دایاں اور بایاں بازو

بائیں بازو کی سیاسی اصطلاح پہلی بار 1789ء میں فرانس کی پارلیمان (Estates General) کے اجلاس میں نشستوں کے معاملے میں حفظِ مراتب سے متعارف ہوئی۔ فرانس کی حکمران اشرافیہ کے اراکین بطور تکریم اور عزت افزائی‘ بادشاہ کے دائیں ہاتھ بٹھائے گئے‘ جبکہ غیر مراعات یافتہ اور افتادگانِ خاک کے نمائندوں کو (بطور تحقیر) بائیں ہاتھ بچھائی جانے والی کرسیوں پر بٹھایا گیا۔ گزرے 235 برسوں میں مذکورہ اصطلاحات سیاسی لغات کا اس طرح حصہ بنیں جس طرح پتھر پر لکیر۔ ہر یورپی ملک میں کم از کم دو سیاسی جماعتیں ایسی ہوتی ہیں جن میں ایک کی پہچان دائیں بازو کے طور پر ہوتی ہے (برطانیہ کی ٹوری (کنزرویٹو) پارٹی کی طرح قدامت پسند‘ سرمایہ دارانہ نظام کی حامی‘ منڈی پر تمام سرکاری پابندیوں اور ہر قسم کی قدغنوں کے خاتمے اور انفرادی آزادیوں کی علمبردار)۔ دوسری طرف بائیں بازو کی سیاسی جماعت (اخبار یا جریدے) کسی نہ کسی قسم کے اشتراکی نظام‘ ذرائع پیداوار اور بڑی صنعتوں کو قومی ملکیت میں لینے‘ نئے معاشی نظام میں عوامی نمائندوں کو (عوامی اور اجتماعی مفاد میں) دخل اندازی کا اختیار دینے اور غیر مراعات یافتہ طبقے کی فلاح وبہبود کے لیے قانون سازی کے اصولوں کی علمبردار ہوتی ہے۔ سوویت یونین کے بطور سیاسی اکائی خاتمے اور چین میں نیم سرمایہ دارانہ نظام کے تعارف اور بالادستی کے بعد کی دنیا میں دائیں اور بائیں بازو کی خلیج سکڑتی سکڑتی (زیادہ تر ممالک میں) معدوم ہو چکی ہے۔ قوم پرست جماعتیں (جن کی زیر قیادت ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک نے یورپی نوآبادیاتی قبضے سے نجات پائی) نظریاتی طور پر Centrist تھیں (مثلاً ہندوستان میں کانگریس اور مسلم لیگ یا مشرقِ وسطیٰ میں بعث پارٹی) یا اشتراکی (مثلاً کیوبا‘ ویتنام اور چین کی کمیونسٹ پارٹیاں)۔ دائیں بازو کی کسی سیاسی تحریک نے (ماسوائے ایران اور افغانستان) عوامی انقلاب کی قیادت نہیں کی۔
1950ء‘ 60ء اور 70ء کی دہائیوں میں پاکستان میں دائیں بازو (روایتی اور مذہبی علما کی جماعتیں) اور بائیں بازو (مولانا بھاشانی اور ولی خان کی عوامی پارٹی‘ میجر اسحاق محمد اور سی آر اسلم کی چھوٹی‘ جاندار‘ متحرک مگر بے اثر جماعتیں اور پیپلز پارٹی) سیاسی اُفق پر چھائی ہوئی تھیں۔ سندھ میں حیدر جتوئی اور رسول بخش پلیجو نے بے زمین سندھی کسانوں اور مزارعین (ہاریوں) کو اس جدوجہد کا حصہ بنایا۔سقوطِ ڈھاکہ کے ساتھ ہی کسان مزدور تحریک کی کمر بھی ٹوٹ گئی۔ بھٹو صاحب ویسے تو سوشلزم کے علمبردار تھے مگر انہوں نے برسرِ اقتدار آکر سوشلزم کا وہی حال کیا جواُن کے جانشین ضیا الحق نے مذہبی سیاست کا۔ دونوں غیر مخلص تھے اور دونوں نے مل کر پاکستان سے نظریاتی سیاست کا جنازہ نکال دیا۔ پیپلز پارٹی کے نظریاتی بیانیے کو پہلے بے نظیر بھٹو اور پھر اُن کے جانشین آصف علی زرداری کے طرزِ سیاست نے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ پارٹی قیادت بلاول بھٹو زرداری کو ملی تو پیپلز پارٹی کے اشتراکی بیانیے کے کفن میں آخری کیل ٹھونکنے کا اعزاز اُنہیں مل گیا۔ پھر بھی غنیمت ہے کہ پیپلز پارٹی نے (تمام بڑی خامیوں اور محنت کش دشمن حکمت عملی کے باوجود) اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے حالیہ انتخابی مہم میں بار بار مطالبہ کیا کہ حکومت اپنے نہ ختم ہونے والے مالی بحران کی شدت کو اشرافیہ کو دی جانے والی 125 ارب روپوں کی سبسڈی ختم کر کے کم کر سکتی ہے۔ بھٹو صاحب کے بعد دو طویل مارشل لاء ادوار (جو دو دہائیوں پہ محیط تھے) کے درمیان بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے دو دو عہدِ اقتدار‘ اور بعد ازاں انہی دونوں پارٹیوں کی تیسری تیسری حکومت (یہ عرصہ بھی دو دہائیوں پہ محیط ہے)‘ 40 سالوں میں پھیلے یہ ادوارِ حکومت (جو بدترین گورننس‘ نالائقی اور بدعنوانیوں کا مجموعہ تھے) ہی ہمارے ملک میں خرابیوں کی اصل وجہ تھے۔ اگر کوئی کسر انہوں نے چھوڑی تھی تو وہ تحریک انصاف‘ اور شہباز شریف کی دو مخلوط اور عبوری حکومتوں نے نکال دی۔ اب ہم جہاں کھڑے (بلکہ گرے پڑے) ہیں وہاں ایک طرف انتہائی سنگین معاشی بحران اور اربوں روپوں کا مستقل خسارہ ہے اور دوسری طرف ایک خوفناک سیاسی گرداب۔ ہر سال‘ ہرماہ اور ہر روز بڑھتی بیروزگاری‘ مہنگائی‘ دہشت گردی اور لاقانونیت کے سبب سندھ اور پنجاب میں کچے کے علاقے میں ڈاکو راج اور بڑے شہروں بالخصوص کراچی میں ڈکیتیوں کی وارداتوں نے حالات کو بے حد خراب کر دیا ہے۔ علامہ اقبال نے کسی اور سیاق و سباق میں کہا تھا: دلیلِ کمر نظری‘ قصۂ جدید و قدیم
یہ کالم نگار یہ لکھنے کی جسارت کرنا چاہتا ہے کہ دو آمروں‘ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی بار بار اقتدار میں آنے والی حکومتوں کے 40 سالوں نے ہماری سیاست (چاہے وہ کتنی خون آلود اور گرد آلود تھی) اور جمہوری نظام (چاہے وہ کتنا خستہ حال‘ بوسیدہ‘ فرسودہ اور عوام دشمن تھا) کا حلیہ اتنا بگاڑ دیا ہے‘ پُلوں کے نیچے پامال زدہ آئینی دستاویزکے تار تار اتنے ٹکڑے پانی میں بہتے ہوئے اس روانی اور فراوانی سے سمندر میں گرتے رہے کہ اب نہ دایاں بازو رہا اور نہ بایاں بازو۔ یہ دونوں کٹ چکے ہیں۔ صرف یہی نہیں‘ اب صرف ایک سر بریدہ دھڑ رہ گیا ہے۔ غالب کے بقول:
اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہرِ آرزو
ہم احسان مند ہیں کہ جناب محمود خان اچکزئی نے حکمِ اذاں سن لیا اور کمال سچائی اور دیانتداری سے کلمۂ حق ادا کیا۔ اب اگر اہلِ وطن اس پکار پر لبیک کہنے سے عاجز آ جائیں تو اس میں جنابِ اچکزئی کا کیا قصور؟ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قانون کی حکمرانی‘ سلطانیٔ جمہور‘ انسانی حقوق کے احترام سے ایک نئی عمارت (اقبال کی زبان میں نیا شوالہ) تعمیر کریں۔فلاحی مملکت کے ستونوں کو قوتِ اُخوتِ عوام سے مضبوط کریں۔ کراچی سے خیبر تک عوام دوست اور حق گوافراد‘ ماہی گیروں اور صنعتی مزدوروں سے لے کر انجمنِ مزارعین تک‘ ہائوس وائف سے تمام پیشہ ور خواتین تک‘ کالجوں سے یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات تک‘ پاکستان میں رہنے والوں سے دنیا بھر میں پھیلے اوور سیز اور تارکین وطن تک‘ غرضیکہ ہم سب ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں اور مل کر ایک ایسا متحدہ محاذ بنائیں جو نہ صرف عوام دوست ہو بلکہ اُن اعلیٰ مقاصد کی تکمیل کا حلف اُٹھائے جن کی خاطر یہ مملکتِ خداداد بنائی گئی تھی۔
کالم نگار کو فخر ہے کہ وہ تحریکِ پاکستان کے آخری تین سالوں کی عوامی جدوجہد اور مظاہروں میں خود شریک ہوا۔ اُس کے کانوں میں اب بھی ''لے کے رہیں گے پاکستان اور بن کے رہے گا پاکستان‘‘ کے نعرے اُسی طرح گونجتے ہیں۔ سینکڑوں میل کا بے حد مشکل اور بیل گاڑیوں پر بیٹھ کر طے کیا جانے والا سفر اور پُر عزم اور بے خوف مہاجرین کے قافلے بھی اسے اس طرح نظر آتے ہیں جیسے کل کی بات ہو۔ آٹھ فروری کے انتخابات نے ثابت کر دیا کہ سوکھی ہوئی ڈالی پھر ایک بار ہری بھری ہو جائے گی۔ فصلِ خزاں (بقول فیض) شامِ غم کی طرح لمبی ضرور ہے مگر وہ بہرحال شام ہی ہے۔ آج نہیں تو کل‘ نہیں تو پرسوں‘ جلد نہیں تو بدیر‘ یہ گزر ہی جائے گی۔ پھر سویرا اور اجالا ہوگا‘ جو نہ داغ داغ ہوگا‘ نہ شب گزیدہ۔ ضرورت ڈیڑھ‘ ڈیڑھ اینٹ کی مساجد کی نہیں بلکہ ایک جامع مسجد کی ہے۔ فیض صاحب جیسا معتبر شخص ہمیں یقین دلاتا ہے کہ ہم وہ مبارک اور روشن دن ضرور دیکھیں گے جس کا خواب اقبال نے دیکھا اور قائداعظم کی قوم نے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں