بے وقعت مادری اور قومی زبان

دیگر صوبوں کی نسبت پنجاب (جہاں کی بارہ کروڑ آبادی پورے ملک کی لگ بھگ نصف ہے) کی یہ بدقسمتی ہے کہ اس کی شہری آبادی کا نچلا متوسط اور متوسط طبقہ اپنے بچوں کو سر توڑ محنت کر کے اُردو بولنا سکھاتا ہے‘ حالانکہ وہ خود بھی اس پر عبور نہیں رکھتے۔ پنجابی ماحول میں بڑے ہونے والے بچے خالصتاً پنجابی لہجے میں ایسی اُردو بولتے ہیں کہ اگر لکھنؤ جا کر بولیں تو غالباً سامعین مترجم کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ دوسری جانب امیر لوگ گھروں میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ ٹوٹی پھوٹی انگریزی زبان میں بات چیت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مادری زبان تو کجا‘ قومی زبان بھی ان کے ہاں کسی شمار قطار میں نہیں ہے۔ ایک اُردو محاورے کے مطابق ہنس کی چال چلنے والے یہ کوے ہماری دلی ہمدردی کے مستحق ہیں جو اپنی چال ہی بھول جاتے ہیں۔ نقل کرنے میں مہارت حاصل کرنے والے بندروں کا بھی اس سے ملتا جلتا حشر ہوتا ہے۔
میرے محدود علم کے مطابق پنجاب کے کسی سکول میں پنجابی کو بطور زبان پڑھانا نصاب کا حصہ نہیں ہے۔ میں نہیں جانتا کہ سرزمین پنجاب میں کام کرنے والے ٹی وی سٹیشن ہر روز کتنا وقت پنجابی زبان میں نشریات کو دیتے ہیں۔ اجازت دیجئے کہ میں اپنا یہ اندازہ بیان کر سکوں کہ پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں یعنی خیبر پختونخوا‘ بلوچستان اور سندھ میں بالترتیب پشتو‘ بلوچی اور سندھی زبانوں کے ساتھ قدرے بہتر سلوک کیا جاتا ہے۔ سرکاری کاغذات میں پوٹھوہاری اور جنوبی پنجاب کے سرائیکی زبان والے اضلاع (بشمول سابقہ ریاست بہاولپور) پنجاب کا حصہ ہیں۔ چونکہ انیسویں صدی کے وسط میں انگریزوں نے پنجاب فتح کر کے اپنی مرضی اور مصلحتوں کے مطابق اسی طرح من مانی کرتے ہوئے لکیریں کھینچی تھیں جس طرح تبت اور ہندوستان کو تقسیم کرنے والی McMahon Line اور ہندوستان اور افغانستان کے بیچ ڈیورنڈ لائن۔ اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ نہ صرف مادری زبانیں (خصوصاً پنجابی) بلکہ قومی زبان (اُردو) بھی کسمپرسی کی حالت میں ہیں۔ پاکستان کے آئین (جو 1973ء میں مرتب اور نافذ کیا گیا تھا) کے مطابق اگلے پندرہ برسوں میں (یعنی 1988ء تک) اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جانا لازمی قرار دیا گیا تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو سکا۔ 1988ء کے بعد 36 سال مزید گزر چکے ہیں اور آئین شکنی کا یہ عمل بدستور جاری و ساری ہے۔ یقینا آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ 2024ء میں بھی آئین کی پامالی اور اس خلاف ورزی کے خاتمے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
ہم مڑ کر دیکھیں تو ڈھاکہ کی سڑکوں پر مادری زبان کے حق میں تحریک چلانے والے طلبہ کے خون کے دھبے نظر آتے ہیں۔ کالم نگار جب بھی بنگلہ دیش جائے تو اس یادگار پر پھول رکھنے اور فاتحہ پڑھنے ضرور جاتا ہے۔ نئی نسل شاید یہ سچائی نہیں جانتی کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ اقتدار میں جب چاروں صوبائی اسمبلیوں سے پوچھا گیا کہ وہ صوبے کی سطح پر کس زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دینا چاہیں گے تو سندھ نے سندھی زبان کے حق میں ووٹ دیا۔ (اس کے بعد وہاں پہلی بار لسانی فسادات پھوٹ پڑے)۔ صوبہ سرحد (آج کے خیبر پختونخوا) اور بلوچستان نے اُردو کے حق میں ووٹ ڈالا اور پنجاب...؟ دل تھام کر پڑھیے گا کہ پنجاب اسمبلی نے بھاری اکثریت سے انگریزی کے حق میں فیصلہ سنایا۔
اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ دلانے کے لیے پچاس کی دہائی سے بابائے اُردو مولوی عبدالحق صاحب نے جو جدوجہد شروع کی تھی‘ وہ تین چوتھائی صدی گزر جانے کے بعد چلتے چلتے فاطمہ قمر اور اُن کے بہادر ساتھیوں تک آ پہنچی ہے مگر آج بھی دلّی اُتنا ہی دور ہے جتنا پچھتر سال پہلے تھا۔ ہمارے ہاں کئی انتخابات ہوئے (نہ آزادانہ‘ نہ منصفانہ) مگر کسی ایک بھی سیاسی جماعت (بشمول مہاجروں کی جماعت کہلانے والی ایم کیو ایم) نے اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ دلانے کو اپنے منشور کا حصہ نہیں بنایا۔ ایم کیو ایم کی تو پہچان ہی اُردو زبان ہے۔ دوسری جانب جماعت اسلامی کی پہچان اُصول پسندی اور قومی ضمیر کی آواز بن جانا اور قومی اُمنگوں کی ترجمانی ہے مگر میں ان دونوں جماعتوں میں موجود اپنے دوستوں کو ناراض کرنے کا خطرہ مول لیتے ہوئے احتجاج کرنے میں حق بجانب ہوں کہ اگر یہ دونوں جماعتیں تحریکِ نفاذ اُردو کا ساتھ نہ دیں گی تو پھر اتنی بڑی جنگ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے ایک فیصلے کے سہارے تو ہرگز نہیں جیتی جا سکتی۔
ہمارے ملک میں خالص مادری زبان کے لہجے میں‘ مادری زبان کے محاوروں کے بے دریغ استعمال سے جو اردو زبان سے سلوک کیا گیا اور مسلسل کیا جا رہا ہے‘ وہ ماپا یا تولا تو نہیں جا سکتا‘ صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اُردو بولنے والوں کی تالیفِ قلب کے لیے اُنہیں یہ بتانا مناسب ہو گا کہ آپ دل گرفتہ نہ ہوں‘ جو حشر ہم نے اُترپردیش کی کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی‘ میر‘ مصحفی‘ مومن‘ غالب‘ اقبال‘ فیض اور فراز کی زبان کے ساتھ کیا ہے اور مستقبل (قریب اور بعید‘ دونوں) میں کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں‘ وہی (بلکہ شاید زیادہ برا) سلوک انگریزی کے ساتھ بھی کر رہے ہیں۔ دہی کو Yogurt کے بجائے Curd کہا جاتا ہے (جو یہاں برطانیہ میں صرف جانوروں کو کھلایا جاتا ہے)۔ جیکٹ کو کوٹ کہتے ہیں‘ حالانکہ وہ Overcoat ہوتا ہے۔ Trouser کو Pant کہتے ہیں۔ صاحب بہادروں کے لیے دروازہ کھولنے اور بند کرنے والے شخص کو Peon کہتے ہیں حالانکہ برطانیہ میں یہ لفظ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ خالصتاً جنوبی ایشیائی اصطلاح ہے۔ براہِ مہربانی ایک منٹ نکال کر آکسفورڈ لغات دیکھیں کہ Peon کا مطلب کیا ہے؟ یہ لفظ ہسپانوی؍ امریکی نسل کے غیر ہنر یافتہ افراد کے لیے گھڑا گیا۔ اس کے دو ماخذ ہیں؛ پرتگیزی زبان میں Peao اور ہسپانوی زبان میں Peon۔ مجھے برطانیہ میں علمِ سیاسیات پڑھاتے دس برس اور قانون پڑھاتے چھ برس اور وکالت کرتے ہوئے 35 برس ہو چکے ہیں۔ گزشتہ 55 برس سے میں یہاں مقیم ہوں اور میں نے آج تک کسی بھی دفتر میں کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا اور نہ سُنا‘ جسے لوگ Peon کہتے ہوں۔
انگریزوں نے ہمارے اُوپر دو سو برس حکومت کی اور اپنی مرضی کے نام متعارف (یا نافذ ) کیے۔ Peon کو بھی اس فہرست میں شامل کر لیں لیکن انگریز کے فرمان سے جاری کردہ احکامات صرف Peon اور اُسے ہمارے پرانی اشرافیہ کا لباس (پگڑی اور شیروانی) پہنانے تک محدود نہ رہا۔ انگریز راج کے دوران سرکاری افسروں (بشمول محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت کے ملازموں) کے ہر تین سال بعد تبادلوں (افسرانِ بالا ناراض ہوں تو ایک سال کے بعد) کی روایت کو اتنے زبردست طریقے سے نافذ کیا گیا کہ ہم اُس عوام دشمن روایت کو ابھی تک ختم نہیں کر پائے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سرکاری افسروں کو ایک سے دوسری جگہ (تبادلوں کے حکم کی تعمیل میں) سفر کرنے کے جو اخراجات ادا کیے جاتے ہیں‘ وہ کروڑوں میں نہیں بلکہ ہر سال اربوں تک جا پہنچتے ہیں۔ بال بچوں کو جو سزا ملتی ہے وہ علیحدہ۔ کالم نگار کے مرحوم والد ایک بڑے سرکاری افسر تھے۔ ان کے تبادلوں کی وجہ سے میں نے پانچویں جماعت سے ایم اے تک کے مراحل پانچ ہائی سکولوں اور پانچ کالجوں میں پڑھ کر بصد مشکل طے کیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں