کیا پی ٹی آئی 24 نومبر کی لشکر کشی اور شرمناک ہزیمت کے بعد‘ زمینی حقائق سے متصادم جارحانہ‘ غیر دانش مندانہ اور طفلانِ خود معاملہ جیسی بے سروپا حکمتِ عملی کی رسوا کن بے ثمری پر غور کرے گی؟ کیا وہ خود کو کسی فریبِ مسلسل میں مبتلا رکھنے اور اپنے پیروکاروں کو دشتِ بے اماں کے سرابوں کا رزق بنا دینے کے بجائے ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچے گی کہ اُس نے کہاں کیا ٹھوکر کھائی اور کس بے ہنری کے سبب غالب کے اس شعر کی تصویر بنی جاتی ہے:
ہر قدم دوریٔ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے
شاید ہی پی ٹی آئی کے اسلوبِ سیاست پر نظر رکھنے والا کوئی مبصر ان سوالوں کے جواب 'ہاں‘ میں دے سکتا اور یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ بہت ہو چکی‘ پی ٹی آئی خوئے تصادم وپیکار کی بہت بھاری قیمت بھی ادا کر چکی‘ 26 نومبر کی پسپائی اور جگ ہنسائی کے بعد وہ اپنی بار دوش سیاست کی آتش مزاجی پر غور کر کے اپنی سیاست کو مکمل طور پر زمینی حقائق‘ جمہوری اقدار اور سیاسی روایات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی سنجیدہ کوشش کرے گی؟ ہر ایک کو جزو ایمان جیسا کامل یقین ہے کہ پی ٹی آئی 14 اگست 2014 ء کو شروع ہونے والے 126دنوں کے طویل دھرنوں کی تاریخ دہراتی رہے گی اور اپنی سپاہ کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کر کے ریاست کی اُن قوتوں سے ٹکراتی رہے گی جو اس کی مہم جوئی کے سامنے دفاعی دیوار بننے کی کوشش کریں گی۔ ہماری تاریخ میں شاہراہِ دستور پر اتنے طویل دھرنے کی یہ پہلی مثال تھی۔ اس دوران پہلی بار ''سیاسی جماعت‘‘ کہلانے والے کسی گروہ نے پی ٹی وی پر قبضہ کیا۔ توڑ پھوڑ کی اور قومی ادارے کی نشریات بند کر دیں۔ پہلی بار عمران خان نے مسلح افواج کو کھلے بندوں اپنی مدد کیلئے پکارا اور امپائر کی انگلی اٹھنے کے وجد آفریں تصور سے اپنے فدائین کے دل گرماتے رہے۔ پہلی بار کسی سیاسی لیڈر نے سول نافرمانی کی تلقین کی‘ سرعام بجلی کے بل جلائے‘ حکم جاری کیا کہ سمندر پار پاکستانی‘ بینکوں کے بجائے ہنڈی کے ذریعے اپنی رقوم اپنے ہم وطنوں کو بھیجیں تاکہ پاکستان پر معاشی ضرب لگے۔ کیونکہ اُس وقت کا پاکستان نواز شریف کا تھا جس سے خان صاحب کا کوئی رشتہ وتعلق نہ تھا۔ اس دھرنے کے دوران پارلیمنٹ ہائوس سنگ زنی کا نشانہ بنتا رہا۔ بپھرے ہوئے جتھے وزیراعظم ہائوس کے اندر تک جا گھسے۔ طاقت کے تمام مراکز اس سرکشی کی پشت پر کھڑے تھے۔ مرغن کھانوں کی دیگوں کی سپلائی ٹوٹنے نہیں پا رہی تھی اور دھن‘ ساون بھادوں کی طرح برس رہا تھا۔ یہی دن تھے جب ایک شب خان صاحب کے بڑے پشتیبان‘ جنرل (ر) ظہیر الاسلام نے وزیراعظم نواز شریف کو پیغام بھیجا کہ ''سلامتی چاہتے ہو تو استعفیٰ دے کر گھر چلے جائو‘‘۔ اُس شب خان صاحب کنٹینر سے اتر کر کسی گوشۂ خاص میں جشن طرب منا رہے تھے کہ خبر آئی نواز شریف نہیں مانا۔ اُس نے کہا ہے ''میں نہ اس طرح کی دھمکیوں سے ڈرتا ہوں نہ استعفیٰ دیتا ہوں۔ تم نے جو کرنا ہے کر لو‘‘۔
پی ٹی آئی کے دھرنے کا دفتر لپیٹنے کیلئے آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوم بچوں کے لہو کا جواز مل گیا لیکن اُس کی زہر ناکی‘ پاناما کے بعد پھر پھن پھیلا کر کھڑی ہو گئی۔ ججوں اور جرنیلوں کے گٹھ جوڑ نے نواز شریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے گناہِ کبیرہ پر نہ صرف گھر بھیج دیا بلکہ عمر بھر کیلئے سیاست بدر کر دیا۔ خان صاحب 2018ء کے دھاندلی زدہ الیکشن کے ذریعے اقتدار میں آئے جس کے بارے میں جنرل باجوہ نے‘ مولانا فضل الرحمن کو بتایا تھا ''جی ہاں! ہم اُسے جتانا چاہتے تھے لیکن مسالا کچھ زیادہ لگ گیا‘‘۔ عمران خان نے شرق وغرب کی ہوائوں کی لوریوں کے باوجود پونے چار سال کی حکومت کے دوران میں پاکستان کو ہمہ پہلو زوال وانحطاط کے گہرے گڑھے میں جھونک دیا جس سے نکلنے کیلئے جانے کب تک پاکستان کو جتن کرنا پڑیں گے۔
اپریل 2022ء کے بعد خان صاحب کی قیادت وسیادت میں پی ٹی آئی نے نئے سفر کا آغاز ایک سائفر سے کیا۔ یہ سائفر امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری سٹیٹ ڈونلڈ لُو اور ہمارے سفیر کے درمیان گفتگو کا خلاصہ تھا۔ عمران خان نے اپنے نو رتنوں سے مل کر سائفر سے کھیلنے کا منصوبہ بنایا۔ امریکہ کے ساتھ مسلح افواج کی قیادت کو بھی گھسیٹ لیا۔ اُنہیں میر جعفر اور میر صادق قرار دیا‘ کچھ حاصل نہ ہوا۔ پھر جنرل عاصم منیر کا راستہ روکنے کیلئے مہم چلائی اور لانگ مارچ کرتے ہوئے راولپنڈی آ بیٹھے۔ یہ مہم بھی ناکام رہی۔ عاصم منیر چیف آف آرمی سٹاف بن گئے تو ان کی راہ میں مشکلات پیدا کرنے کیلئے بھی کوئی نہ کوئی سرکس لگاتے رہے۔ سب اکارت گئے۔ پھر فوج کے اندر بغاوت پیدا کرنے کے لیے 9 مئی کی سازش کی۔ اڑھائی سو کے لگ بھگ دفاعی تنصیبات پر حملے اور شہدا کے مزار جلانے کے بعد‘ اس معرکہ آرائی کو پہلے اپنے سر کی کلغی بنا کر بولے ''جب مجھے رینجرز پکڑیں گے تو میرے کارکن کہاں حملے کریں گے؟‘‘ پھر مکر گئے اور اس لایعنی دلیل تک آن پہنچے کہ یہ تو فوج کا اپنا 'فالس فلیگ آپریشن‘ تھا جو ہمارے سر تھوپ دیا گیا۔ جیل میں گئے تو فتنہ ساماں جلسے جلوسوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ 24 نومبرکو خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے یہ اسلام آباد پر تیسرا حملہ تھا جسے 'فائنل کال‘ کا نام دیا گیا۔ بشریٰ بی بی نے حکم جاری کیا تھا کہ پی ٹی آئی کا ہر ایم این اے دس ہزار افراد لے کے آئے اور صوبائی اسمبلی کا ہر رُکن پانچ ہزار۔ اسلام آباد میں بیٹھنے والا ہجوم پندرہ سے بیس ہزار بتایا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے اپنے حلقے اسے تیس ہزار بتاتے ہیں۔ اگر 30 ہزار بھی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف تین ایم این اے یہ نفری لے کے آئے تھے۔
یہ تو طے ہے کہ پی ٹی آئی‘ پہلے کی بے ثمر معرکہ آرائیوں کی طرح‘ اس شرمناک ہزیمت سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھے گی۔ وہ سیاسی پارٹی نہیں‘ ایک 'فرقہ‘ ہے اور اس کے سربراہ کو 'دیوتا‘ یا 'اوتار‘ کا درجہ حاصل ہے۔ اس طرح کے 'فرقوں‘ اور 'اوتاروں‘ کے انجام کا آخری سکرپٹ تاریخ خود لکھتی ہے اور خود ہی عملی جامہ پہناتی ہے۔ گئے زمانوں میں 'ہٹلر‘ نام کا ایک اوتار ہوا کرتا تھا۔ بارہ برس کی حکمرانی‘ سطحی جذباتیت اور نسلی عصبیت کی آگ بھڑکاتے ہوئے وہ دنیا سے ٹکرا گیا۔ نتیجہ جرمنی کی شکست اور تاخت وتاراج کی شکل میں نکلا تو اُس نے زیر زمین مورچے میں اپنی محبوبہ کے ساتھ خودکشی کر لی۔ جھوٹ‘ فریب اور غلط بیانی کا علامتی کردار بن جانے والے گوئبلز کو ہٹلر نے اپنا جانشین نامزد کر دیا۔ گوئبلز صرف ایک دن جرمنی کا چانسلر رہا۔ ہٹلر کی خود کشی کے اگلے دن‘ اُس نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کرپانچ بیٹیوں اور ایک بیٹے کو زہر دیا اور پھر میاں بیوی دونوں نے خودکشی کر لی۔
ہٹلر کے پاس شاید اپنے فن میں طاق ایک ہی گوئبلز تھا لیکن پی ٹی آئی کو جدید ٹیکنالوجی پر گرفت رکھنے‘ جھوٹ تراشنے اور دروغ گوئی کے ہنر میں ماہر ہزاروں لاکھوں 'گوئبلز‘ کی خدمات حاصل ہیں جو صرف پاکستان ہی نہیں‘ دنیا کے ہر ملک میں اپنا معجزۂ فن دکھا رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک 'دیدہ ور‘ نے بتایا کہ 26نومبر کو پی ٹی آئی کی 278لاشیں گریں۔ مزید فرمایا کہ ''یہ ہماری تاریخ بلکہ دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا قتلِ عام تھا جس نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی مظالم اور فلسطین میں اسرائیل کی خون ریزی کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے‘‘۔ یوں لگتا ہے دنیا بھر میں بھٹکنے کے بعد گوئبلز کی بے چین روح کو پاکستان میں آسودگی بخش گوشۂ عافیت مل گیا ہے۔