Time to stand up and be counted

وطنِ عزیز جس آزمائش اور بحران میں ہے اس کی واضح شکل ہمیں ملک کے دو مغربی صوبوں میں نظر آتی ہے۔ میں ممنون ہوں عمرانیات کے پروفیسر یاسر جاوید صاحب کا جنہوں نے پانچ اگست کے ایک جریدے میں پاکستان کے سرحدی علاقوں میں شورش پرعالمانہ تبصرہ کیا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ چھوٹے صوبوں کے جذبات کو نہ پنجاب سے کوئی حمایت ملتی ہے اور نہ سندھ سے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں‘ بار ایسوسی ایشنز‘ ٹریڈ یونینز‘ یہاں تک کے سندھ کی قوم پرست تحریکیں بھی دم بخود ہیں۔ پنجاب میں بھٹہ مزدور یونین‘ اساتذہ کی ایک سے زیادہ فعال جماعتیں‘ کسان اتحاد‘ انجمنِ مزارعین‘ صحافیوں کی تنظیمیں‘ ہر تحصیل‘ ہر سطح اور ہر صوبائی دارالحکومت کی سطح پر بار کونسلز‘ جماعت اسلامی سے لے کر جمعیت علمائے اسلام تک‘ کسی نے بھی چھوٹے صوبوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ایک لفظ تک نہیں بولا جاتا۔ حیرت اور افسوس کا مقام ہے کہ انگریزی اخبارات کی اردو معاصر پسماندہ صوبوں کے عوام کی امنگوں کی ترجمانی کا حق ادا نہیں کرتے۔ میں سوچتا ہوں کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی جہاں اخبارات پڑھنے کے رجحان میں کمی آئی ہے ہے‘ وہاں انگریزی اخبارات پڑھنے والے تواور بھی بہت کم ہوں گے۔ ان کی آواز تو نقار خانے میں طوطی کی فریاد کی طرح ہو گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت ان کو حق گوئی کی سزا نہیں دیتی اور انہیں نظر انداز کر دینے کو عین مصلحت اندیشی سمجھتی ہے۔ میں تاریخ کی طرف مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے ماضی اور آج کے حالات میں بھی کچھ زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔
بارہا میں یہ واقعہ بیان کر چکا ہوں کہ 1970ء کے عام انتخابات کے بعد جب انتقالِ اقتدار میں لیت و لعل سے کام لیا جارہا تو برطانیہ میں پاکستانیوں کی ایک کمیٹی بنی جس کا مقصد مشرقی پاکستان کے عوام کی سو فیصد جائز آئینی جدوجہد کی حمایت کرنا تھا۔ پورے نو‘ دس مہینے ہم نے ہر فورم پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ عوامی لیگ کے چھ نکات کی مکمل حمایت کی گئی مگر اس حمایت کا نتیجہ کیا نکلا؟ کمیٹی صرف چار افراد (جو بانی اراکین تھے) تک ہی محدود رہی۔ برطانیہ میں اس وقت مغربی پاکستانیوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد تھی۔ پانچ لاکھ میں سے صرف چار لوگ یہ فریاد کر رہے تھے کہ پاکستان کو بطور ایک اکائی کے بچانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ عوامی لیگ کے پیش کردہ چھ نکات کو تسلیم کر لیا جائے۔ اس کمیٹی میں کالم نگار کے علاوہ اس کے تین ساتھی تھے۔ طارق علی‘ ایئر کموڈور(ر) ایم کے جنجوعہ اور احمد شجاع تھے۔ لیکن یہ سو فیصد جائز مطالبہ نہ مانا گیا۔ سیاسی مفاہمت کے بجائے آپریشن کا راستہ اپنایا گیا۔ آخر وہی ہوا جس کا خطرہ تھا۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کے ساتھ یکجہتی کی کمیٹی کے اراکین کی تعداد مارچ میں چار تھی۔ دسمبر میں (جب سقوطِ ڈھاکہ ہوا تب) بھی چار ہی رہی۔ آپ یہ نہ سمجھیے کہ مغربی پاکستان میں صورتحال بہتر تھی۔ ہر گزنہیں‘ وہاں بھی ہمارے کُل ہم خیال پانچ چھ افراد ہی تھے۔ پروفیسر وارث میر‘ ڈاکٹر مہدی حسن‘ فیض احمد فیض‘ آئی اے رحمان‘ معراج محمد خان اور غالباً دو اور صحافی تھے جو بنگالیوں کے جائز مطالبات کو تسلیم کرنے کی بات کر رہے تھے۔
اب 53 برس گزر چکے ہیں۔ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنے ہوئے نصف صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ اب بھی ہماری قومی روش میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ عوامی حاکمیت‘ سلطانیٔ جمہور اور انسانی حقوق کی پاسداری کی آواز خواہ پختونخوا سے بلند ہو یا بلوچستان سے‘ سرکار کی روش وہی پرانی ہے‘ جبر و زور زبردستی کی۔ اب بلوچ عوام کی آواز نہ اختر مینگل بلند کرتے ہیں اور نہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ۔ وہ بلوچستان کی عوامی سیاست میں اس طرحBackbenchers بن گئے جس طرح 1971ء میں پاکستان میں مولانا عبدالحمید بھاشانی تھے۔ اب ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بلوچوں کی آواز بن گئی ہیں۔ چند روز قبل ہڑتال کی ایک کال پر سارا بلوچستان بند ہوگیا۔ تمام شاہراہوں پر ٹریفک معطل ہوگئی۔ دکانداروں نے اپنے کاروباروں پر تالے لگا دیے۔ شہری زندگی ہر طرح سے معطل ہو گئی۔ کیا یہ مناظر دیکھنے کے بعد اربابِ اقتدار کو یہ علم نہیں ہو رہا کہ نوشتۂ دیوار کیا ہے؟ کیا وہ رائے عامہ کے اُمنڈتے ہوئے سیلاب کے خلاف کوئی مؤثر بند باندھ سکتے ہیں؟ کیا وہ اُفق پر ابھرتے ہوئے طوفان کا رخ موڑ سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں!
جبر کی پالیسی تو شاہِ ایران سے لے کر حسینہ واجد تک سب فسطائی حکمرانوں نے اپنائی۔ نتیجہ کیا نکلا؟ انہیں بڑے ذلت آمیز طریقہ سے اپنے ملک سے بھاگنا پڑا۔ بقول اقبال‘ جب بڑے مجبور مقہور بندے اپنے آقائوں کے خیموں کی طنابیں توڑ ڈالتے ہیں تو فرشتوں کو خداوند تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم دیا جاتا ہے کہ وہ گہری نیند میں سوئے ہوئے غریبوں کو جگا دیں اور کاخِ اُمرا کے در و دیوار ہلا دیں۔ جس کھیت سے دہقاں کو روزی میسر نہ ہو اُس کے ہرخوشۂ گندم کو جلا دیں۔ مرمرکی سلوں سے بیزار لوگوں کے لیے وہ مٹی کا نیا حرم بنا دیں۔ آج پختونخوا اور بلوچستان میں اپنے جائز حقوق اور مطالبات کے لیے کئی طبقات سرگرم عمل ہیں۔ اگر پنجاب اور سندھ نے ان کا ساتھ نہ دیا اور باقی قوم ان کی جدوجہد میں شامل نہ ہوئی تو بھی وہ اپنی جدوجہد میں ایک دن ضرور کامیاب ہو جائیں گے مگر ہمارا ان کے ساتھ رشتہ و تعلق برائے نام رہ جائے گا۔ براہِ مہربانی یہ نہ ہونے دیں۔ پنجاب اور سندھ کی ہر عوام دوست تنظیم کو ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ طلبہ و طالبات کو ‘ اساتذہ کو‘ وکلا کو‘ کسانوں مزدوروں کو‘ صحافیوں کو‘ دانشوروں کو ‘ گھریلو خواتین کو۔
میں اپریل کے آخر میں چار ہفتوں کے لیے پاکستان گیا تو مجھے عاصمہ جہانگیرکانفرنس میں شریک ہونے اور ماہ رنگ بلوچ سے ملنے کا موقع ملا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ دو ماہ قبل گم شدہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ لے کر متاثرہ خاندانوں کی خواتین کے ساتھ اسلام آباد میں دھرنا دینے گئیں تو نہ صرف ان کا سلام آباد میں بلکہ کوئٹہ سے اسلام آباد آنے جانے کے سفر کے دوران اہلِ پنجاب کی طرف سے جس گرم جوشی‘ محبت اور اپنائیت سے استقبال کیا گیا‘ وہ ہر لحاظ سے بلوچستان سے بڑھ کر تھا۔ یہ سن کر اس کالم نگار کا سر فخر سے اونچا ہوا۔ اب جب میں دیکھتا ہوں کہ وہ اپنی جدوجہد میں اکیلی ہیں تو یہ سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ میں اقبال کے اٹھائے ہوئے ایک سوال کو ایک مختلف پیرایہ میں بیان کرنے کی جسارت کرتا ہوں:
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
جماعت اسلامی کی آئی پی پیز کی اربوں کھربوں روپوں کی لوٹ مار کے خلاف جدوجہد قابلِ صد تعریف ہے مگر کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ جماعت اسلامی بلوچستان کے سلگتے ہوئے مسائل سے چشم پوشی کرے؟ جماعت اسلامی کی قیادت کو یہ یاد دلانا بھی مناسب ہوگا کہ آج بھی لاکھوں بہاری ڈھاکہ کے مہاجر کیمپوں میں اس کی غلط پالیسیوں کے سبب انتہائی ذلّت آمیز زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ لوگ جماعت اسلامی کے پیرو کار اور کارکن تھے مگر جماعت کی تباہ کن پالیسی نے بہاریوں کو اس عبرت ناک انجام تک پہنچایا۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ اب جماعت اسلامی ان لاکھوں لاچار اور بے بس بہاریوں کو پاکستان لا کر یہاں آباد کرنے کے لیے آواز تک نہیں اٹھاتی۔ لاکھوں بہاری‘ جن کی کیمپوں میں تیسری نسل بھی بڑی ہو چکی ہے‘ زبانِ حال سے کہتے ہوں گے:
مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے
کالم ختم ہونے کو ہے۔ بات وہیں پہ ختم ہوگی جہاں سے شروع کی گئی تھی۔ پنجاب اور سندھ کے ہر محبِ وطن اور عوام دوست فرد کا فرض ہے کہ وہ چھوٹے صوبوں کے جائز حقوق کی جدوجہد میں ان کے ہمقدم بنیں۔ انگریزی محاورے کے مطابق: It is time to stand up and be counted۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں