جدیدیت اور ٹیکنالوجی میں کیا تعلق ہے؟
جدیدیت ایک تصورِ حیات ہے اور ایک طرزِ حیات بھی۔ ٹیکنالوجی اس کا ایک مظہر ہے۔ ان میں وہی تعلق ہے جو ماں اور بچے میں ہے۔ علم کی دنیا میں یہ کوئی نیا موضوع نہیں۔ 19ویں صدی سے اہلِ علم اس پر کلام کر رہے ہیں۔ اب دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جدیدیت نے سوچنے کا ایک زاویہ دیا۔ اس نے ٹیکنالوجی کو جنم دیا۔ اولاد جوان ہوئی تو اس میں ماں بننے کی صلاحیت پیدا ہو گئی۔ اس ماں کی کوکھ سے ایک طرزِ حیات وجود میں آیا۔ آج اس پیچیدہ مسئلے کو ایک سادہ کہانی کی طرح سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جدیدیت نے اُس وقت ایک فلسفۂ حیات کی صورت اختیار کی جب انسان نے یہ مان لیا کہ وہ اصلاً ایک عقلی وجود ہے۔ انسان جدیدیت سے پہلے بھی عاقل تھا مگر اس کی عقل مختلف قوتوں کی گرفت میں تھی۔ ان میں سے ایک قوت توہم پرستی تھی جسے یورپ میں کلیسا نے مذہب کے نام پر پیش کیا۔ جب انسان کسی معاملے کو سلجھانے کے لیے عقل کو آواز دیتا‘ اہلِ مذہب سامنے آ کھڑے ہوتے۔ یوں وہ اپنی زندگی کے اندھیروں کو عقل کی روشنی سے دور نہ کر سکتا۔ کچھ لوگوں نے ہمت کی اور انسان اور عقل کے راستے میں حائل ان دیواروں کو گرانے کی سعی کی۔ انہوں نے اس کی ایک قیمت ادا کی مگر وہ کامیاب رہے۔
اس کامیابی کا یہ نتیجہ نکلا کہ انسان نے درپیش سماجی‘ معاشی اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے عقل کو حاکم مان لیا۔ یہ جدیدیت کا نقطۂ آغاز تھا۔ عقل کے دربار سے جو احکام صادر ہوئے‘ انسان انہیں قبول کرتا چلا گیا۔ عقل کے دو بڑے ماخذ تھے: مشاہدہ اور تجربہ۔ ہم اس سوال سے دانستہ صرفِ نظر کرتے ہیں کہ عقل کی مطلق حاکمیت درست ہے یا غلط۔ یہاں صرف یہ جاننا کفایت کرتا ہے کہ انسان نے عقل کی حکمرانی کو قبول کر لیا۔ اب اگر مذہب یا کسی دوسری قوت کو زندہ رہنا تھا تو اس کے لیے لازم تھا کہ عقل کی محکومی کو اختیار کر لے۔ بصورتِ دیگر اسے سماج سے دیس نکالا مل جاتا۔
عقل کی حاکمیت کا سب سے اہم نتیجہ مظاہرِ کائنات کی خدائی کا انکار تھا۔ سادہ الفاظ میں شرک سے نجات۔ انسان نے یہ ماننے سے انکار کیا کہ امراض کا سبب کسی دیوتا کی ناراضی ہے۔ اس نے سورج اور چاند کو خدا تسلیم نہیں کیا۔ وہ مظاہرِ کائنات کو مسخر کرنے پر لگ گیا۔ یہ راہ اسے عقل نے سُجھائی۔ عقل نے صرف کائنات کے باب میں انسانی فکر کو نہیں بدلا‘ انسان کے بارے میں موجود تصورات کو بھی بدل ڈالا۔ تصورِ انسان بدلا تو معاشرے کے خدوخال بھی بدلنے لگے۔ رہن سہن کے ڈھنگ تبدیل ہونے لگے۔ اب ذرائع پیداوار بھی بدل گئے۔ انسان زرعی معاشرے سے صنعتی معاشرے میں داخل ہو گیا۔ ذرائعِ پیداوار کی تبدیلی کا مطلب ٹیکنالوجی کا بدلنا تھا۔ نئی ٹیکنالوجی نے اس کی معاشرت پر اثر ڈالا۔ اس نے انسان کو مجبور کر دیا کہ وہ طرزِ حیات کو بدل ڈالے۔ یہ کیسے ہوا؟
زرعی معاشرے میں انسان کے زندگی کا انحصار کھیتی باڑی پر تھا۔ اس کا اسلوبِ حیات قبائلی تھا۔ اُس دور میں جسمانی قوت ذرائعِ پیداوار میں سب سے اہم تھی اور حفاظت کے پہلو سے بھی۔ جس سماج کے پاس زیادہ توانا بازو ہوتے‘ وہ بقا کی جنگ میں سرخرو رہتا۔ مرد عورت کی نسبت جسمانی اعتبار سے زیادہ توانا رہا ہے۔ اس لیے اولادِ نرینہ کو اہمیت دی جاتی اور مرد کو عورت سے زیادہ اہم سمجھا جاتا۔ اب زیادہ افراد زیادہ قوت کی علامت تھے۔ اسی نے مشترکہ خاندانی نظام کو مضبوط بنایا۔
انسان نے عقل کی بات مانی اور ذرائعِ پیداوار کو بہتر بنانے کے بارے میں سوچا۔ اس نے سٹیم انجن ایجاد کر لیا۔ اس طرح وہ زرعی عہد سے نکلا اور 'صنعتی دور‘ میں داخل ہو گیا۔ ٹیکنالوجی نے اس کے اسلوبِ حیات کو بدل ڈالا۔ دیہات کی جگہ شہر نے لے لی۔ یہ اس بڑی تبدیلی کا ناگزیر نتیجہ تھا۔ انسان نے اتنی بڑی جست عقل کی راہ نمائی میں لگائی۔ اس کا بدیہی نتیجہ یہ نکلا کہ جسم پر دماغ کی برتری کو تسلیم کر لیا گیا۔ اس دوران انسان پر یہ منکشف ہوا کہ عورت اگر جسمانی طور پر مرد سے کمزور تھی تو دماغی اعتبار سے اس کے برابر ہے۔ صنعتی دور میں وہ بھی ترقی کے سفر میں مرد ہی کی طرح مفید کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس سے عورت کی سماجی حیثیت تبدیل ہونے لگی۔ یہ حیثیت تبدیل ہوئی تو اولادِ نرینہ کی خواہش بھی مدہم پڑ گئی۔ شہری زندگی نے انسان کے طرزِ فکر اور طرزِ حیات کو یکسر تبدیل کر دیا۔
عقل کے یہ کمالات اسی دائرے میں سامنے نہیں آئے۔ انسان نے عقل کی مدد سے اپنے دیگر سیاسی‘ معاشی اور سماجی مسائل بھی حل کرنا شروع کیے۔ پرانے سماجی‘ سیاسی اور معاشی اداروں کی جگہ نئے ادارے وجود میں آنے لگے۔ دنیا بادشاہت سے جمہوریت کے دور میں داخل ہوئی۔ علم جو کبھی اکائی تھا‘ اب تخصص کی طرف بڑھنے لگا اور کئی علوم میں منقسم ہو گیا۔ کائنات کے سربستہ راز کھلے تو اس کے بارے میں نئے تصورات پیدا ہوئے۔ اس کی تسخیر کی خواہش کو لگام ڈالنا مشکل ہو گیا۔ ٹیکنالوجی نے ایک نہیں‘ کئی عجائب خانے قائم کر دیے۔ انسان ہواؤں میں اڑنے گا اور سمندر کی تہوں میں جھانکے لگا۔ ٹیکنالوجی اب سماج کی صورت گری کرنے لگی۔ خاتون اب مرد کے شانہ بشانہ کھڑی تھی۔
جس طرح انسان ہمیشہ سے ایک عقلی وجود تھا‘ اسی طرح وہ ایک جمالیاتی وجود بھی تھا۔ اس کا ایک اخلاقی وجود بھی تھا۔ عقل کی حاکمیت میں جب اس نے جمالیاتی ذوق کی تسکین تلاش کی تو فنونِ لطیفہ نے رنگ بدلا۔ ٹیکنالوجی نے اپنے جوہر دکھائے۔ مصوری سے لے کر موسیقی تک‘ ہر فن کے آلات بدل گئے۔ خطاطی جو کبھی انسانی ہاتھ کا کمال تھا‘ اب کمپیوٹر کی مدد سے ہونے لگی۔ جسمانی عوارض کا علاج اب ٹیکنالوجی کی مدد سے ہوتا ہے۔
اس سفر میں جدیدیت اور ٹیکنالوجی ہم قدم ہیں۔ انسان کی اس کامیابی میں مردکا حصہ ہے اور عورت کا بھی۔ کوئی شعبۂ زندگی ایسا نہیں جس میں عورت مرد سے پیچھے ہو۔ خواتین ہر سماج کا کم و بیش 50 فیصد ہیں۔ یہ بات عقلِ عام کی گرفت میں آنے والی نہیں کہ 50 فیصد آبادی کو نظامِ حیات سے دور رکھ کر ترقی کا یہ سفر جاری رکھا جا سکتا ہے۔ عورت نہیں پڑھے گی تو سماج کا ہر کام مرد پر منحصر ہو گا۔ جب صرف مرد طبیب ہوں گے تو عورت کا علاج بھی مرد کریں گے۔ محرم نامحرم کے تصورات تبدیل ہوں گے۔ بصورت دیگر عورتوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا۔ اس سے سماج میں صنفی توازن ختم ہو جائے گا۔ ایسا معاشرہ قانونِ قدرت کے تحت باقی نہیں رہ سکتا۔ اگر عورتیں طبیب بنیں گی تو انہیں پڑھنا ہو گا۔ انہیں گھر سے نکلنا ہو گا۔ پھر پردے کے تصورات کو بدلنا پڑے گا۔
جو معاشرہ تہذیب کے سفر میں انسانی قافلے کا ہم رکاب ہونا چاہتا ہے‘ اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اب تک کی پیش رفت کو قبول کرتے ہوئے اس کا ہم سفر بنے۔ وہ اپنی شرائط پر اس قافلے کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ اسے مادی ترقی کے لیے مقلد بن کر ہی چلنا ہو گا۔ اس سفر میں جدیدیت اور ٹیکنالوجی ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا‘ تاہم انسان کے اس تہذیبی سفر میں ایک خلا ہے۔ یہ روحانی اور اخلاقی ہے۔ اگر کسی کے پاس اس کا کوئی علاج ہے تو وہ اس سفر کو زیادہ خوشگوار بنا سکتا ہے مگر اس قافلے کا راستہ نہیں بدل سکتا۔
اگر کسی کو یہ سب قبول نہیں تو پھر وہ اس قافلے سے الگ اپنا سفر جاری رکھ سکتا ہے۔ اسے پھر مختلف تجربہ کرنا ہو گا۔ یہ لازم نہیں کہ اس قافلے کو منزل نہ ملے۔ دونوں قافلوں کی منزل مگر ایک نہیں ہو گی۔