فروری 2022ء میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے نور مقدم کے قاتل کو سزائے موت سنائی اور ساتھ ہی پچیس سال کی قید بامشقت کی سزا بھی!
ایک سال ایک ماہ بعد‘ یعنی مارچ 2023ء میں‘ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سزائے موت کی توثیق کر دی اور پچیس سال کی قید بامشقت کو بھی سزائے موت میں بدل دیا‘ یعنی سزائے موت دو بار دی جائے گی۔
ایک ماہ بعد یعنی اپریل 2023ء میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ملک کی سب سے بڑی عدالت میں اپیل دائر کر دی گئی۔ اپیل دائر کیے ہوئے صرف ڈیڑھ سال ہوا ہے۔
حیران کن امر یہ ہوا کہ مقتولہ کے والد نے چار دن پہلے نیشنل پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کر ڈالی۔ یہ اس کی مقتولہ بیٹی کی سالگرہ کا دن بھی تھا۔ والد نے دہائی دی کہ اپیل دائر کیے ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ اور کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔ سول سوسائٹی کی نمائندہ خواتین نے اس موقع پر کہا کہ ''یہ ایک اوپن اینڈ شَٹ کیس ہے (یعنی ایسا کیس جس میں کوئی ابہام نہیں)۔ ملزم کے خلاف مکمل ثبوت موجود ہے مگر نامعلوم وجوہ کی بنا پر مقدمہ التوا میں چلا آ رہا ہے‘‘۔
سارا معاملہ افسوسناک ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ حیرت انگیز بھی! مقتولہ کے والد گرامی اسی ملک میں پیدا ہوئے۔ یہیں پلے بڑھے۔ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی محترم خواتین بھی یہیں پیدا ہوئیں۔ یہیں پلی بڑھیں۔ پھر بھی فیصلے میں غیر معمولی تاخیر پر سب حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ کیا کوئی حیرت کا اظہار کرتا ہے کہ رات کو ستارے کیوں نکلتے ہیں؟ دن کو سورج کیوں چمکتا ہے؟ ہوا چلتی ہے تو درخت کیوں جھومتے ہیں؟ ارے بھائی! آپ کا غم بجا! آپ کی لخت جگر کے ساتھ ظلم ہوا۔ ظلم تو بہت چھوٹا لفظ ہے۔ یہ بربریت اور وحشت کی انتہا تھی۔ مگر! یہاں پگڑی اچھلتی ہے‘ اسے میخانہ کہتے ہیں!یہاں طاقت کی مساوات دیکھی جاتی ہے۔ یہاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون زیادہ طاقتور ہے‘ کس کے پاس روکڑا زیادہ ہے۔ کس کے ہاتھ میں کس کی ڈور ہے۔ کون زیادہ بااثر ہے۔ یہاں ریاست کا ملازم ڈیوٹی پر کھڑا‘ کچل دیا جاتا ہے اور قاتل انگلیوں سے فتح کا نشان بناتا دندناتا پھرتا ہے۔ یہاں قاتل لڑکا فیوڈل خاندان سے ہو تو اس کا بال بھی بیکا نہیں کیا جا سکتا۔
لگا ہے دربار‘ شمع بردار سنگ کے ہیں
ہوا کے حاکم ہیں‘ موم کے ہیں گواہ سارے
یہ تو شکر کیجیے کہ آپ (نور مقدم کے محترم والد) بھی کوئی عام آدمی نہیں! سابق سفیر ہیں اور سماجی لحاظ سے باعزت طبقے میں شمار ہوتے ہیں۔ ورنہ تو یہاں مقتول یا مقتولہ کے خاندان پر زمین تنگ کر دی جاتی ہے۔ بھینس چوری کا مقدمہ قائم کر دیا جاتا ہے۔ قتل کی دھمکی دی جاتی ہے۔ گلے پر پاؤں رکھ کر صلح کے لیے آمادہ کیا جاتا ہے۔ ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر شاذیہ خالد کا کیس یاد کیجیے۔ کیا گزری میاں بیوی پر۔ اور تو اور خود بادشاہِ وقت نے نیشنل ٹیلی ویژن پر ملزم کی معصومیت پر گواہی دی۔ ڈاکٹر شاذیہ کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے والے دو اشخاص آج بھی مشہور ہیں اور پیش منظر پر چھائے ہوئے ہیں! یہی بادشاہ ِوقت تھا جس نے امریکی سرزمین پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ آبروریزی کا تماشا پیسے بٹورنے اور ملک سے باہر جانے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ جہاں باڑ کھیت کو کھا رہی ہو‘ وہاں کس سے گلہ کیا جائے گا؟ جہاں چرواہا اور اس کا کتا بھیڑوں کو خود ہی بھیڑیوں کے حوالے کر رہے ہوں وہاں کس سے شکایت کریں گے۔ کلاسک کیس تو ریمنڈ ڈیوس کا ہے۔ اس کی کتاب پاکستانیوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ یہ جو دو کیس ہیں ڈاکٹر شاذیہ خالد کا اور ریمنڈ ڈیوس والا‘ یہ تو دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھانے چاہئیں۔ ان پر تحقیق ہونی چاہیے۔ محققین کو ان پر پی ایچ ڈی کرنی چاہیے۔ ہمارے قومی پرچم پر ان کی علامات ہونی چاہئیں۔ ریاست عدالت میں بیٹھ کر امریکی سفیر کو لمحہ لمحہ کی رپورٹ دے رہی تھی۔ کیا کوئی ملک انسانی تاریخ میں اتنا بھی گرا ہو گا! دو سو سالہ غلامی میں بر صغیر میں انگریز کے سامنے اس انداز میں کوئی رکوع میں نہ گیا ہو گا جس طرح ریمنڈ ڈیوس کیس میں ہم امریکہ کے سامنے سجدہ ریز ہوئے۔ اس پس منظر میں‘ اور اس شرمناک ریکارڈ کے ساتھ‘ یہ ایک معجزہ ہے کہ ابھی تک نور مقدم کا قاتل جیل میں ہے۔ ورنہ باہر آ چکا ہوتا تو اس میں تعجب ہی کیا ہوتا۔
اور پھر جس معاشرے میں مردوں کے قاتل کھلے پھر رہے ہوں وہاں ایک لڑکی کے قتل کو کون اہمیت دے گا! یہاں لڑکی کی اہمیت ہی کیا ہے؟ واحد ایٹمی مسلم ملک میں عورت کے ساتھ آج بھی وہی سلوک ہو رہا ہے جو جاہلیت میں ہوتا تھا۔ نرس پوتی کی پیدائش کی خوشخبری دے تو دادی اسے تھپڑ مارتی ہے۔ زچہ بیٹی جنے تو ہسپتال ہی میں اسے طلاق دے دی جاتی ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اب ایسا نہیں ہوتا تو یا تو وہ گاؤدی اور بودے ہیں یا منافق۔ اسلام آباد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو ان کانوں نے خود لڑکی کی پیدائش پر دوستوں کے ساتھ اظہارِ افسوس کرتے سنا ہے۔ بیٹی کا باپ خوش ہے اور مٹھائی پیش کر رہا ہے اور یہ حیا سے عاری اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان نما جانور کہہ رہے ہیں کہ کوئی بات نہیں‘ اگلی بار بیٹا ہو گا! بیٹا بدقماش ہو‘ آوارہ ہو‘ بدکار ہو‘ پھر بھی پوتّر ہے۔ بیٹی سے ذرا سی غلطی ہو جائے یا وہ اُس حق پر اصرار کرے جو اسے خدا اور رسول نے دیا ہو‘ تو قتل کی مستحق ہے۔ اور یہ تو ماضی قریب کی بات ہے جب غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بِل پیش ہوا تھا تو عوامی نمائندوں نے کس طرح متحد ہو کر اُس بل کا راستہ روکا تھا!
ڈیڑھ سال سے مقدمے پر کوئی کارروائی نہیں ہو رہی تو کیا بڑی بات ہے۔ آخر قتل ہونے والی لڑکی ہی تو تھی۔ اور پھر اس غیر معمولی تاخیر کی کئی اہم وجوہات ہو سکتی ہیں۔ یوکرین اور روس میں جنگ ہو رہی ہے۔ غزہ میں ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ دنیا میں موسمی تبدیلیاں پیش آ رہی ہیں۔ امریکہ میں انتخابات ہونے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرض لینا ہے۔ پاکستان کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا کرنا ہے۔ سی پیک کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ کشمیر کو پاکستان میں شامل کرانا ہے۔ جہاں اتنے بہت سے کام کرنے ہوں اور مصروفیات بے پناہ ہوں وہاں نور مقدم کے مقدمے پر کیسے توجہ دی جا سکتی ہے۔ اور اتنی جلدی بھی کیا ہے! ڈیڑھ سال ہی تو ہوا ہے۔ اگر سزائے موت کسی عام پاکستانی کو سنائی گئی ہوتی تو اس پر عمل ہو بھی چکا ہوتا مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ قاتل کوئی معمولی آدمی تو نہیں ہے نا! دولت مند خانوادے کا چشم وچراغ ہے۔ اور پھر اگر موت کی سزا پر عمل ہو گیا تو آئندہ ایسے بھیانک جرائم کا ارتکاب کون کرے گا؟ جرائم کی تاریخ میں انوکھے ابواب کا اضافہ کون کرے گا؟ ایسے سپوت زندہ رہنے چاہئیں تا کہ لڑکیوں کے سر کٹ کٹ کر دھڑ سے الگ ہوتے رہیں! یوں بھی ہمارے ہاں ناکردہ گناہوں پر سزا دینے کا رواج ہے۔ جو گناہ ثابت ہو جائیں‘ ان کا کیا ہے! سزا نہ بھی ملے تو کوئی بڑی بات نہیں!
پس نوشت: آنکھیں جرّاحی کا تقاضا کر رہی ہیں۔ آٹھ دس دن کالم کی غیر حاضری رہے گی۔ اس پروسیجر کا پہلے کوئی تجربہ نہیں! امید یہی ہے کہ آٹھ دس دن بعد لکھنا پڑھنا ممکن ہو جائے گا۔