'انسان اپنی زبان کے پیچھے چھپا ہوا ہے‘۔
کیا پُرحکمت جملہ ہے جو سیدنا علیؓ نے ارشاد فرمایا۔ یہ بھی آپؓ کا فرمان ہے کہ: 'کلام کرو تاکہ پہچانے جاؤ‘۔ واقعہ یہ ہے کہ ان جملوں نے انسان کا نقشہ کھینچ دیا ہے۔ ہم نے ایسے لوگ دیکھ رکھے ہیں کہ بولتے ہیں تو منہ سے پھول جھڑتے ہیں۔ ہوائیں رک رک کر سنتی ہیں اور حکیم دامن بچھا کے بیٹھ جاتے ہیں کہ زبان سے تراشے حکمت کے موتی سمیٹ لیں۔ کچھ وہ بھی ہیں کہ بولنے پہ آتے ہیں تو لوگ اپنی ناک پہ ہاتھ رکھ لیتے ہیں۔ ان کے الفاظ کو نہر فرات میں ڈالا جائے تو اسے زہر آلود کر دیں۔ لوگ ان سے دور رہتے ہیں کہ کہیں مڈبھیڑ نہ ہو اور ان پر چھینٹے نہ پڑیں۔
انسان کا اصل امتحان اس وقت ہوتا ہے جب وہ جذبات کی گرفت میں ہو۔ غصہ‘ صدمہ‘ دکھ‘ ان کی شدت ہوش وحواس سے بیگانہ کر دیتی ہے۔ یہی وہ کیفیات ہیں‘ جب حقیقی انسان نمودار ہوتا ہے۔ جب ملمع کاری کام نہیں آتی۔ جب چہروں سے نقاب سرکتے ہیں اور ہم اصل صورتیں دیکھتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کا کہنا ہے:
ندیم جو بھی ملاقات تھی ادھوری تھی
کہ ایک چہرے کے پیچھے ہزار چہرے تھے
ہم ایک مصنوعی زندگی گزارتے ہیں۔ یہ عہد تو بطورِ خاص پبلک ریلیشننگ کا دور ہے۔ اسے اب باقاعدہ ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ لوگ مصنوعی شخصیت کے ساتھ جیتے ہیں۔ ایک مجلسی تبسم جو چہرے پر نقاب کی طرح اوڑھ لیتے ہیں۔ پبلک ریلیشننگ‘ کاروبار کے علم کی ایک شاخ ہے۔ گویا تعلقات کو ہم مفاد کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اسی سے سماجی ماحول تشکیل پاتا ہے۔ ہماری مسکراہٹیں اور وقت ان کے لیے ہے جن سے ہمارا کوئی مفاد وابستہ ہے۔ نفع نقصان سے ہٹ کر ہمارے پاس تعلقات کی کوئی اساس نہیں۔
ہمیں یہ کیسے معلوم ہو گا کہ یہ مسکراتا چہرہ حقیقی نہیں ہے۔ خوش اخلاقی کے جو مظاہر میں دیکھ رہا ہوں‘ یہ محض کردار نگاری ہے۔ حکیم اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ انسان حقیقی صورت کے ساتھ اس وقت نمودار ہوتا ہے جب وہ غصے میں ہو۔ جب وہ ناراض ہو۔ اس وقت اس کا جو روپ ہمارے سامنے آتا ہے‘ وہی اصل روپ ہے۔ وہ کتنا خوش اخلاق ہے؟ وہ دوسروں کا کتنا لحاظ رکھتا ہے؟ وہ اپنی ذات سے بلند ہونے کی کتنی قوت رکھتا ہے؟ ان سب سوالات کے جواب ہمیں اس وقت ملتے ہیں جب ایک آدمی غصے میں ہوتا ہے۔ اسی سے ایک انسان کے اصل اخلاق کا پتا چلتا ہے۔
تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس اخلاق کا سب سے اعلیٰ نمونہ اللہ کے پیغمبروں نے پیش کیا۔ اس کے بعد ان کے سچے پیروکاروں نے۔ پیغمبروں کا ظرف اور حوصلہ تو کسی کے نصیب میں نہیں لیکن جنہوں نے ان کے ساتھ تعلق سے فیض اٹھایا اور انہیں نمونہ بنایا‘ ان کا حال بھی یہ ہے کہ فرشتے ان کے حوصلے پر رشک کریں۔ آسمان کی آنکھ نے ایسے لوگ زمین پر کبھی نہیں دیکھے۔
عہدِ رسالت سے قریب تر دور میں اس طرح کے لوگوں کی تعداد زیادہ تھی۔ وقت کے ساتھ کمی آتی گئی۔ پھر عنقا ہو گئی۔ ہماری تاریخ میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی بھی ایسی ہی ایک شخصیت تھے۔ کیا کیا الزام اُن پر نہیں دھرا گیا۔ بس ایک ہی بات کہی۔ 'جو میرے بارے میں کہا جا رہا ہے‘ جب میں ایسے دعوؤں سے محفوظ خدا کے حضور میں پہنچوں گا تو پھر میں دیکھوں گا کہ ان کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کو کیا ہے‘۔ لوگوں نے ان پر الزام لگائے مگر انہوں نے کسی پر الزام نہیں لگایا۔
میں نے یہی بات استاذِ گرامی جاوید احمد غامدی صاحب میں دیکھی۔ ایسے ایسے الزام اور وہ بھی اسلام پسندوں کی طرف سے کہ انسان حیرت میں ڈوب جائے۔ ایک مثال دیکھیے۔ سوچا تو معلوم نہیں کب مگر ان کا تصورِ خانقاہ 1983ء میں شائع شدہ صورت میں سامنے آ چکا تھا۔ معترضین نے اسے ان کے امریکہ میں قیام کے ساتھ وابستہ کر دیا جو چند سال پہلے کا واقعہ ہے۔ خدا کا خوف‘ آخرت میں جواب دہی کا احساس‘ کوئی قدر ان کے راستے میں حائل نہیں ہوئی۔ جاوید صاحب نے مگر جواباً کسی پر کوئی الزام نہیں دھرا۔
ان دنوں قومی سطح پر ایک خط کا بہت چرچا ہے۔ ریاست کے ایک اعلیٰ ترین منصب کے امیدوار اپنا غصہ دو دن نہ چھپا سکے۔ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے ایسے الفاظ کا انتخاب کیا کہ خود اُن کے اخلاقی وجود کے بارے میں سوالات اٹھائے جانے لگے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو آدمی لوگوں کو انصاف دینے کے لیے بیٹھا‘ لازم ہے کہ وہ جذبات سے مغلوب نہ ہو۔ وہ اپنی ذات سے ماورا معاملات کو دیکھنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ ممکن ہے اس کی حق تلفی ہوئی ہو۔ یہی تو وہ وقت ہوتا ہے جب انسان کو اپنا وقار دکھانا ہوتا ہے۔ اسی وقت اپنی زبان کی حفاظت کرنا ہوتی ہے۔
سیاست‘ ادب‘ مذہب‘ یہ سب وہ میدان ہیں جہاں قیادت کے منصب پر بیٹھے لوگ سماج کی صورت گری کرتے ہیں۔ یہ ایک اقلیت ہے‘ اکثریت جس کی تقلید کرتی ہے۔ انہیں وعظ سے نہیں اپنے طرزِ عمل سے یہ بتانا ہے کہ بڑے مناصب پر فائز لوگوں کے ظرف بھی بڑے ہوتے ہیں۔ وہ عام لوگوں کی طرح نہیں ہوتے۔ وہ غصہ پی سکتے ہیں اور وہ شدید اختلاف میں بھی توازن اور تواضع کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ جب وہ قومی سطح پر کوئی کردار ادا کرتے ہیں تو قومی مفاد ان کی پہلی ترجیح بن جاتا ہے۔
ہم اس وقت طاقت کے مراکز میں جو کشمکش دیکھ رہے ہیں‘ اس کی وجہ اخلاق کا زوال ہے۔ جتنا بڑا منصب ہے‘ اخلاق کا اتنا بڑا نمونہ ہمارے سامنے نہیں ہے۔ وعظ ہے‘ کردار جس کی تائید نہیں کرتا۔ لوگ اختلاف کے مفہوم سے واقف نہیں ہیں۔ اعلیٰ ترین سطح پر گروہ بندی ہوتی ہے۔ نصیحت کی جاتی ہے کہ سارے سیاستدان مل کیوں نہیں جاتے۔ اپنا حال یہ ہے کہ ایک ساتھی کو خوش اسلوبی سے الوداع بھی نہیں کہہ سکتے۔
یہ مسائل آئینی ترامیم سے حل ہونے والے نہیں۔ اس کے لیے ایک بڑی اخلاقی تبدیلی کی ضرورت ہے۔جس کی طرف ہمارا دھیان نہیں۔ قیادت کی سطح پر نرگسیت کا راج ہے۔ لوگ اَنا کے پنجروں میں بند ہیں۔ اس کا المنا ک پہلو یہ ہے کہ بڑوں کے سامنے جھکتے اور چھوٹے کو اپنے سامنے جھکاتے ہیں۔ یہ اخلاق کی پست ترین سطح ہے۔ یہی اب کلچر ہے جس میں ہم سب جی رہے ہیں۔کیا ہم اس کلچرکو بدل سکتے ہیں؟ بڑے لوگ کیسے پیدا ہوں؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ بڑے لوگ بھی فطری طریقے ہی سے پیدا ہوتے ہیں‘ فرق صرف یہ ہے کہ وہ مختلف ماحول میں پروان چڑھتے ہیں۔ ان کی تربیت مختلف ہوتی ہے۔ انہیں بچپن ہی میں ایسی باتیں سکھائی جاتی ہیں جو تاعمر اُن کے ساتھ رہتی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارا معاشرہ اس حوالے سے بانجھ نہیں ہوا۔ اب بھی ایسے گھرانے موجود ہیں جہاں بچپن ہی سے اخلاقیات کا درس دیا جاتا ہے۔ ہمیں ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والے تلاش کرنے اور پھر ان کے ساتھ چلنا چاہیے۔
اسی کلچر میں جسٹس اے آر کیانی جیسے لوگ جج بنے ہیں۔ ایوب خان کی آمریت کے خلاف انہوں نے آواز اٹھائی۔ اس نظام سے اظہارِ ناراضی کیا لیکن کس اسلوب میں؟ اس کو کوئی جاننا چاہے تو ان کی کتاب 'افکارِ پریشاں‘ کا مطالعہ کرے۔ ہم اخلاقی طور پر ڈھلوان کے کس سفر پر ہیں‘ اگر کوئی اس کو سمجھنا چاہے تو اسے جسٹس ایم آر کیانی کی تقاریر اور دورِ حاضر میں کی گئی تقایر کا موازنہ کرنا چاہیے۔ سیدنا علیؓ نے سچ فرمایا: 'انسان اپنی زبان کے پیچھے چھپا ہوا ہے‘۔