداب قصبہ تھا۔ پھولوں‘ درختوں اور پودوں سے بھرا ہوا۔ آدم‘ آدم زاد کوئی نہیں نظر آرہا تھا۔ نظر بھی کیا آتا‘ قصبے کی آبادی ہی ساڑھے چھ ہزار تھی۔ ہاں جب ہم ٹاؤن سنٹر میں گئے تو لوگ دیکھے۔ سمندر کے کنارے رونق تھی۔ پارکوں میں بچے کھیل رہے تھے۔ Beach پر گئے تو رش تھا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ہر مرد و زن نے بیلچہ اٹھایا ہوا تھا۔ ذرا آگے گئے تو دیکھا کہ سب بیلچے سے پانی کے نیچے ریت کھود کھود کر ایک طرف کر رہے ہیں۔ گڑھا سا بن جاتا تھا تو پانی میں بیٹھ جاتے تھے۔ شدید سردی کے باوجود یہ پانی گرم ہوتا تھا۔ قدرت کا کرشمہ تھا کہ اوپر سخت ٹھنڈا پانی اور نیچے گرم‘ آرام دہ! ایک سردار صاحب بچوں اور پوتوں کے ساتھ دکھائی دیے۔ بات چیت ہوئی تو پاکستان کی بے پناہ تعریفیں کرنے لگے۔ کہنے لگے کہ ننکانہ صاحب‘ حسن ابدال‘ لاہور‘ پنڈی‘ گوجرانوالہ‘ جہاں بھی گئے پاکستانیوں نے بہت خیال رکھا‘ مہمان نوازی کی اور عزت سے پیش آئے۔ بس پر بیٹھے تو بس کے منیجر (یا مالک) نے سب سے آگے والی سیٹ پر بٹھایا اور ڈرائیور کو تاکید کی کہ بس جہاں بھی رکے‘ سردار صاحب کی خاطر تواضع کرنی ہے۔ ان سردار صاحب کے ماموں اور خالائیں تقسیم کے وقت پاکستان ہی میں رہ گئے تھے۔ بعد میں مسلمان ہو گئے۔ یہ انہیں ملنے پاکستان آتے رہتے ہیں۔ وائٹی اینگا کے قصبے میں پاکستانی ریستوران نہیں دکھائی دیا۔ انڈین ریستوران موجود تھا۔ مرغی کا گوشت حلال تھا اور بکرے کا غیر حلال۔ سالن میٹھا تھا۔ ریستوران کا پنجابی منیجر کہنے لگا کہ گورے مرچیں نہیں کھاتے‘ اس لیے ہم سالن میں چینی بھی ڈال دیتے ہیں۔ شکر کیا کہ دال میٹھی نہیں تھی۔ کھائی اور بہت سی کھائی۔
نیوزی لینڈ کے 53 لاکھ افراد نے اپنے ملک کو سلامتی‘ امن اور اقتصادی خوشحالی کا گہوارا بنا رکھا ہے۔ کرپشن صفر ہے۔ جرائم کی شرح بہت کم ہے۔ پہاڑوں‘ جھیلوں‘ دریاؤں اور سمندر کا حسن قدرت نے دیا ہے اور معاشرتی حسن کا کریڈٹ ملک کے باشندوں کو جاتا ہے۔ زراعت کو انڈسٹری کا درجہ دیا گیا ہے۔ گوشت‘ دودھ‘ مکھن‘ پنیر‘ پھل اور خشک میوے بر آمد کیے جاتے ہیں۔ امن و امان کی وجہ سے سیاح لاکھوں میں آتے ہیں اور ملکی آمدنی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ نیوزی لینڈ سے سبق ملتا ہے کہ ترقی یافتہ کہلانے کیلئے بھاری صنعتوں کا ہونا ضروری نہیں۔ عقل اور دیانت ہو تو زرعی ملک بھی ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس کیلئے نظم‘ انصاف اور رُول آف لاء کی ضرورت ہے۔ جتنے دن نیوزی لینڈ میں گزرے‘ گمشدہ شاعر شبیر شاہد کے یہ اشعار مسلسل ذہن میں گونجتے رہے:
بہار کی دھوپ میں نظارے ہیں اس کنارے
سفید پانی کے سبز دھارے ہیں اس کنارے
وہاں کی صبحوں کا رنگ ہے فاختاؤں جیسا
دُھلے ہوئے آسمان سارے ہیں اس کنارے
کسان دل شاد کھیت آباد ہیں وہاں کے
سفید بھیڑیں ہیں سبز چارے ہیں اس کنارے