شاہ کی ڈھیری سے شفا آئی ٹرسٹ ہسپتال تک

کیا تم نے آنکھیں بنوا لی ہیں؟
جی۔ بنوا لی ہیں۔ ''شاہ کی ڈھیری‘‘ گئی تھی۔ پچھلے ہفتے ہی واپس آئی ہوں۔
یہ وہ مکالمہ ہے جو بچپن میں بارہا سنا۔ عورتوں سے بھی‘ مردوں سے بھی! آنکھیں بنوانے سے مراد ہوتی تھی سفید موتیے (Cataract) کا علاج۔ ''شاہ کی ڈھیری‘‘ کسے کہتے تھے؟ یہ وہی قصبہ ہے جو اب ٹیکسلا کے نام سے مشہور ہے۔ مغل تاریخ میں‘ ٹیکسلا کا نام کہیں نہیں ملتا۔ اگرچہ حسن ابدال کا نام مذکور ہے جہاں اورنگزیب نے قیام کیا۔ مقامی روایات کی رُو سے اُس زمانے میں‘ جہاں اب ٹیکسلا ہے‘ ڈھیری جوگیاں نامی قصبہ آباد تھا۔ ڈھیری اُونچی جگہ کو کہتے ہیں۔ (فتح جنگ شہر میں ایک محلے کا نام ''چاساں آلی ڈھیری‘‘ ہے) ٹیکسلا تو منوں مٹی کے نیچے دبا ہوا تھا۔ یہاں ہندو آبادی تھی اور جوگیوں کی کثرت تھی۔ پندرہویں صدی عیسوی کے آغاز میں ایک بزرگ سید صفدر حیدر افغانستان سے نکلے اور اوچ شریف اور پھر مارگلہ سے ہوتے ہوئے ڈھیری جوگیاں تشریف لائے۔ ان کے ہمراہ ان کے مرید اور معتقدین بھی تھے۔ انہوں نے ایک اونچی جگہ (ڈھیری) پر قیام کیا۔ ان کی تبلیغ اور اخلاق سے متاثر ہو کر لوگ مسلمان ہو نے لگے۔ یوں یہ جگہ ''شاہ کی ڈھیری‘‘ کہلانے لگی۔ معروف شاعر جناب حفیظ اللہ بادل کی وساطت سے ماہر آثار قدیمہ جناب مالک اشتر سے رابطہ ہوا تو انہوں نے قیمتی معلومات سے نوازا۔ 1913ء کے لگ بھگ جان مارشل نے اس مقام پر کھدائیاں کیں تو معلوم ہوا کہ اس جگہ کا اصل اور قدیم نام ''ٹیکسلا‘‘ ہے۔ اس کے بعد اسے ٹیکسلا کہا جانے لگا۔ روایات جو بھی ہوں‘ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مقامی نام شاہ کی ڈھیری ہی تھا جو بچپن اور لڑکپن میں اس لکھنے والے نے اس پورے علاقے میں سنا۔ جان مارشل برطانوی ہند کے محکمہ آثار قدیمہ کا سربراہ تھا۔ مناسب بجٹ کے حصول کے لیے دہلی حکومت سے اس کی کھینچاتانی چلتی رہتی تھی۔
بہرطور جان مارشل نے بستی کا نام سرکاری کاغذات میں بھی ٹیکسلا کر ا دیا۔ 1920ء میں یہاں ٹیکسلا کرسچین ہسپتال کی بنیاد رکھی گئی۔ زمین خریدی گئی تو زمین فروخت کرنے والوں نے نقد قیمت کا مطالبہ کیا۔ چنانچہ سِکّوں کی کثیر مقدار راولپنڈی سے بیل گاڑی میں لائی گئی۔ آنکھ کا پہلا آپریشن ایک خیمے میں لالٹین کی روشنی میں ہوا۔ ہمارے لڑکپن میں دو ناموں کا پورے علاقے میں بہت چرچا تھا۔ ایک نام ''لودھی‘‘ تھا۔ یہ ملیحہ لودھی کے والد تھے اور اٹک آئل کمپنی کھوڑ (ضلع اٹک) کے سربراہ! دوسرا نام ڈاکٹر لال کا تھا جو کرسچین ہسپتال ٹیکسلا کے انچارج تھے۔ ڈاکٹر ارنسٹ لال لیجنڈ کی حیثیت رکھتے تھے۔ انہوں نے 1957ء میں بھارتی ریاست تامل ناڈو سے ایم بی بی ایس کیا۔ ان کی بیگم ڈاکٹر پرامیلا ماہر امراض چشم تھیں۔ وہ خود سرجن تھے۔ شادی کے بعد دونوں ٹیکسلا کرسچین ہسپتال منتقل ہو گئے۔ دونوں نے پانچ دہائیوں تک اس ادارے میں بے لوث خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر لال پہلے پاکستانی تھے جو اس ہسپتال کے سربراہ بنے۔ میاں بیوی نے لاکھوں مریضوں کے آپریشن کیے اور ان کی بینائی انہیں لوٹائی۔ ادارے کو زمین سے آسمان تک پہنچا دیا۔ کئی نئی عمارتیں تعمیر کرا دیں۔ خلق خدا آنکھوں میں سفید موتیا لیے ''شاہ کی ڈھیری‘‘ آتی تھی اور شفایاب ہو کر واپس جاتی تھی۔ یہ میاں بیوی چاہتے تو بھارت یا پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر میں رہ سکتے تھے اور ایک آسان‘ آرام دہ زندگی گزار سکتے تھے۔ مگر قدرت نے ان کے بخت میں یہ شرف رکھا تھا کہ ایک چھوٹی سی بستی میں رہ کر لوگوں کی خدمت کریں۔ یہ توفیق بھی خدا ہی بخشتا ہے۔ ان کی خدمات کا مکمل تذکرہ ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے۔
میرے شباب کا آغاز تھا جب دادی جان نے اپنے فرزند سے کہا: بیٹے! میری بصارت میں مسئلہ ہو رہا ہے۔ مجھے شاہ کی ڈھیری لے چلو۔ ابا جی لے گئے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمیں وہاں رہنے کے لیے ہسپتال کی طرف سے چھوٹا سا کوارٹر بھی ملا تھا۔ ابا جی ہر وقت ان کی خدمت میں حاضر رہتے تھے۔ آپریشن کے بعد دادی جان نے بہت دن آنکھ پر سبز رنگ کے کپڑے کا ٹکڑا لٹکائے رکھا۔ یہ تو یقین ہے کہ اُس زمانے میں مصنوعی عدسہ (Lens) آنکھ کے اندر نہیں رکھا جاتا تھا‘ مگر یہ یاد نہیں کہ سرجری کے بعد آنکھوں میں کئی دن تک دوا ڈالنا ہوتی تھی یا نہیں۔ بہرطور دادی جان کے لیے نئی عینک بنوائی گئی۔ اس کے بعد‘ آنکھوں کے حوالے سے‘ ان کی زندگی اطمینان بخش رہی یہاں تک کہ وہ وقت آگیا جو ان کے لیے مقرر تھا۔ ہولی فیملی ہسپتال میں میں ان کے پاس تھا جب انہوں نے خاکی جسم کو چھوڑ دیا اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئیں۔
کئی عشرے گزر گئے۔ پھر ابا جی کی بصارت متاثر ہونے لگی۔ دھوپ میں تکلیف ہونے لگی۔ باہر نکلتے وقت عینک کے شیشوں کے اوپر انہوں نے رنگین شیشے لگانے شروع کر دیے۔ پڑھتے وقت کبھی عینک لگاتے کبھی اتارتے۔ ڈاکٹر دوستوں سے مشورہ کیا تو یہ طے پایا کہ شفا آئی ٹرسٹ ہسپتال میں ان کی آنکھوں کا معائنہ اور علاج کرایا جائے۔ بتیس برس پہلے ایک صبح ہم شفا آئی ٹرسٹ روانہ ہوئے۔ اُس دن ڈرائیور معلوم نہیں گھر سے جھگڑ کر آیا تھا یا اسے نیند آ رہی تھی‘ اس نے پوری کوشش کی کہ کچہری کے قریب سے گزرتے وقت گاڑی کو ایک بس سے لڑا دے۔ کئی سال پہلے ایران میں سفر کے دوران ابا جی کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا تھا۔ وہ محفوظ رہے مگر اس کے بعد ان کے اعصاب کمزور ہو گئے۔ گاڑی کی تیز رفتاری سے وہ مضطرب ہو جاتے۔ چنانچہ جب وہ گاڑی میں بیٹھے ہوتے تو گاڑی آہستہ چلائی جاتی۔ ڈرائیور کی طالع آزمائی کے بعد میں نے اسے ساتھ بٹھا دیا اور گاڑی خود چلائی۔ آج معلوم نہیں کس حالت میں ہے مگر اُس وقت شفا آئی ٹرسٹ ہسپتال جڑواں شہروں میں منظم ترین ہسپتال تھا۔ ہر کام ترتیب سے ہوتا تھا اور تاخیر یا تقدیم کا کوئی سوال نہ تھا۔ ادارے کے مالی معاملات کے سربراہ ہمارے ایک دوست تھے جن کا نام پیراں بخش تھا۔ ان کی وساطت سے کچھ مزید سہولت بھی حاصل ہو گئی۔ مصنوعی عدسے کی قیمت ہم نے جمع کرا دی۔ پروسیجر میں دو تین گھنٹے لگے۔ سہ پہر کو میں ابا جی کو گھر واپس لے آیا۔ دوسرے دن سے آنکھ میں دوا کے قطرے ڈالنے کا عمل شروع ہوا۔ مختلف دوائیں تھیں جو دن بھر وقفے وقفے سے ڈالنا تھیں۔ جتنی دیر گھر میں رہتا دوا خود ڈالتا۔ صبح کام پر جانے سے پہلے دواؤں کے نام اور ڈالنے کے اوقات کاغذ پر چارٹ کی صورت لکھ دیتا۔ کاغذ دیوار پر چسپاں کر دیتا۔ اس کی مدد سے اہلیہ دوا ڈالتی رہتیں۔ کچھ ہفتوں بعد دوسری آنکھ کا پروسیجر بھی بخیر وخوبی ہو گیا۔ اب انہیں پڑھنے لکھنے میں آسانی ہو گئی۔ دھوپ کی چبھن بھی ختم ہو گئی۔ چند سال بہت اچھے گزرے۔ پھر انہیں ایک اور مسئلے نے آ لیا جسے Retina Detachment کہتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر یونس تھے جو اس بیماری کا علاج کرنے کے لیے معروف تھے۔ انہوں نے آپریشن کیا۔ کافی لمبا آپریشن تھا۔ اس کے بعد بینائی پہلے جیسی نہ رہی۔ مگر لکھنے پڑھنے کا کام پھر بھی کر لیتے تھے۔ چند برس اور گزرے۔ پھر وہی ہوا جس نے ہونا تھا۔ نقاہت بڑھنے لگی۔ نقل وحرکت پہلے گھر تک محدود ہو ئی‘ پھر کمرے تک! پھر بستر تک۔ ''ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔ پھر مہین پانی سے۔ پھر خون کے لوتھڑے سے۔ پھر گوشت کی بوٹی سے۔ جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی۔ پھر تمہیں ایک بچے کی صورت میں نکال لائے تا کہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو۔ اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے۔ اور کوئی زیادہ عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے‘‘۔ ( جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں