تب بھی ایک عبد الحمید شہید ہوا تھا۔
56 سال پہلے کی بات ہے۔ یہ دادا جان کا زمانہ تھا۔ طلبہ نے بغاوت کی۔ دادا جان کی فورس نے گولی چلائی۔ عبدالحمید نامی طالب علم شہید ہو گیا۔ اس 17 سالہ جوانِ رعنا کا تعلق پنڈی گھیب سے تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو اس کے والدین کی دلجوئی کے لیے اور طلبہ کی حمایت کے لیے پنڈی گھیب گئے۔ شہید کا خون رنگ لایا۔ دادا جان کی گرفت کمزور پڑنے لگی۔ پھر وہی ہوا جو ہر گردن بلند کے ساتھ ہوتا آیا ہے اور جسے ہر گردن بلند سمجھتا ہے کہ کبھی نہیں ہو گا۔ چند ماہ ہی گزرے تھے کہ اقتدار کی ریت پاؤں کے نیچے سے سرک گئی۔ رہے نام اللہ کا!
عبدالحمید کے خون کے علاوہ بھی دادا جان کے سر بہت کچھ ہے۔ آج پوتا کہتا ہے کہ ماشل لاء دادا جان نے نہیں لگایا تھا‘ اسکندر مرزا نے لگایا تھا۔ بالکل درست کہا۔ ابنِ خلدون اور ٹائن بی کے بعد یہی درست ترین تعبیر ہے تاریخ کی۔ اسکندر مرزا نے خود ہی اپنے آپ کو جلا وطن کر دیا اور سب کچھ دادا جان کو سونپ دیا۔ پھر اسکندر مرزا ہی نے روزنامہ امروز‘ پاکستان ٹائمز اور لیل و نہار پر قبضہ کرکے پریس کا گلا گھونٹ دیا۔ جس نام نہاد آئینی کمیشن نے پارلیمانی نظام کے نقائص گنوائے تھے‘ وہ بھی اسکندر مرزا نے گن پوائنٹ پر قائم کیا تھا۔ پھر یہ اسکندر مرزا ہی تھا جس نے انتخابات میں مادرِ ملت فاطمہ جناح کی ''شکست‘‘ کا انتظام کیا تھا۔ اسی نے مادرِ ملت کو غدار بھی قرار دیا تھا۔ یہ اسکندر مرزا ہی تھا جس نے Nincompoop منعم خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنا کر ملک کے منہ پر کالک ملی۔ یہ اسکندر مرزا ہی تھا جو کھلم کھلا کہتا تھا کہ ان بنگالیوں نے ہمارے ساتھ نہیں رہنا۔ اسکندر مرزا ہی نے حسین شہید سہروردی جیسے قد آور سیاستدان کو قید کیا جو بیروت میں پُراسرار حالات میں مردہ پائے گئے۔ یہی وہ زخم تھا جو بنگالی کبھی نہ بھول پائے۔
دادا جان تو معصوم تھے۔ یہ اسکندر مرزا ہی تھا جس نے دادا جان کے گلے پر پاؤں رکھ کر مجبور کیا کہ جب تک دم میں دم ہے‘ اقتدار نہ چھوڑنا کہ ایسا نہ ہو کسی مشرقی پاکستانی کو پاکستان کی حکمرانی مل جائے۔ پھر یہ اسکندر مرزا ہی تھا جس نے ایوب خان کو حکم دیا کہ اقتدار چھوڑ رہے ہو تو آئین پر عمل نہ کرنا اور فوج کو ہی ملک پر مسلط کر کے رخصت ہونا۔ یوں اسکندر مرزا کے حکم پر دادا جان نے حکمرانی کا تاج جنرل یحییٰ خان کے سر پر رکھ دیا۔ بلکہ یہ اسکندر مرزا ہی تھا جس نے پوتے کو مجبور کیا کہ صبح شام‘ رات دن پارٹیاں بدلو۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسکندر مرزا کو ان تمام جرائم کی‘ بعد از مرگ سزا دی جائے اور دادا جان کو جمہوریت کا بطلِ جلیل قرار دیا جائے۔
56 سال بعد تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا ہے۔ ایک اور عبد الحمید شہید ہوا ہے۔ چار اکتوبر 2024ء کے دن ریاست پاکستان کے ملازم عبدالحمید کو اپنے منصبی فرائض کی ادائیگی کے دوران احتجاج کرنے والی پارٹی کے کارکنوں نے اغوا کیا اور بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے عبدالحمید شہید ہو گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس معاملے کا پوتے سے براہِ راست کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر پوتے کو تاریخ اور فلسفۂ تاریخ پر کمال کی دسترس ہے۔ پوتے نے جب دیکھا کہ 56 سال پہلے دادا جان کی فورس نے جس معصوم کو شہید کیا تھا اس کا نام بھی عبدالحمید تھا اور اس ماہ جس بے گناہ کو پوتے کی پارٹی کے کارکنوں نے شہید کیا ہے اس کا نام بھی عبدالحمید ہے تو پوتا جذباتی ہو گیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ یہ تو تاریخ کا تسلسل ہے اور دادا پوتا دونوں ایک طرف کھڑے ہیں جبکہ دونوں شہید دوسری طرف کھڑے ہیں۔ اس پر پوتے نے ٹیلی ویژن پر پوری دنیا کو بتایا کہ عبدالحمید کی وفات تو ہائی بلڈ پریشر اور ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہوئی ہے۔ پوتے نے شہید کے بیٹوں کا بھی حوالہ دیا۔ بدقسمتی سے شہید عبدالحمید کے بیٹوں کو اس باطل دعوے کا علم ہو گیا۔ انہوں نے ثبوت کے ساتھ پوتے کا دعویٰ رد کر دیا۔ شہید کے بیٹوں نعمان اور حماد کا کہنا ہے کہ والد کی میڈیکل رپورٹ کے مطابق ان کے سر اور جسم کے دیگر حصوں پر زخموں کے نشانات تھے۔ چار اکتوبر کو پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران شدید زخمی ہونے کے باعث پولیس کانسٹیبل عبدالحمید شاہ کی شہادت ہوئی۔ دوسرے بیٹے حماد حمید شاہ کے مطابق اس کے والد چار اکتوبر 2024ء کو پی ٹی آئی کے جلسے میں شہید کیے گئے۔ سی ٹی سکین رپورٹ کے مطابق ان کے سر پر چوٹ اور سینے پر زخموں کے نشانات تھے۔پہلے عبد الحمید کے قاتل کو بھی کوئی سزا نہیں ملی:
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
دوسرے عبدالحمید کے قاتلوں کو بھی کوئی نہیں پوچھنے والا۔ کوئی اور ملک ہوتا اور ریاست کا افسر شہید ہوتا تو مارنے والوں کی نسلیں بھی یاد رکھتیں۔ مگر یہاں ریاست کے اہلکار کا قصور یہ ہے کہ وہ انسان بھی ہے اور انسان کے خون کی اس دیار میں کوئی وقعت‘ کوئی قدر و قیمت نہیں۔ آپ کو یاد نہیں کہ کوئٹہ میں بھی ریاست کا اہلکار ڈیوٹی دے رہا تھا۔ دن دہاڑے ایک گردن بلند نے اسے اپنی گاڑی کے نیچے کچل دیا۔ پھر کیا ہوا؟ قاتل انگلیوں سے فتح کا نشان بناتا ہوا‘ دندناتا ہوا‘ جیل سے بھی نکل آیا اور مقدمہ بھی اپنی موت مر گیا۔ تاریخ کی دردناک ستم ظریفی دیکھیے کہ کل ایک عبدالحمید کو دادا کی فورس نے مار دیا۔ آج ایک اور عبدالحمید مارا جاتا ہے تو پوتا اس کے قاتلوں کے دفاع میں برسر عام دروغ گوئی کا مرتکب ہوتا ہے۔ یہ حسنِ اتفاق ہے یا سوئِ اتفاق؟ مگر جو کچھ بھی ہے عبرتناک ہے اور درد انگیز!
ہم کب تک مارنے والوں کا دفاع کرتے رہیں گے اور کب تک مرنے والوں کے ماتم میں سینہ کوبی کرتے رہیں گے؟ کب تک؟ آخر کب تک؟ قوم تو ایک ہی ہے۔ ملک تو ایک ہی ہے! قبیلہ تو ایک ہی ہے۔ اس قبیلے کا نام پاکستان ہے۔ دھرتی ماں کے سینے پر ہم کیوں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں؟ کیا ہم دیکھ نہیں رہے کہ ماں زخموں سے چور ہے۔ ہم نے تو اکٹھے ہو کر اس ماں کی خدمت کرنا تھی۔ ہم کیوں اسے خون کے آنسو رُلا رہے ہیں؟ ہم عقل سے عاری کیوں ہو گئے ہیں؟ ہم آنکھیں بند کر کے ان کے پیچھے کیوں چل رہے ہیں جن کے پاس آگ اور خون کے سوا کچھ نہیں۔ وہ ہر جگہ آگ لگانا چاہتے ہیں۔ ہر جگہ خون بہانا چاہتے ہیں۔ گھر میں مہمان آ جائے تو ناہنجار سے ناہنجار فرزند بھی خاموش ہو جاتا ہے کہ مہمان کی بے حرمتی نہ ہو اور میزبان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا نہ لگ جائے۔ مگر ہم کیسے فرزند ہیں کہ مہمانوں کی موجودگی میں اپنے ہی گھر کی عزت خاک میں ملانا چاہتے ہیں۔ کیا شرفا ایسا ہی کرتے ہیں؟ بخدا نہیں! اور کچھ نہیں تو ہم اپنے حسب نسب ہی کا خیال کر لیں! ہمارے بزرگ تو ایسے نہ تھے۔ ہمارے خاندانوں کی تو یہ روایت نہ تھی۔ ہم پٹھان‘ ہم پنجابی‘ ہم سندھی‘ ہم اُردو بولنے والے‘ ہم کشمیری‘ ہم گلگتی‘ ہم بلتی‘ ہم چترالی‘ ہم سب تو بڑی غیرت والے تھے۔ رکھ رکھاؤ والے تھے۔ وضعدار تھے۔ افسوس آج ہم مہمانوں کے سامنے اپنے آپ کو رسوا کرنے پر تُلے ہوئے ہیں! اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے۔