مورخ کے بندھے ہوئے ہاتھ…(2)

گزشتہ کالم میں بات ہوئی تھی ڈاکٹر فاروق عادل کی کتاب کی اور ان سوالات کی جو آج بھی ذہن میں ابھرتے ہیں اور جن کے جوابات مورخین پر قرض ہیں۔ اس حوالے سے گزشتہ کالم میں 14 سوالات کا احاطہ کیا گیا‘دیگر سوالات حاضر خدمت ہیں۔
(15) امریکہ کے صدر جانسن کے دور میں پاکستان نے امریکی گندم کیوں منگوائی؟ (اونٹوں کی گردنوں میں امریکہ کے شکریے کی تختیاں لٹکائی گئی تھیں) (16): ایوب خان نے پشاور کے قریب امریکی فضائیہ کو سوویت یونین کے خلاف جاسوسی مشن کی پروازوں کیلئے فضائی اڈا کیوں دیا اور اس کو قوم سے کیوں چھپایا؟ اس کا پتا تب چلا جب روسی فضائیہ نے امریکی جہاز گرا کر پائلٹ کو گرفتار کر لیا۔(17): کیا ہمارے صاحبانِ اختیار نے لیبیا کے کرنل قذافی کو ایٹمی ہتھیار بنانے کیلئے فنی امداد دینے کا عملی قدم نہ اُٹھایا تھا جس کا بھانڈا خود کرنل قذافی نے پھوڑ دیا؟ ( 18): کیا یہ سچ ہے کہ اگر تلہ سازش کیس کی سماعت یوں ختم ہوئی کہ عدالت کے سربراہ (سابق چیف جسٹس ایس اے رحمان) کارروائی چھوڑ کر اس طرح بھاگے کہ جوتے بھی نہ پہن سکے؟ (19) :بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں اسلام آباد میں عراقی سفارتخانے سے اسلحہ کی برآمدگی کے پیچھے حقائق کیا ہیں اور وہ ابھی تک صیغۂ راز میں کیوں ہیں؟ (20): رمزی یوسف اور ایمل کانسی کی مخبری اور انہیں امریکہ کے حوالے کرنے کا انعام کس نے حاصل کیا؟ کیا اُس وقت کے وزیراعظم اور صدرِ مملکت کا اس میں کوئی کردار تھا؟(21): پرویز مشرف اور نواب اکبر بگٹی کی لڑائی کی وجہ کیا تھی ؟ (22): پرویز مشرف ڈاکٹر قدیر کو امریکہ کے حوالے کیوں کرنا چاہتے تھے اور ایسا کیوں نہ کر سکے؟ کیا اس کا سہرا اُس وقت کے وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی کے سر باندھا جا سکتا ہے؟ کیا وزیراعظم جمالی کا یہی جرم تھا جس پر انہیں وزارتِ عظمیٰ سے برخاست کر دیا گیا؟ (23): کیا یہ سچ نہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور اُن کے کم عمر بچوں کو کراچی میں گھر سے ایئر پورٹ جاتے ہوئے گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیا گیا اور کیا یہ سچ نہیں کہ امریکی اشارے پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ان کے نو عمر بچوں کو گرفتار کیا؟ (24): ریمنڈ ڈیوس پاکستان میں کیا کر رہا تھا اور اس کی رہائی کی اصل کہانی کیا ہے؟ اُس نے اپنی کتاب میں ہماری حکومت کا جو پول کھولا‘ کیا اس کی تحقیقات نہیں ہونی چاہئیں؟ کیا یہ سچ نہیں کہ اس وقت کے پنجاب کے وزیراعلیٰ نے سرکاری خزانے سے مقتول کے اہلِ خانہ کو کروڑوں روپے کی ادائیگی کی؟ (25): کیا مورخوں نے اپنے ہاتھ بصد خوشی باندھ لیے کہ وہ حکمرانوں کے عتاب سے خوفزدہ تھے؟ یا اُنہیں شک کا فائدہ دیتے ہوئے ہم بہت سے حقائق دیانتداری سے کہہ سکتے ہیں؟ ایک شعر کے مطابق: بہت سے حقائق خوفِ فساد کے ڈر سے ناگفتنی رہے۔ اور سب سے اہم سوال ‘ڈاکٹر فاروق عادل خود بھی چونکہ صدرِ مملکت ممنون حسین کے ترجمان ؍ افسرِ تعلقاتِ عامہ رہے‘ اسی باعث وہ ہمیں کئی درونِ خانہ راز نہیں بتا سکتے؟
ہمارے چوٹی کے بہت سے سیاستدانوں نے اپنی سوانح عمری لکھی‘ مثلاً خان عبدالغفار خان‘ چودھری شجاعت حسین‘ صاحبزادہ فاروق‘ سردار شوکت حیات‘ خیر بخش مری‘ سیدہ عابدہ حسین‘ ڈاکٹر مبشر حسن‘ غوث بخش بزنجو‘ مولانا کوثر نیازی‘ محمد حسین چٹھہ‘ شیخ مجیب الرحمن (ادھوری کتاب)‘ جنرل ایوب خان‘ ایئر مارشل (ر) اصغر خان‘ شیخ محمد رشید اور رسول بخش پلیجو۔ کتنی اچھی بات ہے کہ ہمارے بڑے سرکاری افسران اور سفارتکار بھی اس میدان میں پیچھے نہیں رہے۔ ان دنوں سلمان فاروقی کی کتاب کا بڑا شہرہ ہے‘ حالانکہ موصوف ہی نے سٹیل مل کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکا۔ مشہورِ زمانہ عوام دوست بیوروکریٹ مسعود کھدر پوش‘ کراچی کی لیاری بستی کا کمال منصوبہ بنانے اور چلانے والے حمید اختر خان‘ خورشید محمود قصوری‘ چار ریٹائرڈ انسپکٹر جنرل (پولیس)‘ عبدالستار (سابق وزیر خارجہ)‘ سعید مہدی (جو وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری بھی رہے) ان کی کتاب زیرِ اشاعت ہے۔ روئیداد خان‘ سجاد حیدر‘ الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب کی کتابوں کو بھی بڑی شہرت اور پذیرائی ملی۔ یہ کتابیں ہماری داغ داغ اور شب گزیدہ تاریخ کے بہت سے خفیہ گوشوں سے پردہ اُٹھاتی ہیں۔ کتنا اچھا ہوتا کہ فاروق عادل صاحب مندرجہ بالا کتابوں کے مندرجات کا تجزیہ کرتے ہوئے شواہد کی روشنی میں ان پر مدلل تبصرہ کرتے۔ اس کا مطلب ہے کہ فاروق عادل صاحب کومذکورہ کتاب کی دوسری جلد ضرور لکھنا پڑے گی۔
آیئے اب مڑ کر دیکھیں۔ محمود غزنوی‘ احمد شاہ ابدالی‘ محمد غوری اور تیمور لنگ کے پنجاب اور دہلی پر حملوں میں لاکھوں افراد کے قتلِ عام‘ وحشیانہ اور بے دریغ لوٹ مار کی دکھ بھری اور رُلا دینے والی داستانوں کو ہمارے مورخین نے (اپنے ذاتی تعصبات کی وجہ سے) بیان نہیں کیا۔ اُن پر کسی قسم کا سرکاری دبائو نہ تھا جو اُنہیں سچ لکھنے سے روکنے کا ذمہ دار ہوتا۔ بھلا ہو کہ نیوی کے ایک ریٹائر ڈ افسر کیپٹن (ر) نذیر الدین خان کا کہ جنہوں نے پیشہ ورانہ مصروفیات اور بحری مہمات میں عمر گزارنے کے بعد اپنی ذہنی توانائی کو ہندوستان پر انگریزوں کا تسلط قائم ہونے اور مغلوں کے عبرتناک زوال کے موضوع پر صرف کیا اور ''پہلا پتھر‘‘ کے نام سے کمال کی کتاب لکھی۔ اس کتاب کا ایک ایک صفحہ چشم کشا‘ فکر انگیز اور بصیرت افروز ہے۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ جو علمی کام ہمارے تاریخ کے سینکڑوں اساتذہ اور سکہ بند مورخین نہ کر سکے وہ بحریہ کے ایک افسر نے کر دکھایا۔ کراچی سے شائع ہونے والا سہ ماہی جریدہ ''آج‘‘ ہمارے شکریے اور احسان مندی کا مستحق ہے جس نے مذکورہ کتاب کا ایک باب (جو اس کتاب کے بیانیے کا بہترین خلاصہ پیش کرتا ہے) شائع کیا اور اس قابلِ صد تعریف کتاب کا تاریخ کے ہزاروں طالب علموں سے تعارف کرایا۔
فقیر سید اعجاز الدین اور روئیداد خان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس کالم نگار نے ان دونوں کی علمی روایت کو یوں آگے بڑھایا کہ میں نے برطانوی حکومت کی Declassified دستاویزات (پاکستان میں برطانوی سفارتخانے کی اپنی حکومت کے محکمہ خارجہ امور کو ارسال کردہ خفیہ رپورٹس) کو مرتب اور شائع کرانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ پچھلے برس اس سلسلہ کی پہلی کتاب لندن میں شائع ہوئی۔ اگلی جلدیں آنے والے برسوں میں ہر سال شائع ہوا کریں گی۔ اس کا ایسا سلسلہ بنایا ہے کہ میری وفات کے بعد بھی ان کتب کی اشاعت جاری رہے گی۔ ارادہ ہے کہ اس تحقیقی کام کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے آنے والی کتابوں میں امریکی حکومت کی (پاکستان سے متعلقہ امور کی) دستاویزات‘ جو 30 سال گزر جانے کے بعد Declassify کردی جاتی ہیں‘ کو بھی اگلے والیمز میں شامل کرتا جائوں۔ 1965ء کی جنگ پر میرے ایک بیٹے (ڈاکٹر فاروق باجوہ) کی کتاب لندن کے ایک اشاعتی ادارے نے شائع کی جسے دنیا بھر میں پذیرائی ملی۔
کالم کے اختتام پر ڈاکٹر طارق رحمن کا شکریہ کہ انہوں نے پاک بھارت جنگوں پر (تلخ حقائق پر مبنی) بہت اچھی کتاب لکھی ہے۔ کالم نگار بجا طور پر اس امید کا اظہار کرتا ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان میں تاریخ نویسی کا عمل آگے بڑھے گا اور ہم اپنی تاریخ کو سچ‘ صرف سچ اور مکمل سچ کی بنیاد پر لکھنے کے خار زار میں (آبلہ پائی کے باوجود) اُترنے کی روش اپنائیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں