دور دیس کی خبریں …(2)

آپ نے پچھلے ہفتہ ملاحظہ فرمایا ہو گا کہ میں اپنے آبائی وطنِ عزیز سے جغرافیائی فاصلے (پورے چھ ہزار میل) کے باوجود اس سے اپنی ذہنی قربت اور جذباتی لگائو کی وجہ سے (کالم کے نام 'یورپ کی ڈائری‘ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے) ان موضوعات پر گیارہ برس سے ہفتہ وار لکھ رہا ہوں جن کا تعلق برطانیہ اور یورپ کے بجائے پاکستان کے سیاسی اور معاشی مسائل سے ہے اور اس بارے اپنی غلط سلط مگر دیانتدارانہ رائے بھی لکھتا رہتا ہوں جس کا خلاصہ صرف چار الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے اور وہ ہے ''چہرے نہیں‘ نظام بدلو‘‘۔ موجودہ معاشی نظام کا مطلب ہے: ہر شعبہ پر مافیا کا قبضہ۔ بڑھتی مہنگائی‘ بیروزگاری‘ افراطِ زر اور ہمارا سیاسی نظام؟ اس میں عوام دوست (متوسط طبقے کی جماعتوں) اور محنت کشوں کی ترجمان جماعتیں کبھی گنتی کی چند نشستوں کے حصول میں کامیاب اور عموماً ایک بھی نشست حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ اس نظام (خصوصاً انتخابی طریقِ کار‘ جو متناسب نمائندگی کی نفی کرتا ہے) کے تحت ہمیں وہی حکمران ملیں گے جو ان دنوں ہمارے چاروں صوبوں اور مرکز میں برسرِ اقتدار ہیں‘ چند سالوں یا چند عشروں سے نہیں بلکہ 1947ء سے لے کر آج تک۔
ماضی قریب میں مجھے پاکستان سے تین پریشان کن خبریں ملیں۔ اوّل: پنجاب کی سادگی پسند اور کفایت شعار وزیراعلیٰ کی کار کے لیے سرکار دو یا تین کروڑ روپے کے ٹائر وغیرہ خرید رہی ہے۔ دوم: قومی اور پنجاب اسمبلی میں بہت سے اہم قوانین‘ مسلمہ دستور کے مطابق قانون سازی کے ذریعے نہیں بلکہ آرڈیننس کے ذریعہ نافذ کیے جا رہے ہیں۔ سوم: دہشت گردی بڑھ رہی ہے اور کوئی ہفتہ ایسا نہیں جاتا جب ہماری بہادر سکیورٹی فورسز کے اہلکار شہید نہ ہوتے ہوں۔ آپ کالم نگار کے آہنی عزم کو داد دیں کہ وہ مندرجہ بالا تین بیحد توجہ طلب موضوعات پر اظہارِ خیال کرنے کے بجائے کالم کے عنوان کے تحت دوسری قسط لکھنے کے ارادے پر بدستور قائم ہے۔ تاہم پنجابی محاورے کے مطابق نہ نہ کرتے ہوئے بھی مندرجہ بالا سطور کالم کی ایک چوتھائی جگہ لے گئی ہیں۔ آئیے! اب کالم کے نئے عنوان کی لاج رکھنے کا اہتمام کریں۔
(1): 1975ء میں اعلیٰ تعلیم کے ایک ادارے میں سماجی علوم پڑھانے لندن کے مضافات میں سلائو (Slough) جا کر میں اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ وہیں رہنے لگا۔ بھلا ہو میرے کالج کا‘ جس نے میری بیوی کو بھی وہاں علمِ معاشیات پڑھانے کے لیے جُز وقتی ملازمت دے دی۔ (اس جفاکش خاتون پر چھ بچوں کی پرورش اور ایک کاہل شوہر کی خدمت کا بھی بارِ گراں تھا) اس شہر سے صرف تین میل کے فاصلے پر دریا ٹیمز (Thames) بہتا ہے اور اس کے کنارے ونڈسر (Windsor) کا تاریخی شہر آباد ہے‘ جو لاکھوں سیاحوں کو ہر سال اپنا مہمان بناتا ہے۔ ونڈسر دو چیزوں کی وجہ سے مشہور ہے؛ صدیوں پرانی درسگاہ Eton College اور شاہی قلعہ نما محل‘ جو برطانیہ کے شاہی خاندان کی سرکاری نہیں بلکہ ذاتی رہائشگاہ ہے۔ میں ایک شام بیوی بچوں کو سیر کرانے ونڈسر گیا تو بینچ پر بیٹھ کر پانی پر بڑی شان و شوکت سے تیرنے والے راج ہنس (Swans)‘ جو شاہی ملکیت ہیں اور VIP درجہ رکھتے ہیں‘ کو دیکھ رہا تھا کہ ایک ساڑھی پوش خاتون میرے پاس آکر بیٹھ گئیں۔ انہوں نے بکمال مہربانی ہیلو کہا‘ اپنا تعارف کرایا اور مجھ سے میرے بارے میں سوالات پوچھنے لگیں۔ جب میں نے جواباً بتایا کہ میں 1967ء میں لاہور سے برطانیہ پڑھانے آیا تھا تو وہ تقریباً اچھل پڑیں۔ مسکراتے ہوئے انہوں نے میرا ہاتھ تھاما اور کہا: یہ تو کمال ہو گیا‘ میں لاہور کے ایک سابق باشندے سے مل رہی ہوں۔ میں نے پوچھا کہ آپ لاہور کا نام سن کر اتنی خوش کیوں ہوئیں؟ جواب ملا ''یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ سر گنگا رام کے نام اور کام سے واقف نہ ہوں۔ میں ان کی پڑپوتی ہوں اور ہر سال اتنی خاموشی سے لاہور جاتی ہوں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ گنگا رام ہسپتال کو اتنی کامیابی سے چلتے ہوئے دیکھ کر مجھے جو خوشی ملتی ہے وہ ناقابلِ بیان ہے‘‘۔ اتنی دیر میں میری بیوی مجھے ڈھونڈتے وہاں آ نکلیں تو میں نے ان کا اُس خاتون سے تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ میں تو سیالکوٹ کی تحصیل پسرور کا دیہاتی ہوں‘ لاہور اعلیٰ تعلیم کیلئے گیا تھا تو ڈگری کے ساتھ ساتھ بیوی بھی مل گئی مگر میری بیوی کا گھرانہ صدیوں سے لاہور کے اندرونِ شہر (لوہاری دروازہ) میں آباد ہے اور وہ جب پہلی بار ماں بنیں تو وہ گنگا رام ہسپتال میں داخل ہوئی تھیں۔ اُس خاتون نے پہلی ملاقات میں اپنا نام صرف شریلا بتایا۔
ان سے دوسری ملاقات کافی عرصہ بعد ہوئی۔ میں پڑوسی شہر (Maidenhead) ایک مقدمے میں اپنے موکل کی وکالت کرنے گیا تو عدالتی بینچ کے تین مجسٹریٹس میں سے ایک‘ جانی پہچانی خاتون شریلا بھی تھیں۔ انہوں نے نہ صرف میرے موکل کو بری کر دیا بلکہ مجھے اپنے چیمبر میں چائے پینے کی دعوت بھی دی۔ (یہ سب کمالات لاہور سے اپنا گہرا رشتہ بتانے کی وجہ سے تھے) اس دن مجھے تین نئی باتوں کا پتا چلا۔ پہلی تو یہ تھی کہ یہ خاتون برطانوی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا کی (بطور Baroness) رکن ہیں۔ ہائوس آف لارڈز کے اراکین کی اکثریت موروثی ہے مگر یہ خاتون عمر بھر کیلئے ایوان کی رکن بنائی گئیں۔ دوسری بات یہ تھی کہ ان کے ہندو باپ کا نام آفتاب رائے تھا اور تیسری یہ کہ وہ جز وقتی اور رضاکار مجسٹریٹ ہیں۔
برطانیہ میں اعزازی مجسٹریٹس کی تعداد 50 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ان کے بغیر برطانیہ کا نظامِ انصاف ایک دن بھی نہیں چل سکتا۔ یہ عدالت صرف چھوٹے فوجداری مقدمات سنتی ہے اور صرف جرمانہ کرنے اور چھ ماہ تک قید کی سزا دینے کی مجاز ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ ہمارے چیف جسٹس صاحب اور وزیر قانون مل کر جلد از جلد ایسی اصلاحات کریں جن سے Litigants کا وقت اور رقم‘ دونوں ضائع نہ ہوں۔ علاج کیا ہے؟ برطانوی طرز کے جیوری سسٹم کی طرح ہم ہر شہر کے ہر حصے میں عوامی جرگہ تشکیل دیں جو بے داغ شہرت کے مالک ریٹائرڈ اساتذہ‘ وکلا اور سرکاری افسروں پر مشتمل ہو۔ جرگہ کو ثالثی کا بھی اختیار ہو۔ لاکھوں کم سنگین دیوانی اور فوجداری مقدمات کو یہ جرگہ نمٹا سکتا ہے۔
شریلا کے نام کا دوسرا حصہ ہے Flather۔ یہ ان کے انگریز شوہر کا نام تھا۔ انہوں نے ساٹھ کی دہائی میں برطانیہ میں زندگی ایک سکول میں پڑھانے سے آغاز کی اور رضا کارانہ سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1990ء میں انہیں ہائوس آف لارڈز کا غیر موروثی رکن ہونے کا اعزاز ملا۔ وہ ایوانِ بالا کی نہ صرف پہلی ایشیائی رکن تھیں بلکہ پہلی ایشیائی خاتون بھی۔ میں اپنے پیارے اور آنجہانی دوست لارڈ Avebury کی دعوت پر اکثر ہائوس آف لارڈز جایا کرتا تھا۔ کئی بار وہاں اتفاقاً قیمتی اور نفیس ساڑھی میں ملبوس شریلاسے بھی ملاقات ہو جاتی اور گفتگو لاہور سے شروع ہو کر لاہور پر ختم ہو جاتی۔ شریلا نے ہائوس آف لارڈز کی کارروائیوں میں ہمیشہ بڑے جوش و خروش سے حصہ لیا۔ وہ اپنی پارٹی ہدایات سے کئی بار شدید اختلاف کا بے دھڑک اظہار کرتی تھیں۔ پچھلے سال دو بار ٹوری (Tory) پارٹی میں ان کی رکنیت معطل کی گئی مگر انہوں نے اس کی ذرہ بھر پروا نہ کی ۔ 6 فروری 2024ء کو ان کی وفات کے بعد ان کی 400 مہنگی ساڑھیوں کو فروخت کر کے ملنے والی رقم خیراتی اداروں کو دی گئی ہے۔ وہ اس بات پر بہت فخر کرتی تھیں کہ ان کے پڑدادا سر گنگارام کی راکھ گنگا کے بجائے دریائے راوی میں بہائی گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں