جو کچھ ہونے والا ہے‘ اس کا سوچ کر آپ خلجی‘ تغلق‘ لودھی اور مغل خاندانوں کی عظیم الشان سلطنتوں کو بھول جائیں گے۔ آپ اس انگریزی یلغار کو بھی فراموش کر بیٹھیں گے جو جنوب سے شروع ہوئی تھی اور پورے ہندوستان پر چھا گئی تھی۔ جو کچھ ہونے والا ہے اس کے سامنے آپ کو راجہ پورس‘ سکندرِ اعظم‘ احمد شاہ ابدالی‘ نادر شاہ اور رنجیت سنگھ جیسے سورما چوہے نظر آئیں گے۔
گنڈاپوری لشکر چل پڑا ہے۔ جن توپوں کے ساتھ شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے ابراہیم لودھی کے لشکرِ جرار کو دھول چٹوا دی تھی‘ وہ توپیں اب گنڈاپوری لشکر کے جلو میں ہیں۔ ان توپوں کو 20ہزار بیل کھینچ رہے ہیں۔ توپوں کے پیچھے جنگجو ہاتھیوں کی سیسہ پلائی دیوار کھڑی ہے۔ ایک ایک ہاتھی کے کجاوے پر پانچ پانچ بندوقچی متعین ہیں۔ ان بندوقچیوں کا نشانہ کبھی خطا نہیں ہوا۔ جس ہاتھی پر بہت بڑا سنہری چترِ بادشاہی نصب ہے‘ اس پر بانیٔ سلطنتِ گنڈاپوری‘ جناب گنڈاپور صاحب‘ خود بنفس نفیس تشریف فرما ہیں۔ ہاتھ میں تلوار ہے۔ کمر کے ساتھ خنجرِ آبدار لٹک رہا ہے۔ تاج پر لگے ہیرے اور موتی چمک رہے ہیں۔ ان کے دائیں بائیں جلو میں اور عقب میں تیر اندازوں کے دستے ہیں۔ سورج مغرب سے نکل سکتا ہے مگر ان تیر اندازوں کا تیر غلطی نہیں کر سکتا۔ کل شام کو گنڈاپوری لشکر نے دریائے سندھ کو عین اس جگہ سے عبور کیا جہاں جلال الدین خوارزم نے چھلانگ لگائی تھی۔ دریا عبور کرنے کے بعد گنڈاپوری لشکر نے اکبرِ اعظم کے بنائے ہوئے قلعے پر قبضہ کر لیا۔ آخری خبریں آنے تک وہ حسن ابدال میں عین اس جگہ پڑاؤ ڈالے ہیں جہاں شہنشاہ اورنگزیب نے قیام کیا تھا۔ شہنشاہ گنڈاپور نے اس جگہ دربار لگایا۔ خلعتیں تقسیم کیں۔ شاعروں نے قصیدے پڑھے۔ مساجد میں ان کے نام کا خطبہ پڑھا گیا۔ یہیں سے شہنشاہ عالی جناب نے پنڈی‘ جہلم‘ لاہور اور سیالکوٹ کے حکمرانوں کو خطوط لکھے اور متنبہ کیا کہ ہتھیار ڈال دیں ورنہ ان کی اس تلوار کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں جو دشمنوں کے سر پر صاعقہ بن کر کوندتی ہے۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان شہروں کے والی‘ عالم پناہ کی غلامی قبول کر کے ان کا باجگزار بننا اپنی دنیاوی اور اُخروی سعادت سمجھیں گے۔ شہنشاہ گنڈاپور لاہور کی بادشاہی مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیں گے۔ پھر شاہی قلعے میں استراحت فرمائیں گے۔ گنڈاپوری لشکر کی اگلی منزل پانی پت کا میدان ہو گا۔ قصور سے گزرتے ہوئے آپ ایک ذیلی لشکر کو‘ جناب علی احمد خان کی قیادت میں کشمیر کی فتح کے لیے روانہ فرمائیں گے۔ جیسے ہی شاہی لشکر پانی پت کے میدان میں خیمہ زن ہو گا‘ جناب علی احمد خان کشمیر فتح کر کے لشکر سے آن ملیں گے۔ دنیا بھر کے جنگی مبصرین کو یقین ہے کہ دہلی کا حکمران گنڈاپوری لشکر کا سامنا کرنے سے گریز کرے گا۔ اسے شکست صاف دکھائی دے رہی ہو گی۔ دہلی شہر کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔ شہنشاہ گنڈاپور‘ جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں پر شمشیر بدست کھڑے ہو کر سہ روزہ قتلِ عام کا حکم دیں گے۔ تاہم ڈیرہ اسماعیل خان کے جید علما کی پُر زور سفارش پر یہ فرمان منسوخ کر دیں گے اور شمشیر کو نیام میں ڈال لیں گے۔ دہلی کے قلعے اور قطب مینار پر گنڈاپوری پرچم لہرا دیا جائے گا۔ دہلی کو سلطنتِ گنڈاپوری کا دارالحکومت قرار دے دیا جائے گا۔ یہاں سے مختلف سمتوں کو عساکر روانہ کیے جائیں گے۔ جناب سعد قیصر 20 ہزار مسلّح اسپ سواروں کے ساتھ چتوڑ‘ گوالیار اور آگرہ کے شہر فتح کرنے نکل جائیں گے۔ جناب عامر ایوب خان بنگال‘ بہار اور اڑیسہ فتح کرنے جائیں گے۔ جناب جوہر علی خان ایک لشکرِ جرار کی کمان سنبھالتے ہوئے حیدر آباد‘ بنگلور اور چنئی کا رُخ کریں گے۔ ایک اور لشکر جناب حمید اظہر کی سربراہی میں مہاراشٹرا فتح کرنے جائے گا اور بمبئی کی بندرگاہ پر قبضہ کرے گا۔ بالی وُڈ کی تمام سرگرمیوں کو فی الفور ڈیرہ اسماعیل خان منتقل کیا جائے گا۔ بہت جلد جناب عامر ایوب خان‘ جناب سعد قیصر اور جناب جوہر علی خان فتوحات کے پھریرے لہراتے‘ ایک لاکھ اونٹوں پر مالِ غنیمت لادے دارالحکومت حاضر ہوں گے۔ فتوحات کی خوشی میں دس روز تک جشن برپا ہو گا۔ بہادر کمانڈروں کو انعامات سے نوازا جائے گا۔ جناب جوہر علی خان کو حکم دیا جائے گا کہ گوا اور کیرالہ کو بھی فتح کریں۔ گنڈاپوری فتوحات کی برق رفتاری سے خوف زدہ ہو کر سری لنکا‘ افغانستان‘ نیپال‘ بھوٹان اور سکم کی ریاستیں اطاعت قبول کر لیں گی۔ جیسا کہ انگریز کیا کرتے تھے‘ ان ریاستوں میں گنڈاپوری امرا کو ریزیڈنٹ کے طور پر تعینات کیا جائے گا۔ یوں پورا برصغیر گنڈاپوری عملداری میں آ جائے گا۔
شہنشاہ گنڈاپور نظم و نسق کو درست فرمائیں گے۔ مالیہ جمع کرنے کے لیے ایک مضبوط نظام وضع فرمائیں گے۔ پورے برصغیر کو امن و امان کا گہوارہ بنا دیں گے۔ دوسرے ملکوں سے برابری کی بنیاد پر نہیں بلکہ برتری کی بنیاد پر تعلقات قائم کریں گے۔ ایشیا کے تمام ملک گنڈاپوری سلطنت کو خراج میں گھوڑے‘ اونٹ اور کنیزیں پیش کریں گے۔ لیکن شہنشاہ معظم خراج پر اکتفا نہیں کریں گے۔ بہت جلد برما پر فوج کشی کا حکم دیں گے۔ کاکس بازار کے مقام پر ہولناک جنگ ہو گی۔ رنگون فتح کر لیا جائے گا۔ اس کے بعد شہنشاہ گنڈاپور بنفس نفیس تھائی لینڈ پر حملہ کریں گے۔ تھائی لینڈ کے عوام اور افواج مقابلہ کریں گے مگر گنڈاپوری طریقِ جنگ کے سامنے بے بس ہو جائیں گے۔ بنکاک پر گنڈاپوری افواج کا قبضہ ہو جائے گا۔ بنکاک ایئر پورٹ کو ڈیرہ اسماعیل خان منتقل کر دیا جائے گا۔ تھائی لینڈ کے بادشاہ کو پنشن دے کر منوڑا (کراچی) میں نظر بند کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد دربارِ عام لگے گا۔ شہنشاہ گنڈاپور تختِ شاہی پر نزولِ اجلال فرما کر استفسار فرمائیں گے کہ تھائی لینڈ سے آگے کون کون سی اقلیمیں اور ولایتیں واقع ہیں۔ دربار کے علما نقشہ پھیلا کر کچھ بتانے کی کوشش کریں گے مگر حکم صادر ہو گا کہ نقشہ ہٹا کر صرف ملکوں کے نام بتائے جائیں کہ نقشہ کا مطالعہ کرنے میں عالم پناہ کو کوفت ہوتی ہے۔ عرض کیا جائے گا کہ اس سے آگے کمبوڈیا‘ لاؤس اور ویتنام ہیں۔ حکم صادر ہو گا کہ ان ممالک کو فتح کر کے سلطنتِ گنڈاپوری کے صوبوں میں تبدیل کیا جائے۔ کچھ عرصہ کے بعد شہنشاہ گنڈاپور ایک اور انگڑائی لیں گے۔ لشکر لیے‘ منزلوں پر منزلیں مارتے ایک طرف برونائی کے تیل کے کنووں پر قبضہ کر لیں گے‘ دوسری طرف ملائیشیا اور سنگاپور پر گنڈاپوری پرچم لہرانے لگے گا۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرے گا کہ انڈو نیشیا اور ایسٹ تیمور کے ممالک اطاعت قبول کر لیں گے۔ شہنشاہ گنڈاپور اپنی ذات بابرکات کے لیے شہنشاہِ ہند و شرق الہند و مشرقِ بعید کا لقب پسند فرمائیں گے۔
یہ وہ وقت ہو گا جب سلطنتِ گنڈاپوری کا نام دنیا کی عظیم ترین طاقتوں میں شمار ہو گا۔ جاپان اور روس کے نمائندے اذنِ حضوری کے لیے ہفتوں انتظار کریں گے۔ بڑے بڑے ملکوں کے سربراہ فیصلے کرنے سے پہلے شہنشاہ گنڈاپور کی رائے اور مشورہ لینا ضروری سمجھیں گے۔ انہیں ہمہ وقت یہ خدشہ لاحق رہے گا کہ گنڈاپوری لشکر خدانخواستہ ان کے ملکوں کا رُخ نہ کر لے۔ آگ اور خون کے اس سیلِ رواں سے بڑی بڑی سلطنتیں لرزہ براندام ہوں گی!
ہم گنڈاپوری عہد میں جی رہے ہیں! ہم خوش قسمت ہیں! شہنشاہ گنڈاپور کا سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ رہے!