یورپ کی نئی نکور خبریں… (2)

(1) آپ یقینا جانتے ہوں گے کہ ماہِ جولائی کے شروع میں برطانیہ میں عام انتخابات ہوئے جن میں 14 برس کے بعد لیبر پارٹی بھاری اکثریت سے جیت گئی۔ کنزرویٹو پارٹی (جس کے قائد سابق وزیراعظم رشی سوناک ایک ایشیائی تھے اور اُن کے دادا گوجرانوالہ سے نقل مکانی کرکے مشرقی افریقہ کے ملک یوگنڈا چلے گئے تھے) بری طرح ہار گئی۔ غالباً آپ نے ان انتخابات پر 12 جولائی کے روزنامہ دُنیا کے اداراتی صفحہ پر ڈاکٹر رشید احمد خاں کا معلوماتی کالم بھی پڑھا ہوگا۔ اکثر قارئین شاید یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ دارالعوام کے افتتاحی اجلاس میں (ایک مسلمہ روایت کا احترام کرتے ہوئے اسی شخص کو دوبارہ) سپیکر کو متفقہ طور پر چن لیا گیا جو پچھلے ایوان کے بھی سپیکر تھے۔ ایک اور روایت کے مطابق عام انتخابات میں سپیکر بلا مقابلہ اپنی نشست جیت لیتا ہے چونکہ کوئی بھی چھوٹی بڑی سیاسی جماعت سپیکر کے خلاف اپنا امیدوار کھڑا نہیں کرتی اور وہ ہمیشہ بلامقابلہ نئے ایوان کا رکن بن جاتا ہے۔ برطانوی سیاست کی ایک اور روایت بھی قابلِ ذکر ہے کہ سپیکر اپنی نامزدگی اور متفقہ چناؤ کے بعد اپنی نشست سے اٹھ کر آرام سے سپیکر کی کرسی پر نہیں بیٹھ جاتا بلکہ دو اراکین اسے بازوؤں سے پکڑ کر کھینچتے ہیں اور ایک دو اراکین اسے پیچھے سے دھکیلتے ہیں۔ اس پُرلطف اداکاری کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سپیکر خود بہ رضا ورغبت تیار نہیں ہوتا بلکہ مجبوراً اراکینِ پارلیمنٹ کی جسمانی زور آزمائی کے سامنے بے بس ہو کر بادل نخواستہ سپیکر کی کرسی پر بیٹھتا ہے۔
اس روایت کے پیچھے ایک سچائی ہے اور وہ یہ ہے کہ وزیراعظم کا عہدہ معرضِ وجود میں آنے اور پارلیمانی مطلق العنانیت؍ خود مختاری کے ایک حقیقت بن جانے سے دارالعوام کی نمائندگی اور ترجمانی کی ذمہ داری سپیکر (وجہ تسمیہ بھی یہی ہے) پر عائد ہوتی تھی اور اس ذمہ داری کو نبھانا کتنا مشکل اور جان جوکھوں کا کام تھا‘ اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یکے بعد دیگرے دو سپیکر صاحبان کو (بادشاہ سے ٹکر لینے کے جرم میں) سزائے موت دی گئی۔ اسی مرحلہ پر مجھے اپنے ایک آنجہانی دوست لارڈ ویدرل یاد آ گئے۔ وہ میری دعوت پر ایک بار پاکستان تشریف لائے اور آزاد کشمیر بھی گئے۔ وہ پندرہ برس دارالعوام کے سپیکر رہے۔ انہوں نے ایک بار دورانِ سفر مجھے یہ دلچسپ واقعہ سنایا کہ ملکہ برطانیہ کوئین الزبیتھ نے انہیں اپنے محل میں عشائیہ کی دعوت دی تو انہوں نے دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور دعوت نامہ پر اس انکار کی وجہ یہ بیان کی کہ چند صدیاں قبل ملکہ معظمہ کے پیشرو ایک بادشاہ نے اپنے دورِ حکومت میں دو سپیکروں کو کھانے کی دعوت دی جو انہوں نے بدقسمتی سے قبول کر لی اور دونوں زندہ واپس نہ آئے۔ عشائیہ کی دعوت ان دونوں کو بہت مہنگی پڑی اور وہ دونوں اپنی جان گنوا بیٹھے۔ ملکہ الزبیتھ نے ان کی معذرت قبول کرتے ہوئے میزبانی کے بجائے لارڈ اور لیڈی ویدرل کا مہمان بن جانے پر رضا مندی ظاہر کر دی۔
دارالعوام میں جو رکن سپیکر چن لیا جائے وہ کرکٹ میں امپائر جتنی (یا اس سے بھی زیادہ) غیرجانبداری کا مظاہرہ کر کے اپنے آپ کو ایوان کے سارے اراکین کے عزت و احترام کا مستحق بناتا ہے۔ وہ اپنی سیاسی پارٹی سے مکمل قطع تعلق کر لیتا ہے اور کسی سرکاری تقریب میں شریک نہیں ہوتا اور وزیروں سے بھی اتنے فاصلے پر رہتا ہے جتنا حزبِ مخالف سے۔
(2) پاکستانی نژاد شبانہ محمود (جو قانون کی تعلیم کے دوران میرے ایک بیٹے کی ہم جماعت تھیں) نئی لیبر پارٹی حکومت میں وزیر انصاف بنی ہیں۔ انہوں نے اپنے پہلے سرکاری بیان میں یہ چونکا دینے والا اعلان کیا کہ برطانوی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ جن مجرموں کو چار سال سے کم عرصہ کی قید کی سزا دی گئی تھی وہ اپنی قید کا40 فیصد بھگت لیں تو انہیں رہائی دے دی جائے گی۔ برطانیہ میں (پاکستان اور بھارت کے برعکس) پولیس کا محکمہ صوبائی سطح پر (ایک انسپکٹر جنرل کے تحت) منظم نہیں کیا گیا بلکہ ہر ضلع کی اپنی پولیس فورس ہوتی ہے جو ہر قسم کے سرکاری دباؤ سے مکمل طور پر آزاد ہوتی ہے۔ ہر ضلع کی مقامی حکومت اپنی پولیس کا خرچ خود اٹھاتی ہے۔ کاؤنٹی کونسل ہر پولیس سٹیشن کی نگرانی اور پولیس افسروں کی باز پرس کا اختیار رکھنے والی بارہ افراد کی کمیٹی (تین سالوں کی مدت کے لیے) نامزد کرتی ہے‘ جن کے پاس دن رات میں کسی بھی وقت تھانہ کے اندر جا کر قیدیوں سے ملنے اور ان سے کیے جانے والے برتاؤ کی جانچ پڑتال کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ 80ء کی دہائی میں جب یہ کالم نگار مغربی لندن کے ایک صنعتی شہر Slough میں رہتا تھا تو کاؤنٹی کونسل نے اسے پولیس کمیٹی کا رکن اور مقامی ہسپتالوں کو چلانے والی کمیٹی کا رکن نامزد کیا تھا جبکہ وزیراعظم نے کالم نگار کو ہیتھرو ایئر پورٹ کی نگران کمیٹی کا تین سال کے لیے رکن نامزد کیا‘ اس لیے مجھے ذاتی طور پر ان عوامی کمیٹیوں کے مؤثر اور بااختیار ہونے کا علم ہے۔
(3) 12جولائی کو برطانوی اخباروں میں یہ خبر نمایاں طور پر شائع ہوئی کہ مشرقی افریقہ کے ملک کینیا میں صدرِ مملکت (Ruto) نے اپنی ساری کابینہ کو برخاست کر دیا ہے۔ انہوں نے یہ غیرمعمولی قدم کئی ہفتوں سے جاری رہنے والے زبردست عوامی احتجاجی مظاہروں کا زور توڑنے کے لیے اٹھایا۔ کینیا کے عوام (بالخصوص تعلیم یافتہ نوجوان) ٹیکسوں میں (پاکستان کی طرح) ناقابلِ برداشت اضافے اور سرکاری محکموں میں بے تحاشا کرپشن اور فضول خرچی کے خلاف اتنے بڑے مظاہرے کر رہے تھے کہ ملکی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ غضبناک پولیس کی فائرنگ سے بیسیوں مظاہرین ہلاک ہوئے مگر بقول فیض: مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں تھاما ہوا پرچم گرنے نہیں دیا۔ ''عشاق کے نئے قافلے ہر روز نمودار ہو رہے ہیں‘‘۔ مظاہرین کی ایک رہنما نوجوان خاتون حنیفہ نے سوشل میڈیا فورم پر یہ اعلان کیا کہ ایک بار پھر عوام نے حکومت پر (جو بدعنوان اور بددیانت ہونے کی وجہ سے کرم خوردہ ہے) اپنی بالادستی ثابت کر دی ہے۔ مظاہرین صدرِ مملکت کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس دوران دارالحکومت نیروبی میں ہر قسم کی سرگرمیاں اور کاروبار معطل ہو گیا۔ کینیا میں عوامی انقلاب آگیا تو افریقہ کے بہت سے ممالک متاثر ہوں گے۔
(4) 11 جولائی کو اہلِ برطانیہ بہت خوش و خرم تھے اور ان کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھری ہوئی تھیں مگر یہ دن ایک بڑی کاروباری شخصیتDavid Crisp کے لیے بہت برا ثابت ہوا۔ یہ شخص جس کمپنی کا سربراہ ہے‘ وہ بڑے مہنگے پرفیوم بناتی ہے۔ اس کی کمپنی کا نام Bodicea Tae Victoria ہے (برطانوی تاریخ میں Bodicea کا مقام اتنا بلند ہے کہ لندن میں شاہی محل کے باہر اس کا بڑا مجسمہ نصب ہے‘ جس میں وہ اپنی رَتھ کے گھوڑوں کی باگ تھامے ہوئے اپنی فوج کی قیادت کر رہی ہے۔ وہ قبل از مسیح دور میں قابض رومن فوج کے خلاف بڑی بہادری سے لڑی تھی تاہم شکست کھا گئی)۔ اس کمپنی کی مہنگی ترین خوشبو کی قیمت 1400 پاؤنڈ (قریباً پانچ لاکھ روپے) ہے۔ ڈیوڈ کرسپ کو ہائیکورٹ نے اپنی کمپنی کی سربراہی سے ہٹا دیا کیونکہ پولیس نے اس کے خلاف قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے روس کے ساتھ خفیہ کاروبار کرنے اور اپنی مصنوعات فروخت کرنے کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ یہ جرم یوں تھا کہ یوکرین پر روس کے جارحانہ حملے کے بعد سارے یورپی ممالک نے روس کے ساتھ تجارت پر پابندی لگا دی تھی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں