ٹیکسی کے ڈرائیور کی عمر مشکل سے 19‘ 20برس ہو گی۔ سرگودھا سے تھا۔ ایک سال پہلے آسٹریلیا آیا تھا۔ جتنی دیر اس کے ساتھ سفر کیا‘ آسٹریلیا کی تعریفیں کرتا رہا۔ میں نے پوچھا: آسٹریلیا کی کون کون سی باتیں تمہیں خوش آئی ہیں؟ کہنے لگا: یہاں جھوٹ کوئی نہیں بولتا‘ سب وقت کے پابند ہیں‘ ہر کوئی قانون کی پابندی کرتا ہے‘ پانچ بجے دکانیں بند ہو جاتی ہیں‘ ڈاکٹر کے پاس جائیں تو ڈاکٹر خود انتظار گاہ میں آکر مریض کو بلاتا ہے اور ساتھ لے جاتا ہے‘ یہاں گاڑی چلانا آسان ہے کیونکہ غلط سائیڈ سے کسی گاڑی کے آنے کا کوئی خطرہ ہے نہ امکان۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی خوبیاں گنوائیں۔ اس سے پوچھا: کیا یہ سب کچھ کرنا ہم پاکستانیوں کے لیے نا ممکن ہے؟ ظاہر ہے اس کا اس بچے کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ پھر بتانے لگا کہ چھوٹے بھائی کو آسٹریلیا منگوانا ہے۔ پوچھا: کیا کرتا ہے؟ کہنے لگا ایئر کنڈیشنر کی فٹنگ اور مرمت کا کام سیکھا ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ تو بہت اچھا ہنر ہے۔ پہلے اس کا م کی ڈیمانڈ صرف گرمیوں میں ہوتی تھی۔ اب انورٹر آ گئے ہیں‘ سارا سال اے سی چلتے ہیں۔ اچھی خاصی کمائی ہو جاتی ہے۔ کہنے لگا: یہی تو اسے سب سمجھاتے ہیں‘ مگر وہ سارا دن گھر میں بیکار بیٹھا رہتا ہے اور ایک ہی رَٹ لگائے ہوئے ہے کہ آسٹریلیا یا کسی اور ملک میں جانا ہے۔
میری منزل آگئی۔ سلام کر کے اُتر گیا‘ مگر جو کچھ وہ بتا گیا گہری سوچ میں ڈال گیا۔ آسٹریلیا کی جو خوبیاں اس نے گنوائی تھیں‘ ایک عام‘ نیم تعلیم یافتہ آدمی کا مشاہدہ تھا۔ کوئی فلسفیانی یا دانشورانہ گتھی نہیں تھی اور سچ بھی یہی تھا۔ سوال جو ہم سب کے سامنے منہ پھاڑے کھڑا ہے‘ یہی ہے کہ کیا یہ خوبیاں ہمارے اندر نہیں آسکتیں؟ ہم جھوٹ بولتے ہیں؟ کیوں؟ بغیر فائدے کے بھی جھوٹ بولتے ہیں! وقت کی پابندی ہم کیوں نہیں کر سکتے؟ قانون پر چلنے میں کیا مشکل ہے۔ اس مسئلے پر بے شمار لوگوں سے بات ہوئی۔ ملک کے اندر بھی۔ ملک کے باہر بھی! اکثر و بیشتر کی ایک ہی رائے ہے کہ انسان کی جبلت میں قانون شکنی بھری ہوئی ہے۔ جہاں جہاں قانون شکنی کی سزا سخت ہے‘ وہاں قانون کوئی نہیں توڑتا۔ جہاں سسٹم جانبدار ہے یا کمزور ہے وہاں قانون شکنی ہو گی اور ضرور ہو گی۔ سنگا پور میں‘ جہاں قانون شکنی کی سزا سخت ہے‘ سنگاپور کے قانون پسند لوگ جب سرحد پار کرکے ملائیشیا جاتے ہیں تو قانون توڑ کر انسانی جبلت کا تقاضا پورا کرتے ہیں‘ اس لیے کہ وہاں سزائیں سنگاپور کی نسبت سخت نہیں۔ ہم پاکستانی اپنے بارے میں یہ بات بھی اکثر و بیشتر کہتے ہیں کہ ہم ناقابلِ اصلاح ہیں۔ ہم ہیں ہی ایسے! ہم میں Manufacturing defect ہے۔ مگر یہی پاکستانی جب دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں تو کارکردگی بھی زبردست ہوتی ہے اور قانون پر بھی چلتے ہیں۔ اس لیے کہ انہیں معلوم ہے کہ سسٹم سستی‘ کاہلی اور قانون شکنی برداشت نہیں کرے گا۔ نوکری ختم ہو جائے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ جہاز پر بٹھائیں اور پاکستان واپس بھیج دیں!
مگر ایک سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان کے اندر رہ کر محنت کرنے سے کون روکتا ہے؟ خاص طور پر نجی شعبے میں! اسی ملک میں لاکھوں لوگ صفر سے شروع کرتے ہیں اور سسٹم کی ناہمواریوں کے باوجود کامیاب ہو کر دکھاتے ہیں۔ محنت کرتے ہیں۔ دیانتداری کو بھی اپناتے ہیں۔ ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں۔ اسی اسلام آباد میں اے سی ٹھیک کرنے والوں نے پانچ پانچ‘ آٹھ آٹھ ملازم بھی رکھے ہوئے ہیں۔ رات دن محنت کرتے ہیں اور بہت اچھی کمائی کر لیتے ہیں۔ ہاں کام دیانتداری سے کرتے ہیں اور اپنی ڈیمانڈ بڑھاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ سسٹم کو درست کرنے کی زیادہ ذمہ داری حکومتوں کی ہے مگر زیادہ نہیں تو 49 فیصد ذمہ داری فرد کی بھی ہے اور معاشرے کی بھی۔ کیا ہم جھوٹ بولنا چھوڑ نہیں سکتے؟ وقت کی پابندی نہیں کر سکتے؟ وعدہ پورا نہیں کر سکتے؟ آخر حکومت یا ریاست ہمیں سچ بولنے پر کیسے مجبور کر سکتی ہے؟ 25کروڑ افراد پر 25کروڑ پولیس مین کیسے تعینات ہو سکتے ہیں؟ آخر بیٹے یا بیٹی کی شادی کرنے والا‘ تقریب کو وقت پر کیوں نہیں شروع کر سکتا؟ آخر مہمان کھانے کے لیے پہروں کیوں بیٹھے رہتے ہیں؟ کہیں سے کوئی تو ابتدا کرے گا۔ جس دن مہمانوں کی اکثریت مناسب انتظار کے بعد اُٹھ کر چلی جائے گی‘ اسی دن معاشرے سے اس برائی کے خاتمے کا آغاز ہو جائے گا۔ یہ قانون کا یا حکومت کا یا ریاست کا مسئلہ ہی نہیں‘ یہ انسانی شعور کا مسئلہ ہے۔ یہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے!
ہمارے اور بھی مسائل ایسے ہیں جن کے سامنے حکومتیں بے بس ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ مائنڈ سیٹ کا ہے۔ کچھ معاملات میں تعلیم بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اب اگر ٹیلی ویژن چینل پر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ یہودیوں کو تو ہمارے فلاں بزرگ نے‘ جنہیں دنیا سے گئے سینکڑوں سال ہو چکے ہیں‘ ختم کیا اور نام ہٹلر کا لگ گیا اور سامنے بیٹھے ہوئے ہزاروں لوگ آفرین آفرین اور سبحان اللہ کے نعرے لگائیں اور سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں میں تعلیم یافتہ افراد بھی موجود ہوں‘ تو حکومت کیا کر سکتی ہے؟ چینل کو ریٹنگ چاہیے اور ریٹنگ کے لیے ایسے مسالا دار واقعات سنانے ضروری ہیں۔ عجیب بات ہے کہ مغربی ملکوں میں کسی کو جن پڑتے ہیں نہ آسیب کا سایہ پڑتا ہے‘ نہ بیماری سے نجات کے لیے لوگ مزاروں یا بابوں کے پاس جاتے ہیں‘ نہ نئے مکان کو بدنظری سے بچانے کے لیے بائبل شریف کا ختم کرایا جاتا ہے۔
Spiritual Healer وہاں بھی پائے جاتے ہیں مگر یہ اندھیر نہیں کہ لوگ پیر صاحب کے سامنے سجدہ کر رہے ہوں‘ ان کی طرف پیٹھ نہ کرتے ہوں‘ شادی کی تاریخ بھی وہی طے کرتے ہوں‘ بیماریوں کا ''علاج‘‘ بھی وہی کرتے ہوں اور ان کا درشن کرنے سے اندھوں کی بینائی بھی لوٹ آتی ہو۔ یہ درست ہے کہ شوگر مافیا‘ پٹرول مافیا‘ پلاٹ مافیا اور دیگر کئی مافیا کو ریاست کی طاقت ہی ختم کر سکتی ہے مگر جو مافیا توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی کی بنیاد پر کھڑا ہو اسے کوئی طاقت ختم نہیں کر سکتی‘ سوائے عوام کی طاقت کے!
رزق اپنے ملک میں بھی بہت ہے۔ جس تندہی‘ دیانت اور لگن کے ساتھ ہم پردیس میں کام کرتے ہیں‘ اسی لگن دیانت اور محنت کے ساتھ اپنے ملک میں بھی تو کام کر سکتے ہیں۔ یہ جو کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ دو اڑھائی برسوں میں لاکھوں افراد ملک چھوڑ کر جا چکے یا جا رہے ہیں تو ایسا بھارت میں بھی ہو رہا ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں لاکھوں افراد بھارت سے آسٹریلیا آئے ہیں۔ اس سے زیادہ یورپ اور امریکہ میں گئے ہیں جبکہ بھارت کی معیشت ہماری معیشت کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ مضبوط ہے۔ سنسنی پھیلانے میں ہمارا جواب نہیں۔ باہر جانے کی سب سے بڑی وجہ آبادی کا دباؤ ہے۔ جس رفتار سے آبادی ہمارے ہاں بڑھ رہی ہے‘ اسی رفتار سے لوگ نقل مکانی بھی کریں گے۔ اندرونِ ملک بھی دیکھ لیجیے۔ جس صوبے کی آبادی میں زیادہ اضافہ ہو رہا ہے‘ اس صوبے کے لوگ پورے ملک میں پھیل رہے ہیں اور دوسرے صوبوں کے دور افتادہ گوشوں میں بھی مقیم ہو رہے ہیں۔ جتنا وقت ہم ملک کی برائیاں کرنے پر‘ اور ملک کو بدنام کرنے پر صرف کرتے ہیں اس سے کم وقت بھی کسی پیداواری کام پر لگائیں تو ہمارے حالات بدل سکتے ہیں۔ پورا ملک بے سروپا افواہیں اور لایعنی باتیں سوشل میڈیا پر پھیلانے اور فارورڈ کرنے میں مصروف ہے۔ دو گاڑیوں کی ٹکر ہو جائے تو سینکڑوں افراد گھنٹوں کھڑے ہو کر تماشا دیکھتے ہیں۔ ایسے فارغ لوگوں کے ملک کی حالت کیسے ٹھیک ہو سکتی ہے!!