پنڈی سے لاہور جانا تھا۔ رانا صاحب کہنے لگے: میرے ساتھ چلو‘ راستے میں گپ شپ ہو گی۔ رانا صاحب اس نفسیاتی خوف میں مبتلا ہیں کہ ڈرائیو کرتے ہوئے انہیں نیند نہ آلے۔ اس لیے ہمیشہ کسی دوست کو ساتھ بٹھا لیتے ہیں کہ وہ راستے میں ان کا سر کھاتا رہے یا وہ اس کا سر کھاتے رہیں۔ اس دفعہ یہ اعزاز میرے حصے میں آیا۔ حالانکہ پنڈی اور لاہور کے درمیان ریل کار پارلر کا سفر مجھے اتنا محبوب ہے کہ میں اسے پکنک کے برابر سمجھتا ہوں۔ ریل کے سفر میں وہ سارا ادب یاد آ جاتا ہے جو انگریزی اور اردو میں ریل پر لکھا گیا ہے۔ تاہم ریل کے سفر کی رانا صاحب نے کچھ تلافی یوں کر دی کہ گاڑی موٹر وے کے بجائے جی ٹی روڈ پر ڈال دی۔ جی ٹی روڈ کا سفر غور کیجیے تو تاریخ کا سفر ہے۔ زندگی راستے میں جگہ جگہ گنگناتی‘ مہکتی اور اپنے رنگ دکھاتی نظر آتی ہے۔ راستے میں بازار ہیں‘ شہر‘ قصبے اور قریے ہیں۔ راستے میں کلچر‘ تہذیب اور ثقافت ہے۔ ایک اپنائیت ہے‘ بلکہ یوں کہیے کہ پاکستانیت ہے۔ وزیر آباد کی مچھلی ہے۔ راہوالی کی قلفی ہے۔ جگہ جگہ چائے خانے ہیں۔ ٹرک ہوٹل ہیں۔ ڈھابے ہیں۔ بیکریاں ہیں۔ کسی بھی قصبے کے بازار میں داخل ہو جائیں تو دکانوں میں چاول کے مرنڈے‘ مکھانے‘ بتاشے‘ نُگدی اور پھُلیاں نظر آئیں گی۔ گُڑ اور شکر آسانی سے مل جائیں گے۔ اس کے برعکس موٹر وے کا سفر ایک صحرا کا سفر ہے۔ یکسانیت بیزار کرتی ہے۔ تنوع میں دلربائی ہے۔
پنڈی سے روانہ ہوتے وقت رانا صاحب نے گاڑی میں پٹرول ڈلوایا۔ پٹرول کی ادائیگی کے بعد انہوں نے پٹرول پمپ کے کیشئر کو پانچ پانچ ہزار کے دو نوٹ دیے اور کہا کہ ان کے بدلے میں سو سو روپے کے نوٹ دے دے۔ پوچھا ان کا کیا کریں گے: کہنے لگے دیکھ لینا۔ پنڈی سے لاہور تک رانا صاحب کو جو بھی ریڑھی والا بوڑھا‘ پھٹے پرانے کپڑوں والا راہ گیر‘ جوتے گانٹھتا موچی‘ زمین پر کپڑا بچھا کر تھوڑے سے پھل بیچنے والا‘ کوئی بھی ضرورت مند نظر آتا شخص دکھائی دیا تو اسے پیسے دیتے گئے۔ کسی کو سو روپے‘ کسی کو دو سو اور کسی کو اس سے بھی زیادہ! مگر میں نوٹ کرتا رہا کہ کسی بھکاری کو انہوں نے کچھ نہیں دیا۔ ڈھابے پر چائے کے لیے رُکے تو ویٹر کو چائے کی قیمت کے علاوہ پانچ سو دیے۔ ایک پٹھان بابے سے چھلیاں لیں تو اسے چھلیوں کی قیمت کے علاوہ دو سو روپے دیے۔ لاہور پہنچنے تک دس ہزار روپے تقسیم کر چکے تھے۔ میں دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ یہ آئیڈیا مجھے کبھی کیوں نہ آیا۔ ایک اطمینان اور مسرت ان کے چہرے پر ایسی تھی جو مجھے پُر اسرار لگی۔ خدا کے بھید خدا ہی جانے۔ کہنے لگے ''یہ میں نہیں فیصلہ کرتا کہ کس کو کتنے دینے ہیں‘ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سب کیسے ہوتا ہے۔ اب چائے پلانے والے ویٹر کو سو روپے دینا چاہتا تھا مگر جیب میں ہاتھ ڈالا تو پانچ سو آگئے‘‘۔
لاہور میں مَیں نے اپنے قیام کا بند و بست کیا ہوا تھا‘ مگر رانا صاحب مُصر تھے کہ ان کے ہاں ٹھہروں۔ پرانے دوستوں کو یہ استحقاق ہوتا ہے کہ بات منوا سکتے ہیں۔ برا بھلا کہہ سکتے ہیں بلکہ مار کُٹ بھی سکتے ہیں۔ چنانچہ انہی کے ہاں ٹھہرنا پڑا۔ دوسرے دن کہنے لگے: چلو منڈی سے پھل لانے ہیں۔ میرا لاہورکے جغرافیے کا علم محدود ہے۔ نہ جانے کہاں تھی اور کیا نام تھا منڈی کا۔ ڈرائیور کو انہوں نے ساتھ لیا کہ وہاں پارکنگ کا مسئلہ ہو گا۔ خدا نے رانا صاحب کو آسودگی عطا کی ہے۔ سیب‘ انار‘ مالٹے اور انگور پیٹیوں کے حساب سے خریدے۔ گھر پہنچے‘ ڈرائیور پیٹیاں اندر رکھ رہا تھا تو اسے بتایا کہ سیبوں کی ایک پیٹی اس کے لیے ہے‘ چھٹی کرتے وقت گھر لے جائے۔ رات کو کھانے کے بعد ہم دونوں چہل قدمی کر رہے تھے۔ میں نے کہا: یار رانا! میں نے ان دو دنوں میں تم سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اللہ نے تمہیں فیاض دل عطا کیا ہے۔ رانا صاحب نے جواب دیا کہ ''ایسی کوئی بات نہیں۔ جس حساب سے اللہ تعالی مجھے دے رہا ہے‘ اس کا تو کوئی کنارہ ہی نہیں۔ جو کچھ میں کر رہا ہوں‘ وہ ریت کے دانے سے بھی کم ہے۔ صرف یہ سوچتا ہوں کہ پھلوں کی پیٹیاں میرے گھر میں رکھنے والا ڈرائیور گھر جا کر اپنے بچوں کو ملے گا تو کیا سوچے گا کہ وہ تو دو کلو سیب بھی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا اور دوسری طرف پیٹیوں پر پیٹیاں خریدی جا رہی ہیں۔ اس کے بچے جب سیب دیکھیں گے اور کھائیں گے تو ڈرائیور اور اس کی بیوی خوش ہوں گے۔ بس ان کی یہ خوشی میرے لیے اللہ کی نعمت ہے‘‘۔
رانا صاحب کے ہاں میرا قیام پانچ دن رہا۔ مجھے یوں لگا جیسے میں اب تک ناخواندہ تھا۔ اَن پڑھ تھا۔ جاہل تھا۔ جو کچھ ان پانچ دنوں میں دیکھا‘ سنا اور سیکھا‘ ایک نیا ہی علم تھا۔ اور اس علم کا پڑھنے سے اور کتابوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ علم کسی خاص جگہ سے‘ کسی خاص منبع سے اُتر رہا تھا۔ یہ قطرہ قطرہ‘ ذرہ ذرہ‘ قطمیر قطمیر‘ میرے اندر‘ میرے دل میں جا رہا تھا۔ رانا صاحب کی بیگم کیش اینڈ کیری سے سودا سلف (گراسری) لے کر آئیں تو ڈرائیور‘ مالی اور برتن دھونے والی خاتون کے لیے بھی ایک ایک تھیلا لائیں۔ ان تھیلوں میں چائے کی پتی‘ چاول‘ چینی اور گھی کے ڈبے تھے۔ دوسرے دن دعوت تھی۔ مہمانوں کیلئے کولڈ ڈرنک کی بوتلیں آئیں۔ ایک ایک بوتل انہوں نے تینوں ملازموں کو دی کہ گھر لے جائیں۔ ٹیکسی پر آئے تو ٹیکسی کے ڈرائیور کو کھانا کھلا کر بھیجا۔
کیا فیاضی کے لیے اتنی آسودگی لازم ہے جتنی رانا صاحب کو حاصل ہے؟ نہیں! ہر گز نہیں! آسودگی ایک ایسی اصطلاح ہے جس کی کوئی معینہ تعریف ہے نہ حد! رانا صاحب میرے مقابلے میں ثروت مند ہیں مگر جس کے پاس ذاتی جہاز ہے اور درجنوں کارخانے‘ اس کے مقابلے میں کم حیثیت ہیں۔ ضروری نہیں کہ آپ کسی کو پھلوں کی ایک پیٹی ہی دیں۔ آپ ایک کلو بھی دے سکتے ہیں‘ ایک پاؤ بھی اور صرف ایک سیب بھی! سردیوں میں ضروری نہیں کہ کسی کو رضائی خرید کر دیں‘ ایک گرم چادر بھی دے سکتے ہیں۔ جرابوں کا ایک جوڑا بھی دے سکتے ہیں۔ گھر میں کام کرنے والے الیکٹریشن کو ضروری نہیں کہ آپ بریانی ہی کھلائیں‘ دال اور چپاتی بھی کھلا سکتے ہیں۔ چائے کا کپ ہی پلا دیجیے۔ برتن دھونے والی مائی کے بچے کی ماہانہ فیس نہیں دے سکتے تو بچے کو نئے جوتے ہی خرید دیجیے۔ آپ کو اس سے خوشی حاصل ہو گی۔ ایک بار اس خوشی کا آپ کو چسکا پڑ گیا تو یہ آپ کے لیے نشہ بن جائے گا۔ کسی کو کچھ دیے بغیر آپ سکون سے نہیں بیٹھیں گے۔ مضطرب رہیں گے۔ کیا ہی اچھا نشہ ہے اور کیا ہی دلکش عارضہ ہے! آپ گلّے میں سے سفید ترین بھیڑ دیتے ہیں یا ایک پاؤ گوشت‘ گندم کی بوری دیتے ہیں یا ایک وقت کا کھانا‘ نئی پوشاک دیتے ہیں یا فقیر کی پھٹی ہوئی گدڑی سی دیتے ہیں‘ کسی بے گھر کو مکان خرید دیتے ہیں یا کسی کو ایک چارپائی ہی لے دیتے ہیں‘ کچھ بھی دیں‘ مقدار اور قیمت کا مسئلہ نہیں۔ ایک روٹی کے مالک ہیں تو آدھی کسی کو کھلا دیجیے۔ جو آپ کے نزدیک ذرہ ہے‘ کیا عجب جسے دے رہے ہیں اس کے لیے پہاڑ ہو۔ اور دیتے وقت رنگ دیکھیے نہ نسل‘ مذہب دیکھیے نہ عقیدہ! زبان دیکھیے نہ علاقہ! دیجیے اور آنکھیں بند کر کے دیجیے۔ بس دیتے رہیے! جتنا آسانی سے کر سکتے ہیں کیجیے۔ بس کرتے رہیے۔