آج کل مجھے انگریزی کا مشہور محاورہ بار بار یاد آتا ہے: Between the devil and the deep blue sea۔ مطلب جب انسان شیطان اور سمندر کے درمیان پھنس جائے یا پھر آگے کنواں اور پیچھے کھائی ہو اور آپ درمیان میں پھنس جائیں کہ آگے جا سکتے ہیں نہ پیچھے۔ ہمارے مرحوم محمود نظامی اس انگریزی محاورے کا سرائیکی میں ایسا خوبصورت ترجمہ کرتے تھے جسے سنایا تو جا سکتا ہے لیکن تحریر نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کو نہیں لگتا کہ یہ قوم شیطان اور سمندر یا کنویں اور کھائی کے درمیان پچھلے 77سال سے پھنسی کھڑی ہے‘ جیسے رضیہ غنڈوں میں پھنس جاتی ہے اور اس بیچاری کو سمجھ نہیں آتی کہ اب کہاں جائے‘ کس سے مدد مانگے۔ جب آپ کے رہنما یا میرِ کارواں ہی لٹیرے نکل آئیں تو پھر آپ کو ڈاکوؤں سے کس نے بچانا ہے‘ پھر کس سے گلہ شکوہ کرنا۔ اپنے لیڈروں کو تو ایک لمحے کیلئے چھوڑ دیتے ہیں جن کے درمیان ہم مستقل طور پر پھنس چکے ہیں‘ ہم تو عالمی سطح پر بھی اسی قسم کی صورتحال کا شکار ہیں۔ اس وقت تازہ ترین جو مشکل آن پڑی ہے وہ یہ کہ ہم چین اور امریکہ کے درمیان جاری سرد جنگ میں بری طرح پھنسے ہوئے بلکہ یوں کہیں کہ سینڈوچ بن چکے ہیں‘ سادہ الفاظ میں رگڑے جا رہے ہیں۔ یہ جنگ جتنی تیز ہو رہی ہے اتنا ہی بڑا رگڑا ہمیں لگ رہا ہے اور ہم مزید کچلے جا رہے ہیں۔
پاکستان اور پاکستانیوں کو یہ بات پسند ہے یا نہیں‘ لیکن تین ممالک ہمارے لیے بہت اہم ہیں جنہیں کسی بھی صورت اور کسی بھی قیمت پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘ نہ ہی ان سے تعلق توڑنا افورڈ کیا جا سکتا ہے۔ یہ تین ممالک امریکہ‘ چین اور سعودی عرب ہیں۔ ان تین ملکوں سے بہر صورت بنا کر ہی رکھنی ہے‘ چاہے پوری دنیا سے تعلق کیوں نہ ختم کرنا پڑ جائے۔ پاکستان کے ان تینوں ملکوں سے مفادات کی نوعیت مختلف ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ اُس وقت ہوتا ہے جب مذکورہ تین ملکوں میں سے دو ممالک کے ایک دوسرے سے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں اور ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہم کسی ایک ملک کا انتخاب کر لیں۔ اگرچہ امریکہ اور چین کی سرد جنگ بہت پرانی ہے اور ہم اس جنگ اور اس کے دبائو کے عادی ہو چکے ہیں کہ اسے کیسے ہینڈل کرنا ہے‘ لیکن لگتا ہے کہ اب کی بار معاملات ہمارے ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں۔ اب جو امریکی اراکینِ کانگریس نے پاکستان کے الیکشن پر قرارداد منظور کی ہے اس نے سب کو چونکا دیا ہے اور لگتا ہے کہ بات بڑھ گئی ہے۔
بظاہر اس قرارداد میں پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا نام استعمال کیا گیا ہے اور الیکشن پر انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ درست کہ پاکستان میں انتخابات کے حوالے سے کئی سنگین سوالات موجود ہیں اور تحقیقات کا مطالبہ پی ٹی آئی بھی کر رہی ہے اور اس کی الیکشن دھاندلی کے حوالے سے شکایات جائز بھی ہیں۔ پی ٹی آئی کے حامی بڑی تعداد میں امریکہ میں ایکٹو ہیں‘ وہ ماضی میں بھی حکومت کے خلاف امریکی کانگریس اور سینیٹ میں مؤثر لابنگ اور موجودہ حکومت اور مقتدر فورسز کیلئے خاصی پشیمانی اور شرمندگی کا سامان پیدا کرتے رہے ہیں۔ اگرچہ زیادہ تر لوگ کانگریس کے 368اراکین کی جانب سے اس قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالنے کو پی ٹی آئی کی امریکہ میں کامیاب لابنگ سے منسوب کر رہے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ پی ٹی آئی سے اوپر کے لیول کا کام ہے۔ پی ٹی آئی زیادہ سے زیادہ پچاس‘ سو کانگریس مین کو لابنگ کے ذریعے قرارداد پر راضی کر سکتی تھی۔ 368کانگریس مین کو ایک ساتھ اکٹھا کرنا‘ جس میں دونوں پارٹیوں کے ممبران شامل ہوں‘ یہ پی ٹی آئی کا کام نہیں ہے۔ ڈوریں کہیں اور سے ہلائی گئی ہیں اور کہیں اونچی جگہ پر یہ فیصلہ ہوا ہے کہ اب پاکستان کو 'فکس‘ کیا جائے۔ یہ عمران خان کی محبت میں نہیں کیا گیا بلکہ اس کے پیچھے کچھ اور کہانی لگتی ہے۔ خان صاحب تو کچھ دن پہلے تک امریکیوں پر برس رہے تھے کہ وہ مقتدرہ کے ساتھ مل کر ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں شریک تھے‘ جو بائیڈن نے تو صدر بن کر انہیں فون تک نہیں کیا تھا جیسے مودی کو کیا تھا اور اسی فون کال کی وجہ سے عمران خان امریکہ‘ امریکی صدر اور امریکی حکومت سے ناراض ہو گئے اور اتنے ناراض ہوئے کہ طالبان کو امریکہ کی شکست پر مبارکباد تک دے ڈالی‘ بلکہ واشگٹن پوسٹ میں کالم لکھ مارا جس میں امریکیوں کے افغان شکست کے زخموں پر نمک چھڑکا گیا۔ مسلسل دو سال تک وہ اپنے ہر جلسے میں امریکہ کے خلاف تقریریں کرتے رہے۔ ایسی تقریریں جب ایران‘ افغانستان‘ عراق یا لیبیا میں امریکہ کے خلاف کی جاتی تھیں تو وہاں کچھ انجام اچھا نہیں ہوا۔ لیکن اب کیا وجہ ہے کہ امریکی کانگریس کی دونوں پارٹیوں میں اچانک عمران خان کی محبت جاگ پڑی؟
جو الزامات کانگریس کی قرارداد میں لگائے گئے ہیں‘ وہی الزامات امریکی الیکشن بارے ٹرمپ بھی مسلسل لگاتا رہا ہے۔ امریکی عدلیہ پر بھی ٹرمپ حملے کرتا رہا ہے۔ اس کے حامی بھی کیپٹل ہل پر چڑھ دوڑے تھے۔ وہاں بھی سزائیں دی گئیں۔ اب جب امریکہ خود اپنے مسائل میں پھنسا ہوا ہے اور وہاں اس سال الیکشن ہونا ہے اور ٹرمپ کو بھی اگلے ماہ جولائی میں سزا سنائی جانی ہے تو ایسے وقت میں امریکی کانگریس کا پاکستانی الیکشن پر تشویش کا اظہار کرنا دلچسپ سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کانگریس کی تشویش بجا ہے اور جو الزامات لگائے گئے ہیں‘ وہ بڑی حد تک ٹھیک ہیں مگر ہمیں اپنا ہائوس اِن آرڈر رکھنا چاہیے۔
لگتا ہے کہ امریکی اس بات سے کافی خفا ہیں کہ حال ہی میں وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف نے چین کا دورہ کیا اور نئے سرے سے سی پیک کو لانچ کرنے کی منظوری دی گئی۔ یہ کوئی راز نہیں کہ امریکہ شروع ہی سے سی پیک کے خلاف رہا ہے۔ اگر سی پیک پر کبھی کام سست ہوا یا رک گیا یا چینی ورکرز واپس گئے تو عمران خان کے دورِ حکومت میں۔ اُس وقت لندن کے اخبار میں رزاق دائود کا سی پیک کے خلاف انٹرویو چھپا تھا جس پر کافی رولا پڑا تھا۔ پی ٹی آئی حکومت کے وزیر نے سی پیک منصوبوں میں کرپشن کے الزامات لگائے تھے جس پر مراد سعید اور احسن اقبال کے مابین طویل لفظی جنگ بھی لڑی گئی۔ چینی حکومت بھی ان الزامات پر اَپ سیٹ تھی۔ 2014ء کے دھرنے کے دوران چینی صدر کا دورۂ پاکستان منسوخ ہوا تھا۔ نواز شریف حکومت اس کا ذمہ دار بھی عمران خان کے دھرنے کو سمجھتی تھی اور ایک سابق سکیورٹی ایڈوائز نے ایک انٹرویو میں عمران خان کو امریکی مفادات کے لیے بہتر قرار دیا تھا۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ پاکستان میں وہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کر سکتے تھے۔ اگر دیکھا جائے تو ٹرمپ دور میں عمران خان اور ٹرمپ انتظامیہ کے تعلقات بہت اچھے تھے جبکہ ٹرمپ چین کے ساتھ سینگ پھنسائے ہوا تھا۔
یہ تو جو بائیڈن سے حماقت ہوئی کہ انہوں نے صدر بننے کے بعد عمران خان کو فون نہیں کیا جس سے وہ ناراض ہو گئے اور بات رجیم چینج الزامات تک جا پہنچی۔ لیکن جو امریکہ‘ بقول عمران خان‘ ان کو ہٹانے کی سازش میں شامل تھا‘ وہاں آج پوری کانگریس عمران خان کے پیچھے کھڑی ہو گئی ہے۔ کیا ہم یہ سمجھیں یہ امریکہ کی دنیا بھر میں جمہوریت‘ انسانی حقوق اور انسانی آزادیوں سے محبت کی علامت ہے یا اس کے پیچھے کچھ اور کہانی ہے؟ یہ شک کرنا بنتا ہے‘ کیونکہ جس کانگریس نے پرویز مشرف یا ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف کبھی قرارداد منظور نہیں کی‘ بلکہ دونوں کو امریکہ بلا کر صدارتی پروٹوکول دیا‘ جنرل ضیا نے ایک منتخب وزیراعظم (بھٹو) کو پھانسی لگائی جبکہ جنرل مشرف نے منتخب وزیراعظم (نواز شریف) کو دہشت گرد قرار دے کر عمر قید دی‘ آج اُس امریکہ کو اچانک پاکستانی الیکشن‘ انسانی آزادیوں اور جمہوریت کی فکر کیسے لاحق ہو گئی ہے؟