سیاسی‘ مذہبی اور دیگر جماعتوں اور گروہوں کے دھرنے پاکستانی سیاست کی پہچان بن چکے ہیں۔ کوئی دن‘ ہفتہ‘ مہینہ ایسا نہیں گزرتا جب کہیں نہ کہیں‘ کوئی نہ کوئی مجمع سڑکوں‘ چوراہوں اور بازاروں میں نظر نہ آئے۔ کسی زمانے میں بنگلہ دیش اور اس سے قبل مشرقی پاکستان میں احتجاج کا سیاسی کلچر تھا۔ ملک کے اُس حصے میں مولانا بھاشانی نے سیاسی احتجاجی مظاہرے‘ نعرے بازی‘ جلاؤ گھیراؤ اور سڑکوں پر ایوب خان کی حکومت کے خلاف‘ بلکہ اس سے بھی پہلے دھرنوں کی بنیاد رکھ دی تھی۔ دیگر جماعتیں بھی ایسی سیاست میں پیچھے نہیں تھیں مگر اس حوالے سے تاریخی شہرت مولانا بھاشانی کو ملی۔ ہمارے طالب علمی کے زمانے میں لاہور کی مال روڈ پر ان کا جلوس اور دھرنا ابھی تک یاد ہے۔ ہمارے ہاں تو ایک اور سیاسی روایت بھی ہے جسے ہماری سیاسی جماعتیں ''لانگ مارچ‘‘ کا نام دے کر ملک کے مختلف حصوں سے اسلام آباد کی طرف چل پڑتی ہیں۔ ہمارے لانگ مارچوں کا احوال اگر قبر میں ماؤزے تنگ کو معلوم ہو جائے تو معلوم نہیں وہ ان کے بے تکے پن پر ہنسیں یا روئیں۔ ایک بار ایک انگریزی مضمون میں لانگ مارچوں کی پوری تاریخ دیکھی۔ غالباً ابھی تک پندرہ کے قریب لانگ مارچ ہو چکے ہیں اور کوئی گروہ ابھی تک اسلام آباد کو فتح نہیں کر پایا۔ ہم چونکہ اسلام آباد میں ہیں‘ ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کسی فسطائی اور شدت پسند گروہ نے اگر اس شہر کو فتح کر لیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ جو حشر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج نے تین ماہ تک ملتان کا کیا تھا‘ وہی اسلام آباد کا نہ ہو۔ ملتانی آج تک اس تباہی کو نہیں بھولے۔
جب یہ سطور لکھنے بیٹھا تھا تو ایک دوست کا پیغام آیا کہ ابھی وہیں جنگل میں ہی سکونت رکھو۔ ڈر لگا کہ کہیں رات کو ہی کوئی انقلاب تو برپا نہیں ہو گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ راستے بند ہیں اور وجہ ڈی چوک پر ایک جماعت کے بانی کی طرف سے جلسے کا اعلان ہے۔ ایسے مواقع پر ایک دو روز پہلے کنٹینرز لگا کر شہر کے اکثر حصوں کو بند کر دیا جاتا ہے۔ ہاں‘ آج کل تو ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم صاحب بھی تشریف لائے ہوئے ہیں۔ اب تو یہ سفارتی آداب اور سکیورٹی پلان کاحصہ بن چکا ہے کہ اگر کوئی سربراہِ مملکت پاکستان کا دورہ کرے تو اسلام آباد کے ایک حصے کو شہریوں کے داخلے کے لیے مکمل طور پر بند کردیا جائے۔ ہمیں بھی ایسے مواقع پر اپنے گھروں میں محبوس ہونا پڑتا ہے۔ پتا نہیں ہم کیا سے کیا ہو گئے ہیں۔ یہ کوئی افسانوی داستان نہیں‘ ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ کئی دہائیوں پر محیط اپنے ملک کے بگڑے ہوئے حالات کے تناظر میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں۔ یہ مئی 1961ء کا واقعہ ہے۔ امریکہ کے اس وقت کے نائب صدر لنڈن جانسن‘ جو بعد میں صدر بھی بنے‘ پاکستان کے دورے پر آئے۔ کراچی میں انہیں کھلے بازار میں گاڑی میں بٹھا کر سیر کرائی گئی۔ ایک جگہ انہوں نے اونٹ گاڑی کو دیکھا تو رکنے کے لیے کہا۔ نیچے اترے اور اونٹ گاڑی کے مالک سے ہاتھ ملایا۔ اس سے کچھ دیر باتیں کیں توبہت خوش ہوئے۔ سار بان بشیر کی سادگی نے انہیں بہت متاثر کیا۔ اُسے وہیں کھڑے کھڑے امریکہ آنے کی دعوت دے دی۔ اس زمانے کے اخباروں میں بشیر ساربان کا بہت چرچا ہوا‘ اور ہم نے اپنے دور دراز کے علاقوں میں اس کی خوش قسمتی کی کہانیاں سنیں۔ صدر جانسن انہیں اپنی ریاست ٹیکساس میں لے گئے‘ اپنے خاندان اور دوستوں سے ملاقاتیں کرائیں‘ کھانوں اور دعوتوں کا اہتمام بھی ہوا اور بے شمار تحائف بھی دیے۔ بشیر احمد ساربان سے سب سے بڑی خواہش کا پوچھا تو کہا کہ وہ ایک ٹرک لینا چاہتے ہیں۔ تو جو تحائف انہیں ملے تھے‘ ان سے ایک ٹرک خرید لیا۔ اس کا وہی کچھ ہوا جو اکثر ٹرکوں کا ہوتا ہے۔ ہم ایک پُرامن‘ مہمان نواز اور زندہ دل معاشرہ تھے۔ پھر نہ جانے کس کی نظرِ بد لگ گئی‘ یا مہم جوئی کا سلسلہ شروع ہو گیا جو ابھی تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلے سات برسوں کو چھوڑ کر ہم نے اپنی قومی زندگی کا زیادہ تر حصہ سیاسی کشمکش کی نذر کر دیا ہے۔ میدان ایک ہے‘ مسئلہ بھی ایک ہے‘ صرف کھلاڑی بدلتے رہتے ہیں۔ میدان تو پاکستانی سیاست ہے اور سب کھلاڑیوں کا مقصد اقتدار پر قبضہ جمانا ہے۔ اس کے بارے میں آپ کو نہ مزید آگاہی کی ضرورت ہے اور نہ ہم وہی باتیں بار بار کرکے آپ کو مزید پریشان کرنا چاہتے ہیں۔ اقتدار میں ہوں تو ہر گروہ‘ اتحاد اور جماعت یہ کہتے نہیں تھکتی کہ دھرنوں اور لانگ مارچوں سے ملک کا نقصان ہوتا ہے‘ استحکام پیدا نہیں ہوتا‘ ملک میں سرمایہ کاری نہیں ہوتی اور یہ کہ دھرنوں والے ملک کے مفاد کے خلاف کام کررہے ہیں۔ جب اپوزیشن میں ہوں تو سیاسی راگ بدل جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک غلط مفروضہ میڈیا میں تواتر سے دہرایا جاتا ہے کہ احتجاج جمہوری حق ہے۔ بالکل درست‘ مگر احتجاج اور دھرنوں میں زمین آسمان کا فرق ہے‘ اور یہ بھی کہ جمہوری احتجاج وہ نہیں ہوتا جو پاکستان میں جماعتیں کرتی ہیں۔ ہم نے مغرب میں جمہوری احتجاج دیکھے ہیں‘ کچھ میں شرکت بھی کی ہے۔ سب سے پہلے شہری حکومت سے اجازت لی جاتی ہے‘ جگہ اور وقت کا تعین کیا جاتا ہے‘ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ لوگ کتنی تعداد میں حصہ لیں گے۔ یہ احتجاج گاڑیوں کی قطاروں میں نہیں ہوتے‘ لوگ پیدل جمع ہوتے ہیں‘ نعرے لگاتے ہیں‘ میڈیا کے لیے تصویریں بنتی ہیں اور لوگ پُرامن طریقے سے منتشر ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات بعض ممالک میں مظاہرے پُرتشدد بھی ہو جاتے ہیں‘ مگر قانون ہاتھ میں لینے والے افراد گرفتار ہوتے ہیں‘ مقدمات چلتے ہیں اور انہیں سزا ملتی ہے۔ چھ جنوری 2021ء کو امریکی صدارتی انتخابات کو متنازع بنانے کے لیے کانگریس کی عمارت پر لوگوں نے ہلہ بولا اور ایک سکیورٹی گارڈ جاں بحق بھی ہوگیا‘ مگر یہ لوگ مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں‘ کچھ کو سزا بھی ہو چکی ہے۔
ہمارے دھرنے اور پُرامن احتجاج کبھی بھی پُرامن نہیں ہوتے‘ اور نہ ہی قانون کی خلاف ورزی کرنے والو ں کو سزا ملتی ہے۔ وجہ آپ کو معلوم ہے کہ کئی ایسے دھرنوں اور احتجاجوں کی پشت پناہی کی جاتی ہے کہ کسی حکومت کو گرایا جائے‘ اور پھر جن کا زور چلتا ہے وہ سب کچھ کرگزرتے ہیں۔ 2014ء کا مشہور دھرنا‘ جو کئی ماہ تک جاری رہا اور جس کا ماحول ہم نے تین بار خود جا کے دیکھا‘ ایک نہیں‘ دو دھرنے تھے۔ ہمارے محترم طاہر القادری صاحب اپنے تیسرے دھرنے کے لیے الگ سے خیمہ زن تھے۔ اقتدار کی بے لگام کشمکش کی سیاست نے دھرنوں اور لانگ مارچوں کو ہی جنم دینا ہے‘ سو ہم وہیں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسی سیاست میں ہمارے سب مہربانوں نے معاشرے کی فکری‘ اخلاقی اور تاریخی روایت کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ‘ جس نے دیگر مسائل کی نمو کی ہے‘ وہ اقتدار کی جائزیت‘ شفاف انتخابات اور حقیقی جمہوری حکومت کا قیام ہے۔ یہ بات تو ہر کھلاڑی کرتا ہے مگر ان بنیادی امور پر جو معاشروں کو اصلاح‘ امن اور ترقی کی راہ پر ڈالتے ہیں‘ اعتماد اور یقین نہیں۔ سیاسی رنگ میں بھی مہم جوئی کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ اور اب تو ایسے بڑے نامور کھلاڑیوں کے پاس دولت کے پہاڑ ہیں کہ سونے کے چند پتھر اٹھا کر حالات کا دھارا اپنے حق میں کر لیتے ہیں۔ پھر دھرنے اور لانگ مارچ نہیں ہوں گے تو اور کیا ہوگا؟