D-Day

چھ جون کا دن برطانوی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ 80 برس قبل‘ (1944ء میں) دوسری عالمی جنگ کے دوران آدھی رات کو ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے نہ صرف ورلڈ وار میں اتحادیوں کے حق میں پانسہ پلٹ دیا بلکہ انسانی تاریخ کا رُخ بھی بدل دیا۔ طلوعِ آفتاب سے ذرا پہلے‘ اتحادی فوجیں بحری جہازوں پر سوار ہو کر فرانس کے مغربی ساحل پر (نارمنڈی کے مقام پر) اتنی راز داری سے اُتریں کہ جرمن فوج کو‘ جو بن بلائے مہمانوں کی روک تھام کیلئے توپوں اور مشین گنوں سے ساحل کی حفاظت کر رہی تھی‘ کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ برطانوی‘ امریکی اور کینیڈین حملہ آور افواج کی تعداد ایک لاکھ چالیس ہزار تھی۔ ہر سپاہی جانتا تھا کہ وہ اس تاریخ ساز عسکری مہم میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر حصہ لے رہا ہے۔ بحری جہاز ساحل تک تو نہیں جا سکتے تھے ‘ اس لیے اُنہوں نے فوجیوں کو ساحل سے تقریباً پچاس گز دور اُس جگہ اُتارا‘ جہاں سمندر کی گہرائی قدرے کم تھی۔ یہ بہادر فوجی جب اپنے ہتھیار سنبھالے‘ اپنے اہلِ خانہ کو یاد کرتے ہوئے سمندر میں اُترے تو ان کا آدھا دھڑ پانی میں ڈوب گیا۔ آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جرمن ''میزبانوں‘‘ نے اپنے ان غیر متوقع مہمانوں کا کس طرح استقبال کیا ہو گا؟ توپوں اور مشین گنوں کے دہانے کھول دیے گئے۔ گولیوں کی موسلا دھار بارش بھی اس فوج کو ساحل پر اُترنے سے نہ روک سکی۔ ایک‘ آدھ گھنٹے کی یہ ؤکارروائی 4600 سے زائد فوجیوں کی ہلاکت کا موجب بنی۔ امریکی فوج کے حملہ آور دستے اس لحاظ سے خصوصی تعریف کے مستحق ہیں کہ جرمنی کی امریکہ سے نہیں بلکہ برطانیہ سے لڑائی تھی اور امریکہ صرف اپنے اتحادی (برطانیہ) کی مدد کر رہا تھا۔ ان فوجیوں نے بہادری کی ایک نئی داستان رقم کی۔ وہ رضا کارانہ طور پر حملہ آور فوج کا ہر اوّل دستہ بنے اور برطانیہ کی عسکری مدد کا حق ادا کر دیا۔ تمام ہلاک شدگان آج نارمنڈی کے ساحل پر ایک بہت بڑے (اور پھولوں سے بھرے) قبرستان میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔
چھ جون کو اُس قبرستان میں ایک فوجی نے بِگل بجا کر انہیں سلام کیا‘ فوجی بینڈ نے ماتمی دُھن بجائی۔ آسمان پر برطانوی اور فرانسیسی فضائیہ کے طیاروں نے قبرستان پر پرواز کرتے ہوئے جھک کر 80 سال پہلے جان کی قربانی دینے والوں کو سلامی پیش کی۔ 22 ممالک (بشمول امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا اور فرانس) کے سربراہوں نے یادگار پر احتراماً پھول رکھے۔ فرانس اور برطانیہ کے طول و عرض میں گرجا گھروں میں گھنٹیاں بجائی گئیں۔ سکول میں پڑھنے والے سینکڑوں طلبہ و طالبات نے کمال کا پُراثر رقص کیا اور آنکھوں کو نمناک کر دینے والے الوداعی گیت گائے۔ کالم نگار کو یقین ہے کہ ساڑھے سات ہزار بہادر اور جان فروش سپاہیوں نے یہ گیت ضرور سنے ہوں گے اور وہ جان کر بہت خوش ہوئے ہوں گے کہ 80 سال گزر جانے کے بعد بھی آنے والی نسلوں نے اُنہیں یاد رکھا اور عزت و احترام سے اُن کی خدمت میں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اس تقریب میں بادشاہ بھی تھے اور سربراہانِ مملکت بھی مگر ساری نظریں گنتی کے اُن چند ہیروز پر جمی ہوئی تھیں جن کی عمریں سو سال کے لگ بھگ تھیں۔ وہ اس تاریخی معرکہ میں حصہ لینے والے ویٹرن فوجی تھے۔ اب وہ اتنے ضعیف ہو چکے ہیں کہ چلنے سے بھی قاصر ہیں۔ ان کے عزیز و اقربا انہیں وہیل چیئر پر بٹھا کر لائے تھے۔ بادشاہوں نے اُن سے تعظیماً جھک کر ہاتھ ملایا۔ جرنیلوں نے اُنہیں سیلوٹ کیا۔ باور کیا جاتا ہے کہ سو سال گزرنے پر جب اگلی تقریب منعقد ہو گی تو زندہ رہ جانے والے پرانے سپاہیوں میں سے ایک بھی شریک نہ ہو گا چونکہ وہ بھی اس جہانِ فانی سے کوچ کر کے 80 برس پہلے ہلاک ہو جانے والے اپنے ساتھیوں کے پاس جا چکے ہوں گے۔
80 سال پہلے 6 جون کے سمندر (رُودبارِ انگلستان) کے مقابلے میں 6 جون 2024ء کا سمندر زیادہ پُرسکون تھا۔ آسمان بھی اَبر آلود نہ تھا۔ اس لیے نارمنڈی کے ساحل پر اس یادگار تقریب میں شریک ہونے والوں نے بڑے ذوق وشوق سے سلامی دینے والے جہازوں (Red Arms) سے نکلنے والے رنگدار دھویں کو دیکھا اور ہوا بازوں کی مہارت کی داد دی۔ سوویت یونین (آج کے روس) نے نازی جرمنی کو شکست دینے کا زیادہ بوجھ اُٹھایا اور اتحادیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ جان و مال کی قربانی دی مگر روسی قائدین کو اس تقریب میں یوکرین میں لڑی جانے والی جنگ کی وجہ سے نہیں بلایا گیا۔ روس کی عدم شرکت شدت سے محسوس کی گئی مگر یہ ناممکن تھا کہ ایک ہی تقریب میں یوکرین اور روس کے سربراہانِ مملکت کو بیک وقت بلایا جاتا۔ کتنے افسوس بلکہ دُکھ کی بات ہے کہ جب مذکورہ بالا تقریب میں شریک اتحادی ممالک کے سربراہان بار بار یہ بات دہراتے تھے کہ وہ آج بھی ظلم وستم کے خلاف اُسی طرح بے جگری سے لڑنے پر کمر بستہ ہیں جس طرح وہ 80 برس قبل تھے مگر اُنہیں ایک بار بھی‘ ایک لمحہ کے لیے بھی یہ یاد نہ آیا کہ آج وہ ظالم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ کھڑے نہیں ہیں۔ اس امر میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ عصرِ حاضر کا سب سے بڑا ظالم اسرائیل ہے اور بڑے پیمانے پر قتلِ عام یعنی جینوسائڈ کا سب سے بڑا شکار فلسطینی (بشمول خواتین اور بچے) ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کالم نگار یورپ میں 57 برس گزارنے کے بعد یورپی ممالک کے منافقانہ کردار کا پہلے سے کہیں زیادہ بڑا نقاد اور متنفر بن گیا ہے۔ اقبال نے ان کے بارے میں بجا طور پر کہا تھا:پیتے ہیں لہو‘ دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
اقبال نے اپنے وقت میں ابی سینیا (Abyssinia‘ آج کے ایتھوپیا) میں جارحیت کی مرتکب اطالوی فوج کے قتلِ عام کے مناظر دیکھ کر ایک مختصر مگر بڑی جامع‘ آنکھیں کھول دینے اور رُلا دینے والی نظم اگست 1935ء میں لکھی۔
یورپ کے کرگسوں کو نہیں ہے ابھی خبر
ہے کتنی زہرناک ابی سِینیا کی لاش
ہونے کو ہے یہ مردۂ دیرینہ قاش قاش!
تہذیب کا کمال شرافت کا ہے زوال
غارت گری جہاں میں ہے اقوام کی معاش
ہر گُرگ کو ہے برّۂ معصوم کی تلاش!
اے وائے آبروئے کلیسا کا آئنہ
روما نے کر دیا سرِ بازار پاش پاش
پیرِ کلیسیا! یہ حقیقت ہے دلخراش!
قارئین سے درخواست ہے کہ وہ پہلے شعر میں ابی سینیا کی جگہ فلسطین پڑھیں اور آخری مصرع میں پیرِ کلیسا کی جگہ امریکہ۔ ہمارا حکمران طبقہ اپنے معاشی مفادات کے حصول کی خاطر بیک وقت امریکہ کی غلامی اور چین سے دوستی کی صریحاً غیر منطبق (Incompatible) روش پر چل رہا ہے۔ یہ وہی تضاد ہے جس کا مظاہرہ ہم نے 1956ء میں کیا تھا‘ جب ہم برطانیہ کے قریب ترین سیاسی اور عسکری حلیف بھی تھے اور اُس کے جارحانہ حملوں کا نشانہ بننے والے مصر سے دل وجان سے ہمدردی بھی رکھتے تھے۔ ہمارے پاس کئی قابل‘ تجربہ کار اور زیرک سفارتکار ہیں‘ مثلاً اشرف جہانگیر قاضی‘ شفقت کاکاخیل‘ اعزاز چودھری‘ ملیحہ لودھی اور شمشاد احمد۔ مہربانی کر کے وہ ہماری رہنمائی فرمائیں کہ ہم بیک وقت شکاری کتے کے ساتھ شکار کریں اور خرگوش کے ساتھ دوڑیں تو کیونکر؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں