''پنجاب مانگے: آزادی۔ سندھ مانگے: آزادی۔ بلوچستان مانگے...‘‘۔
طلبا کی ہنگامہ آرائی کو دیکھتے ہوئے باسی کڑی میں بھی اُبال آیا۔ اشتراکی فکر کے علم بردار بھی میدان میں نکلے۔ ان کو موقع ملا کہ مشتعل نوجوانوں کے منہ میں اپنی بات ڈال دیں۔ نہ سیاق نہ سباق اور نعرے بلند ہونے لگے: ''پنجاب مانگے...‘‘۔ جس طرح طلبہ و طالبات ایک ایسے واقعے پر احتجاج کر رہے تھے جو ہوا ہی نہیں‘ اسی طرح ایک گروہ ایک ایسے فکری پس منظر میں کھڑا تھا جو موجود ہی نہیں۔
'اسلامی ریاست‘ کی طرح 'اشتراکی ریاست‘ بھی ایک رومان ہے۔ ہر رومان دلکش ہوتا ہے۔ انسان اگر جوانی میں بھی رومان پرور نہ ہو تو کب ہو گا۔ نوجوان اگر ایک ایسی ریاست کے بارے میں سوچتے ہیں جہاں سب کے حقوق مساوی ہوں‘ جہاں کسی سے ناانصافی نہ ہو‘ جہاں سرمایہ محنت کا استحصال نہ کرے تو یہ لائقِ تحسین ہے۔ اس پر خوش ہونا چاہیے۔ فطرت کا معاملہ مگر یہ ہے کہ یہ چند اٹل قوانین میں جکڑی ہوئی ہے۔ جیسے کچھ قوانینِ فطرت اس کائنات کی صورت گری کرتے ہیں اسی طرح کچھ قوانینِ فطرت ایسے ہیں جو سماج کی مصوری کرتے ہیں۔ ہم ان قوانین کو بدل نہیں سکتے۔ ہمیں بقا کیلئے ان کے ساتھ مطابقت پیدا کرنا پڑتی ہے۔
اشتراکیت ان قوانینِ فطرت سے متصادم ایک نظریہ اور طرزِ عمل تھا جس کی غلطی وقت نے ثابت کر دی۔ اس نظریے نے مگر تاریخ میں ایک مثبت کردار ادا کیا۔ اشتراکی حکومتوں کے جورو جفا سے صرفِ نظرکرتے ہوئے بطورِ فکر اشتراکیت نے سرمایہ داری کے ظلم کو نمایاں کیا۔ انسانوں میں اس کی شناعت واضح کی اور اس کو لگام ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی وجہ سے کارل مارکس جیسے لوگ انسانوں کے لیے ہمیشہ باعثِ احترام رہیں گے۔ بایں ہمہ یہ بھی واقعہ ہے کہ اشتراکیت مثبت طور پر کوئی متبادل نظام دنیا کو نہیں دے سکی۔سرمایہ داری نے اشتراکیت کے خوف سے اپنے بنیادی تصورات کے بر خلاف چند اصلاحات قبول کر لیں۔ اس اصلاح نے اسے ایک قابلِ عمل نظام بنا دیا۔ سرمایے نے ایک حد تک محنت کے وجود کو قبول کر لیا۔ سرمایہ داری نے جب شخصی آزادی اور جمہوریت کو بطور اساسی اصول اختیار کر لیا تو اس کے بعد اشتراکیت کا جواز باقی نہیں رہا۔ چونکہ دونوں نقطہ ہائے نظر نے مادی تصورِ حیات سے جنم لیا تھا‘ اس کے لیے یہ ایک طرح کے معاشرتی پس نظر میں برسرِپیکار رہ کر ایک امتزاج (Synthesis) میں بدل گئے۔ اب اگر کوئی کمی ہے تو انسانی زندگی کے غیر مادی پہلو کی آسودگی ہے۔ یہ کمی کسی مابعد الطبیعیاتی فکر ہی سے پوری ہو سکتی ہے۔ یہ صلاحیت مذہب میں ہے۔ اس لیے اشتراکیت وقت کے ساتھ غیرمتعلق ہو گئی اور مذہب زندہ رہا۔
قومی ریاست اور اس کے بعد ایک عالمگیر ریاست کے تصور نے سرمایہ داری کی کوکھ سے جنم لیا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کا انقلاب‘ مصنوعی ذہانت‘ ایک ورچوئل دنیا کا تصور‘ یہ سب ایک سرمایہ دارانہ نظام ہی کی عطا ہیں۔ اس لیے اب اس مادی دنیا کی جو صورت گری ہو گی‘ وہ بھی اسی نظام کے زیرِ اثر ہو گی۔ میرا احساس ہے کہ اس نظام میں مادی اعتبار سے مداخلت یا بہتری لانا ممکن نہیں۔ جو مداخلت ہو سکتی ہے وہ اخلاقی ہے۔ یہ مداخلت لازماً مابعد الطبیعیاتی ہو گی۔ مادیت سے انسان پسندی (Humanism) کے نام پر جس اخلاقی نظام کو برآمد کیا گیا اس میں یہ صلاحیت نہیں۔
اگر یہ مقدمہ درست ہے تو اس کا بدیہی نتیجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام سے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں ان کا حل کسی مادی فلسفے کے پاس نہیں ہو سکتا۔ یہ اسی صورت میں ہو سکتا تھا جب کوئی مادی نظامِ فکر اخلاقی ارتقا کا متبادل ماڈل بھی تجویز کرے جو زیادہ ترقی یافتہ ہو۔ اشتراکیت کوئی متبادل اخلاقی نظام پیش نہیں کر سکی۔ اس نظامِ فکر میں بھی مادے ہی کو مقتدرِاعلیٰ مانا گیا ہے۔ سکینڈینیوین ممالک میں جو نظام قائم ہوا اس کا بیج بھی سرمایہ داری کی زمین ہی پر بویا گیا۔
پاکستان جیسے معاشروں کے مسائل نظریاتی نہیں‘ یہ عملی اور اخلاقی ہیں۔ مجھے اس نظمِ ریاست میں کوئی خرابی دکھائی نہیں دیتی۔ اگر کہیں کوئی مسئلہ ہے تو وہ اخلاقی ہے۔ پنجاب یا کسی دوسرے صوبے کو آزادی نہیں چاہیے‘ سب کو امن چاہیے۔ سب ترقی کے منصفانہ مواقع چاہتے ہیں۔ قانون کی حکمرانی کے طلب گار ہیں۔ اس وقت ہمارے سیاسی نظام میں کوئی مسئلہ نہیں‘ ریاستی کرداروں میں ہے۔ تاہم ہمارے سماجی نظام میں بہت اصلاح کی ضرورت ہے۔ مختلف سماجی طبقات اور اداروں نے جو صورتحال پیدا کر دی ہے اس نے مسائل کو جنم دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں مذہب جیسی خیر کی قوت کے بارے میں سوال پیدا ہونے لگے ہیں۔
آج نوجوانوں میں زندگی کے بنیادی اور فطری حقائق کا شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں یہ سمجھایا جائے کہ اس کائنات میں کار فرما اصول و ضوابط سے ہم آہنگ ہوئے بغیر دنیا میں بقا مشکل ہے۔ دنیا کے تجربات جدید انسان کے سامنے ہیں۔ ان سے سیکھنا چاہیے۔ اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ نوجوانوں کو اس عمر میں تعلیم کے لیے خاص کر دیا جائے۔ ہمارے معاشرے میں یہ کام اس لیے آسان ہے کہ روایتی طور پر تعلیم کی ذمہ داری والدین اٹھاتے ہیں۔ گویا ایک طالب علم کا کام اسکے سوا کچھ نہیں کہ وہ صرف تعلیم پر دھیان دے۔ مغرب میں نوجوان کو یہ ذمہ داری خود اٹھانا پڑتی ہے اس کے باوجود اس کا اصل کام حصولِ علم ہے۔ وہ کسی انقلاب کا ہر اوّل دستہ نہیں بنتا اور نہ کسی تحریک یا سیاسی جماعت کا ہمہ وقت کارکن ہوتا ہے۔
نوجوانوں کے باب میں ریاست اور معاشرے کی دو ذمہ داریاں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ان کے لیے تعلیم کے مواقع پیدا کرے اور ان کی قدرتی صلاحیتوں کی آبیاری کے لیے مناسب ماحول فراہم کرے۔ اچھا شہری بنانا اس تعلیم کا ایک مقصد ہو۔ اس کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیمی نظام کی تشکیل ہونی چاہیے۔ اچھا شہری بننے کے لیے اخلاقی تعمیر ضروری ہے۔ یہ کام سماج کو کرنا ہے اور ریاست کو بھی۔ اخلاق مذہب کا بنیادی مسئلہ ہے۔ اس لیے اخلاقی تعمیر کے لیے مذہبی ماخذ سے بہتر ذریعہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ایک نوجوان کو مذہب کی وہ تعلیم دی جانی چاہیے جو اس کے اخلاق کی تعمیر کرے اور اسے اچھا شہری بنائے۔
انسان کو مادی اور اخلاقی ارتقا کے لیے ایک سازگار ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ماحول سماج فراہم کرتا ہے۔ ریاست کا کام یہ ہے کہ سماج میں کسی کو اتنا طاقتور نہ ہونے دے کہ وہ دوسرے شہریوں کی آزادی کو سلب کرے۔ ان کے بنیادی حقوق پامال کرے۔ ان کی جان ومال کے لیے خطرہ بن جائے۔ رہے نظریات تو ان کی آبیاری کی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے سٹڈی سرکلز بن سکتے ہیں۔ کتابیں لکھی اور پڑھائی جا سکتی ہیں۔ یہ کام تعلیمی اداروں میں بھی ہو سکتا ہے۔ یہ نوجوانوں پر ہے کہ وہ اپنے لیے کس نظریے کو بہتر سمجھتے ہیں۔ سماج اور ریاست کو بس اتنا کرنا ہے کہ اپنی اخلاقی روایات کو قائم رکھیں اور ان کے فروغ کے لیے مثبت اقدامات اٹھائیں۔
''پنجاب مانگے آزادی...‘‘ جیسے بے معنی نعرے نوجوانوں کے لیے فائدہ مند نہیں۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا اگر نوجوانوں میں ایسے سٹڈی سرکلز بنیں جن میں مارکس کو پڑھایا جائے۔ لیکن مارکس ازم یا کسی اور ازم کے نام پر نوجوانوں میں ہیجان پیدا کر کے انہیں 'پنجاب مانگے آزادی‘ جیسے نعروں کے پیچھے لگا دینا نوجوانوں کے ساتھ انصاف نہیں۔ پنجاب کیا چاہتا ہے یا بلوچستان کا مطالبہ کیا ہے‘ ان سوالات کو مخاطب بنانا سیاسی جماعتوں کا کام ہے۔ یوں بھی نظریاتی سیاست کا دور اب گزر چکا۔ اب مسئلہ طرزِ حکمرانی یا گورننس کا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ اس کو کیسے بہتر بنایا جائے۔ نظریات کی باسی کڑی میں اب اُبال نہیں آنے والا۔