یہ 2005ءیا 2006ءکی بات ہے۔ اخبار میں خبر پڑھی کہ گوجر خان کے نواحی گاوں میں ایک میّت کی تدفین کے وقت قبر سے آگ کے شعلے بلند ہوئے۔ تدفین مکمل ہوئی یا نہیں؟ اب یاد نہیں کہ خبر میں اس حوالے سے کیا بتایا گیا تھا۔ میں نے گاڑی لی‘ اپنے ڈرائیور چاچے علی احمد کو ساتھ لیا اور گھنٹے ڈیڑھ بعد اُس گاوں میں پہنچ گیا۔ آج اٹھارہ برس بعد گاوں کا نام بھی یاد نہیں۔ پنڈی سے آتے ہوئے جی ٹی روڈ کے دائیں طرف تھا اور اچھا خاصا بڑا گاوں تھا۔ گاوں میں داخل ہونے کے بعد پوچھا کہ کیا یہاں کوئی اخبار فروش ہے؟ ایک کھوکھے کی طرف رہنمائی کی گئی۔ اخبار فروش کو بتایا کہ فلاں اخبار میں کام کرتا ہوں اور یہ کہ اخباری خبر کے مطابق تدفین کے وقت قبر میں آگ جل رہی تھی‘ اس کی تفصیل کیا ہے؟ کہنے لگا کہ اس نے بھی سنا ہی ہے۔ عام طور پر چھوٹے قصبوں اور بستیوں میں ایک ہی اخباری نمائندہ تمام اخباروں کو خبریں بھیجتا ہے۔ اس سے اخباری نمائندے کا نام پوچھا۔ اس نے غور سے مجھے دیکھا۔ پھر کچھ سوچ کر کہنے لگا کہ اسے نام نہیں معلوم۔ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ وہ بتانا نہیں چاہتا تھا‘ وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی چھوٹی آبادی میں اخبار فروش‘ اخباری نامہ نگار کو نہ جانتا ہو۔ پھر پوچھا کہ میّت والا گھر کون سا ہے؟ اس نے بتایا کہ تدفین یہاں ہوئی ہے مگر پھُوہڑی (تعزیت کی جگہ) دوسرے گاوں میں ہے جو جی ٹی روڈ کی دوسری طرف واقع ہے۔ دوسرے گاوں میں جانے سے پہلے گاوں کے چند دکانداروں سے پوچھا کہ کیا آگ والی خبر درست ہے؟ اکثر اس خبر سے لاعلم تھے۔ کچھ نے کہا کہ انہوں نے بھی سنا ہے۔ اس اثنا میں چاچا علی احمد بھی گھوم پھر کر پوچھ گچھ کرتا رہا۔ مگر ہمیں کوئی ایسا شخص نہ ملا جس نے یہ واقعہ اپنی آنکھو ں سے دیکھا ہو۔ پھر ہم نے جی ٹی روڈ کو کراس کیا اور دوسرے گاو ں میں پہنچے۔ معلوم ہوا کہ یہ موت تو کئی ہفتے پہلے واقع ہوئی تھی۔ پھُوہڑی اٹھا دی گئی تھی۔ گھر میں کوئی مرد اس وقت دستیاب نہ تھا جس سے بات کی جاتی۔ ہم نے گاوں میں چل پھر کر بہت سے بھلے مانسوں سے پوچھا۔ عینی شاہد کوئی نہ ملا۔ اخبار میں خبر دینے والا شخص ملتا تو اس سے خبر کا سر چشمہ پوچھتے۔ لیکن اگر آگ دکھائی دی ہوتی تو گاوں میں ہر شخص کو اس کے بارے میں معلوم ہوتا اور عینی شاہد بھی کئی ہوتے!
ہمارے معاشرے میں کسی خبر‘ کسی واقعے یا کسی بات کی تصدیق ضروری نہیں۔ سارا سلسلہ افواہوں کی بنیاد پر قائم ہے۔ گواہ یا ثبوت پوچھنے کا دماغ ہی نہیں! ایک شخص ہانپتا کانپتا مولوی صاحب کے پاس آیا اور گویا ہوا کہ پیر صاحب کی بیٹی کو کتا کھا گیا ہے۔ مولوی صاحب نے پوچھا کون کہہ رہا ہے؟ جواب دیا قرآن پاک میں لکھا ہے اور یہ کہ اسے آج ہی معلوم ہوا ہے۔ مولوی صاحب کچھ دیر سوچتے رہے۔ پھر ہنسے اور کہا احمق! تُو نے بات کو کیا سے کیا کر دیا ہے۔ وہ پیر صاحب نہیں تھے‘ پیغمبر تھے اور بیٹی نہیں تھی پیغمبر کا فرزند تھا اور کتے نے نہیں کھایا تھا‘ بھیڑیے نے کھایا تھا اور بھیڑیے نے بھی کھایا نہیں تھا‘ بس بھائیوں نے جھوٹ بولا تھا۔ ایک راوی سے دوسرے راو ی تک‘ پھر تیسرے اور پھر چوتھے راوی تک بات کس طرح تبدیل ہوتی ہے‘ اسے سمجھنے کے لیے ایک کھیل ایجاد کیا گیا ہے جس کا نام ہے Chinese whispers یعنی "چینی سرگوشیاں"۔ کچھ بچے‘ فرض کیجیے پندرہ بچے‘ ایک دائرہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ پہلا بچہ ساتھ والے بچے کے کان میں ایک بات کہتا ہے۔ وہ بچہ اگلے بچے کو اور یوں یہ سرگوشی چلتے چلتے آخری بچے تک پہنچتی ہے۔ ہر بچے کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بات کو درست سنے اور بغیر کسی رد و بدل کے ساتھ والے بچے کے کان تک پہنچا دے۔ ساری احتیاط کے باوجود آخری بچے تک پہنچتے پہنچتے بات تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کھیل کے مختلف ملکوں میں مختلف نام ہیں۔ برطانیہ‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں اسے "چینی سرگوشیاں" کہتے ہیں۔ امریکہ میں "ٹیلی فون گیم" اور بہت سے دوسرے ملکوں میں مختلف نام۔ یہ کھیل بہت بڑے پیمانے پر بھی کھیلا جاتا ہے۔ 2008ءمیں لندن میں یہ کھیل کھیلا گیا۔ 1330بچے اور کچھ مشاہیر شامل تھے۔ دو گھنٹے چار منٹ یہ کھیل جاری رہا۔ آغاز اس فقرے سے ہوا "ہم مل کر ایک مختلف دنیا بنائیں گے"۔ آخری کھلاڑی تک پہنچتے پہنچتے یہ فقرہ یوں ہو گیا "ہم ریکارڈ قائم کریں گے"۔ 2016ءمیں یہ کھیل آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں کھیلا گیا۔ اس میں 237 افراد شریک ہوئے جو سات مختلف زبانیں بولنے والے تھے۔ کھیل افلاطون کے اس قول کے سے شروع ہوا " زندگی ایک کھیل (ڈرامے) کی طرح گزاری جائے"۔ چھبیس گھنٹوں کے بعد جب کھیل الاسکا (امریکہ ) میں ختم ہوا تو افلاطون کے قول نے یہ شکل اختیار کر لی تھی "وہ گھونگوں کو دانتوں سے کاٹتا ہے"۔
اس کھیل سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ بات اپنے سفر کے دوران اپنی شکل تبدیل کر لیتی ہے۔ مگر جان بوجھ کر‘ ابلیسی ارادے کے ساتھ‘ خبر کو غلط رنگ دینا بہت بڑا جرم ہے اور گناہ بھی! اس میں دوسروں کی جان کو خطرہ ہے۔ ایک حالیہ شیطانی حرکت کے نتیجہ میں برطانیہ میں فسادات ہوئے اور مسلمان ظلم کا نشانہ بنے۔ مسلمانوں کو ایسے عمل سے خاص طور پر روکا گیا ہے۔ غیر ذمہ دارانہ طریقے سے بات پھیلانے والے کو فاسق قرار دیا گیا ہے۔ "اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو (الحجرات:6)۔ غور کیا جائے تو یہی واحد طریقہ ہے جس سے غلط افواہوں کی روک تھام ہو سکتی ہے۔ جو لوگ مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور تحقیق کیے بغیر ہر سنی سنائی بات کو سچ مان لیتے ہیں‘ وہ نہ صرف بے وقوف اور کم عقل ہیں بلکہ قرآنی حکم کی مخالفت کا ارتکاب بھی کر رہے ہیں۔ یہ تو حکم تھا اس بات کے بارے میں جو ہم تک پہنچتی ہے۔ اب اگلا مرحلہ دیکھیے۔ فرمایا "کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بتاتا (پھیلاتا) پھرے"۔ یہ جو بھیڑ چال چلی ہے کہ "منقول" یاForwarded as received لکھ کر ہر رطب و یابس کو پھیلایا جائے اور فساد پھیلا کر لوگوں کی زندگیوں سے کھیلا جائے۔ یہ ایک مسلمان کا شیوہ نہیں ہو سکتا۔ میں اگر ظاہری شکل و صورت اور برہنہ ٹخنوں سے مسلمان ہونے کا اظہار کرتا ہوں‘ نماز پڑھتا ہوں‘ روزہ رکھتا ہوں‘ دیگیں چڑھاتا ہوں مگر افواہیں پھیلاتا ہوں‘ وٹس ایپ پر ہر سنی سنائی بات کو "Forward" کرتا پھرتا ہوں اور معاشرے میں ہیجان اور بدامنی پھیلاتا ہوں تو میں اچھا مسلمان ہر گز نہیں۔ ایک معروف ادیب کے بارے میں باوثوق ذریعے سے معلوم ہوا کہ انہوں نے میسج فارورڈ کرنے کے لیے ایک خاص وقت مخصوص کر رکھا ہے۔ ایک بیورو کریٹ بتا رہا تھا کہ صبح نماز پڑھنے کے بعد میسج فارورڈ کرتا ہے‘ لوگوں کو پھول بھیجتا ہے اور جمعہ کا دن ہو تو جمعہ مبارک بھی بھیجتا ہے۔ ہماری قوم کے پاس پیسہ دھیلا ہے نہ عقل! ہاں! فالتو وقت کروڑوں ٹنوں کے حساب سے ہے۔ اس لیے ہر روز جھوٹی سچی باتیں فارورڈ کرتے ہیں‘ پھول بھیجتے ہیں جن میں خوشبو نہیں ہوتی اور جمعہ مبارک بھیجتے ہیں۔ ویسے وٹس ایپ سے پہلے جمعہ مبارک کبھی نہیں سنا تھا۔