حسد‘ رشک اور بنکاک

رشک اور حسد میں فرق ہے مگر بہت نازک فرق! یوں سمجھیے رشک حسد کی مثبت شکل ہے‘ اور حسد رشک کی منفی‘ بے حد منفی صورت! حسد میں انسان آگ میں جلتا ہے! اپنی آگ میں! رشک میں کسی کی ترقی دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے! پروردگار کا شکر ہے جس نے حسد سے بچائے رکھا۔ اس لیے کہ یہ سبق اچھی طرح پڑھا دیا گیا تھا کہ جو دیتا ہے‘ خدا دیتا ہے اور اس نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے! جہاں تک رشک کا تعلق ہے‘ ذاتی حوالے سے ایک زمانے میں اُن افراد پر رشک آتا تھا جو بظاہر زیادہ کامیاب نظر آتے تھے مگر ایک دو بار ایسے سبق ملے کہ اب کسی پر رشک نہیں آتا۔ سکول میں اکمل ہم جماعت تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں سرکاری ملازمت میں آیا تو وہ نجی شعبے میں گیا۔ ادھر میں سرکاری ملازمت میں سینئر ہوتا گیا اُدھر وہ اپنے ادارے میں ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا۔ ریٹائرمنٹ سے بہت پہلے اس نے لاہور میں اس وقت بہت اچھا گھر بنا لیا جب میں گھر بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور بظاہر اس کا امکان بھی نہیں تھا۔ پھر اس کی کمپنی نے اسے باہر بھیج دیا۔ کئی سال سنگاپور رہا۔ پھر یورپ! اس پر رشک آیا کہ ہم سرکاری ملازمت کے دوران خواہش کے باوصف ایک بھی پوسٹنگ بیرونِ ملک نہ لے سکے‘ اس لیے کہ یہ سو فیصد سفارش کا معاملہ تھا اور سفارش اس پائے کی تھی نہیں! اور ہمارا یہ دوست مدتوں باہر کی پوسٹنگ کے مزے لیتا رہا۔ رشک کی یہ چادر کیسے تار تار ہوئی؟ یہ بات دلچسپ ہے اور یہاں اس لیے بیان کی جا رہی ہے کہ از حد سبق آموز ہے۔ اس سے بہتوں کا بھلا ہو گا اور بہت سے پڑھنے والے دوسروں پر رشک کرنے کے بجائے ان مہربانیوں کی قدر کریں گے جو قدرت نے ان پر کی ہیں اور شکر کریں گے‘ اس لیے کہ شکر رشک سے برتر ہے! لاہور گیا تو اکمل نے ہر بار کی طرح کھانے کی دعوت دی۔ فائیو سٹار ہوٹل میں لے گیا۔ باتوں باتوں میں کہنے لگا: تم سکول کے زمانے کے بیلی ہو۔ ایک بات ہے جو تم ہی سے ہو سکتی ہے۔ یار میں بہت دکھی ہوں! اندر سے ٹوٹ چکا ہوں! سن کر ایک بار جیسے جھٹکا لگا مگر فوراً اپنے آپ کو مجتمع کیا۔ میں نے کہا :تم کیوں دکھی ہو؟ ماشاء اللہ ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہو۔ ہم سب دوست تم پر رشک کرتے ہیں! کیا ہے جو تمہارے پاس نہیں! ایک کامیاب کیریئر۔ مدتوں ترقی یافتہ ملکوں میں قیام سے لطف اندوز ہوئے۔ اپنا محل نما گھر۔ تندرستی۔ اچھی شہرت! مگر اکمل کا چہرا جیسے دھویں میں تبدیل ہو رہا تھا۔ کہنے لگا‘ اورکہتے ہوئے اس کی ہچکی بندھ گئی‘ کہ بیٹی نے‘ جو امریکہ میں پی ایچ ڈی کر رہی ہے‘ پوچھے بغیر‘ بتائے بغیر‘ شادی کر لی ہے۔ آنسو بارش کی طرح اس کے رخساروں پر گر رہے تھے۔ میں دم بخود تھا۔ کافی دیر ہم دونوں خاموش رہے۔ پھر میں نے اسے تسلی دی۔ اس سے رخصت ہونے کے بعد مجھ پر بہت دیر سکتے کی کیفیت طاری رہی۔ پھر دل میں توبہ کی اور بار بار توبہ کی کہ اکمل پر رشک کرتا رہا اور یہ سمجھ کر رشک کرتا رہا کہ اسے وہ کچھ ملا جو میرے پاس نہیں تھا۔ مگر یہ شخص تو ریزہ ریزہ ہو چکا ہے۔ یہ میرے لیے سبق بھی تھا اور ٹھوکر بھی! اُس دن کے بعد کبھی کسی کی ظاہری کامیابی پر رشک نہیں کیا۔ اکمل کی ہچکی اور دھواں ہوتا چہرا ہر ایسے موقع پر یاد رہتا ہے۔ ایک اور واقعہ بھی اس سے ملتا جلتا پیش آیا اور اس سے یہ یقین پختہ تر ہو گیا کہ رشک کرنے کے بجائے اپنے حال پر ہزار بار شکر کرنا چاہیے۔
مگر بنکاک ایئر پورٹ پر جب بھی ٹھہرنا ہوتا ہے‘ ایئر پورٹ پر اور تھائی لوگوں پر رشک آتا ہے اور یہ رشک اپنی ذات کے حوالے سے نہیں‘ صرف اور صرف اپنے ملک کے حوالے سے آتا ہے کہ یار یہ ٹھگنے‘ پست قامت لوگ ہم سے کوسوں نہیں‘ برسوں نہیں‘ دہائیوں آگے نکل گئے ہیں! بیسیوں بار اس ایئر پورٹ پر پورا پورا دن گزارنا پڑا اور ہر بار رشک آیا! کیا لوگ ہیں! کیا قوم ہے! ہرا منٹ بعد کوئی نہ کوئی پرواز اُترتی ہے۔ جس کسی نے آسٹریلیا جانا ہے یا نیوزی لینڈ جانا ہے یا جاپان جانا ہے یا کوریا جانا ہے یا ہانگ کانگ جانا ہے‘ یا فلپائن یا ویتنام جانا ہے‘ یہاں سے ہو کر جاتا ہے۔ گویا یہ ڈیوڑھی ہے جس سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ اس ڈیوڑھی سے یہ ملک کروڑوں ڈالر روز کے کما رہا ہے۔ صرف ایئر پورٹ پر جو بازار اور دکانیں ہیں‘ انہی سے لاکھوں ڈالر کی سیل روزانہ ہو رہی ہے۔ وقت کی پابندی ان پر ختم ہے۔ صفائی حیرت انگیز ہے۔ وی آئی پی لاؤنج ایک درجن سے کم کیا ہوں گے۔ وسیع و عریض اتنا کہ ہمارے اسلام آباد ایئر پورٹ جتنے کئی ایئر پورٹ اس میں سما جائیں! کبھی کوئی اونچی کرخت آواز نہیں سنی۔ کبھی دو آدمیوں کو جھگڑتے یا اُلجھتے نہیں دیکھا۔ کارندے اور دکاندار مسافروں کو جھک کر اور ہاتھ جوڑ کر سلام کرتے ہیں۔ ہم پاکستانی بھی انہی جیسے ہیں۔ بلکہ جسمانی طور پر بہتر! ہمارے بھی ان کی طرح دو ہی ہاتھ ہیں‘ دو ہی پیر ہیں‘ ہم بھی ان کی طرح نوالہ منہ ہی میں ڈالتے ہیں۔ مگر ہم اُس چوہے کی طرح ہیں جس نے ہاتھی سے عمر پوچھی تھی اور پھر کہا تھا کہ میں تمہارا ہم عمر ہوں مگر ذرا بیمار رہا ہوں! ہم بھی تھائی لوگوں کی طرح ہی ہیں مگر ذرا ذہنی طور پر بیمار رہے ہیں اور بدستور بیمار ہیں! ہم ایک بھی ایئر پورٹ ایسا نہ بنا سکے جیسا ان لوگوں نے بنایا ہے۔ ایک زمانے میں کراچی ایئر پورٹ کی وہی اہمیت تھی جو آج دبئی‘ ابو ظہبی‘ دوحہ‘ بنکاک اور سنگا پور کے ہوائی اڈوں کی ہے۔ جس نے بھی مشرق کو جانا ہوتا تھا یا مغرب کو‘ کراچی سے ہو کر جاتا تھا۔ دنیا بھر کی ایئر لائنوں کے جہاز اترتے تھے۔ اس وقت دبئی کی اہمیت تھی نہ سنگا پور کی! مگر پھر ہم گر پڑے اور نہ صرف یہ کہ گر پڑے‘ لڑھکتے لڑھکتے کئی میل نیچے چلے گئے۔ دلدل میں دھنس گئے! اور آج حال یہ ہے کہ:
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے!
اسلام آباد کا ''نیا نویلا‘‘ ایئر پورٹ‘ جو ہم نے بقول پنجابیوں کے کِل کِل کے گیارہ سال میں بنایا‘ دوحہ یا سنگا پور یا بنکاک یا دبئی ایئرپورٹ کے سامنے ایسے ہی ہے جیسے میر اور غالب کے سامنے استاد امام دین گجراتی! دنیا آگے جا رہی ہے ہم پیچھے! ہم ایک منتشر ریوڑ ہیں جو کسی چرواہے کی تلاش میں ہے! ہم نے ہر لیڈر کے نعرے لگائے۔ جلسوں میں دریاں بچھائیں‘ ان کی گاڑیوں کے ساتھ دوڑے۔ ہم میں سے کئی نے ماریں کھائیں‘ جیلوں میں رہے‘ گالیاں سنیں‘ اپنی گھریلو زندگیاں قربان کیں مگر ہر لیڈر نے ہمیں دھوکا دیا۔ جس کا بھی ساتھ دیا اس نے ہمارے منہ پر کالک ملی‘ کسی نے اپنی اولاد کا مستقبل بنایا۔ کسی نے باہر ایمپائرز کھڑی کیں۔ کسی نے بیوی کی خواہشات پر قوم کو قربان کر دیا۔ اب تو فیض صاحب کے بقول اپنے آپ ہی سے پوچھتے ہیں:
کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہو گی؍ سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہو گی؍ کب جان لہو ہو گی کب اشک گہر ہو گا؟؍ کس دن تری شنوائی اے دیدۂ تر ہو گی؟؍ کب مہکے گی فصلِ گل کب بہکے گا مے خانہ؟؍ کب صبحِ سخن ہو گی کب شامِ نظر ہو گی؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں