مورخ کے بندھے ہوئے ہاتھ

کالم کا عنوان ڈاکٹر فاروق عادل کی (چھوٹی چھوٹی خامیوں اور قابلِ معافی کوتاہیوں کے باوجود) قابلِ تعریف کتاب کے عنوان پہ ہے۔ پروفیسر طاہر مسعود (فاضل مصنف کے فاضل اُستاد) اس خوشخبری کے ذمہ دار ہیں کہ اس کتاب کی اشاعت کے پہلے ماہ ہی اس کے دو ایڈیشن شائع ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی گئی۔ مئی میں میری کتاب (یورپ کی ڈائری) کی تیسری جلد شائع ہوئی تو اسلام آباد میں تحقیقی ادارے SDPI نے تقریبِ رونمائی کا اہتمام کیا جس میں اس ادارے کے سربراہ ڈاکٹر عابد سلہری کے علاوہ دوسرے تبصرہ نگارڈاکٹر فاروق عادل تھے‘ جنہوں نے ایک کمال کا مضمون پڑھا اور بجا طور پر داد سمیٹی۔ اب انہوں نے مجھے یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ میں اُن کی کتاب پر تبصرہ کروں۔ کتنا اچھا ہوتا کہ وہ ایسا نہ کرتے۔ اندیشہ یہ ہے کہ اگر میں ان کی کتاب کی تعریفوں کے پل باندھ دوں‘ یعنی مبالغہ آرائی سے کام لوں (اور یہ وہ بے ضرر جرم ہے جس کا ارتکاب چاروں فلیپ نگاروں نے کیا ہے)‘ تو قارئین بجا طور پرانگلی اُٹھاتے ہوئے اور اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہم دونوں انجمنِ ستائشِ باہمی کے اراکین ہیں۔ فارسی کے ایک محاورے کے مطابق: وہ مجھے حاجی صاحب کہیں اور میں (ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے) انہیں ملا صاحب کہہ کر پکاروں۔
زیرِ نظر کتاب کی بیلنس شیٹ بنائی جائے تو یقینا خوبیاں (تعداد میں کم ہونے باوجود) خامیوں پر غالب آتی ہیں۔ سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مصنف نے (غالباً پہلی بار) ہماری توجہ اس تلخ حقیقت کی طرف مبذول کرائی کہ ہماری 76 سالوں کی دکھ بھری داستان جن مورخوں نے لکھی‘ اُن کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اُنہوں نے بیرونی دبائو یا اندرونی مصلحت پسندی (یہ اتنا سخت اور سنگین لفظ ہے کہ ناقابلِ استعمال ہے) کی وجہ سے سچ نہیں لکھا۔ اگر اُن کا بہت زیادہ لحاظ کیا جائے تو ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ اُنہوں نے آدھا سچ لکھا۔ گوکہ مورخین اس لحاظ کے ہرگز حقدار نہیں۔ البتہ ڈاکٹر فاروق عادل اس بارے میں بالکل خاموش ہیں کہ ان مورخوں کے ہاتھ کس نے باندھے؟ کب اور کیوں؟ کیا برطانیہ اور امریکہ یا کسی بھی یورپی ملک کے مورخوں کو بھی اس بنیاد پر سچ لکھنے کی توفیق نہیں ہوئی؟ یقینا اس بیان کا صداقت سے کوئی تعلق نہیں۔ کتنا اچھا ہوتا کہ اس کتاب میں ان دونوں بیانیوں کا ذکر ہوتا‘ تاکہ ہم موازنہ کر سکتے اور یہ اندازہ لگانے میں آسانی ہوتی کہ (ہاتھ بندھے) مورخین نے کس حد تک سچائی کا خون کیا؟
کتاب کے آغاز میں جن مشاہیر کی تصاویر لگائی گئی ہیں اُن میں سے دو تصاویر قابلِ توجہ ہیں۔ ایک خان عبدالقیوم خان کی تصویر ہے اور دوسری خان عبدالغفار خان کی۔ آج بات موخر الذکر سے شروع کرتے ہیں۔ کاش فاضل مصنف ہمیں بتاتے کہ قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظم اور باچا خان کے مابین صلح اور دوستانہ بقائے باہم کا معاہدہ کیوں نہ ہو سکا؟ کالم نگار نے اُن تاریخی حقائق کی ایک مختصر فہرست مرتب کی ہے‘ جو ہماری تاریخ کے سنگِ میل ہیں اور ہمارے ہاں بدقسمتی سے کوئی ایک بھی مورخ نہ اُبھرا جس کی زبان پر تالے نہ لگے ہوتے اور اُس کے ہاتھ بھی بندھے نہ ہوتے۔ یہ سطر لکھی جا چکی تھی کہ میرے ذہن میں بارہ مصنفین کے نام اُبھرے جنہوں نے کمال کی کتابیں لکھی ہیں اور تاریخ بیان کرتے ہوئے حق گوئی کا حق ادا کیا ہے۔
ان ممتاز مصنفین میں مرحومین کے نام ہیں:محمود مرزا‘اقبال احمد‘ حمزہ علوی‘ سبط حسن‘ ڈاکٹر جاوید اقبال اور پروفیسر کے کے عزیز۔ چھ زندہ مصنفین کے نام ہیں:ڈاکٹر پرویز ہود بھائی‘ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ ‘ڈاکٹر جعفر احمد‘ ڈاکٹر طارق رحمن‘ بریگیڈیئر (ر) اسلم گھمن اور جنرل (ر) شاہد عزیز۔ گویا دبستان کھل گیا۔ مناسب ہو گا کہ اب اُن حقائق کا ذکر کیا جائے جو آج بھی صیغۂ راز میں ہیں اور اہلِ وطن کبھی ان مورخوں کو دیکھتے ہیں جن کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور کبھی فیض صاحب کی طرف‘ جنہوں نے زبان بندی کے بعد ہر حلقۂ زنجیر میں اپنی زبان رکھ دی۔ فیض صاحب کے ہاتھ باندھنے سے کام نہ چلا تو وہ قلم کر دیے گئے (یعنی کاٹ دیے گئے) مگر پھر بھی نقشِ فریادی اور زنداں نامہ سے لے کر سرِوادیٔ سنیا تک لکھنے اور ہمارے قومی ضمیر کی آواز بن جانے اور لینن ادب انعام کا مستحق ہونے سے نہ روک سکے۔ جب ہم صحافیوں کی طرف دیکھیں تو ہمیں ایک کہکشاں نظر آتی ہے۔ مظہر علی خان‘ حمید نظامی اور فیض احمد فیض سے لے کر اُردشیر کائوس جی‘ آئی ایچ برنی اور قوم پرستوں تک۔
پاکستان کی تاریخ کے حوالے سے کئی سوالات ذہن میں آتے ہیں مثال کے طور پر یہ کہ (1)قیامِ پاکستان کے دن قائداعظم کے بطور گورنر جنرل حلف اُٹھالینے کے بعد اُن کی پہلی سرکاری تقریر نشر کرتے وقت ریڈیو پاکستان کے سربراہ ذ والفقار بخاری نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے بانیٔ پاکستان کی تقریر کا وہ حصہ (تکنیکی خرابی کا بہانہ بنا کر) نشر نہ کیا جو پاکستان کو مجوزہ فلاحی مملکت یعنی غیر مذہبی بنیادوں پر استوار کرنے کے عزم کے بارے میں تھا۔ (2) کیا یہ سچ نہیں کہ قائداعظم نے زیارت میں‘ جہاں وہ (اپنی زندگی کے آخری ایام گزار رہے تھے) اپنے ڈاکٹروں کو سختی سے ہدایت کی تھی کہ وہ عیادت کے لیے آنے والے وزیراعظم کو اُن کی گرتی ہوئی صحت کے بارے میں کچھ نہ بتائیں۔ (3) مورخ کے ہاتھ کس رسی نے اتنی مضبوطی سے باندھ رکھے ہیں کہ وہ 75 سالوں سے کھل ہی نہیں سکے؟ مورخ کو ابھی تک اجازت نہیں مل سکی کہ وہ ہمیں یہ بتا سکے کہ جنرل گریسی نے (بطور کمانڈر انچیف) قائداعظم کے حکم کی تکمیل نہ کرتے ہوئے کشمیر میں پاکستانی فوج کی پیش قدمی کی اجازت نہ دی؟ (4) پاکستانی فوج کے سب سے سینئر جرنیل (افتخار خان) کے ہوائی جہاز کا (1949ء میں) گر کر تباہ ہو جاناحادثہ تھا یا تخریب کاری؟ کرنل؍ بریگیڈیئر ایوب خان سے قائداعظم کیوں اتنے ناراض ہوئے کہ اُنہیں بطور سزا مشرقی پاکستان میں تعینات کر دیا اور وہ قائداعظم کی و فات تک وہاں رہے؟ (5) لیاقت علی خان کے قتل کی سازش میں کون لوگ ملوث تھے؟ (6) اسی طرح بے نظیر بھٹو‘ ان کے بھائی مرتضیٰ بھٹو اور جنرل ضیا الحق کے قتل کا کون ذمہ دار تھا؟ کیا مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح اور حسین شہید سہروردی کی موت قدرتی تھی یا انہیں قتل کیا گیا؟ (7) ملک غلام محمد کی کابینہ اور سکیورٹی اداروں نے اس بات کی کیوں اجازت دی کہ وہ مفلوج ہونے کے بعد حکومت امریکی خاتون سیکرٹری (ترجمان اور معتمد خاص) کے ذریعے چلائیں؟(8) جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں مشرقی پاکستان کے سب سے مقبول رہنما مولانا بھاشانی نے (اپنا عہد توڑتے ہوئے) ایوب خان کی حمایت کیوں کی؟ (9) نواب آف کالا باغ (امیر محمد خان) کو اُن کے بیٹوں نے کیوں قتل کیا؟ کیا وجہ ہے کہ نہ پوسٹ مارٹم ہوا اور نہ ایف آئی آر درج کی گئی؟ (10)ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بلانے اور مجیب الرحمن کو وزارتِ عظمیٰ نہ دیے جانے کے خودکش فیصلے میں جنرل یحییٰ اور دوسرے طاقتور افراد کی حمایت کیوں کی؟ اُنہوں نے ایک صریحاً جائز مطالبے (چھ نکات کی منظوری) کو تسلیم نہ کرنے کی روش کو کیوں اپنایا؟ (11) حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کی اشاعت کیوں روک دی گئی؟ یہ بھارت کے اشاعتی اداروں کے ہاتھ کس طرح لگی؟(12) بھٹو نے بلوچستان میں غوث بخش بزنجو اور سردار عطا اللہ خان مینگل کی حکومت کو کیوں برطرف کیا؟ اُس وقت کی سپریم کورٹ نے نیشنل عوامی پارٹی کو خلافِ قانون اور ملک دشمنی قرار دینے میں بھٹو صاحب کی ملک دشمن حکمت عملی پر مہر اثبات کیوں لگائی؟ (13) اوجڑی کیمپ میں اتنے بڑے دھماکے کی تحقیقاتی رپورٹ میں کون سے انکشافات کیے گئے؟ (14) ایبٹ آباد کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ ابھی تک منظر عام پر کیوں نہیں آئی۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں