جنرل فیض حمید کا احتساب

ہر قولِ مصطفی ﷺ حکمت و دانش کا گنجینہ ہوتا ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح کا ہے کہ خود احتسابی سے کام لو‘ قبل اس کے کہ تمہارا احتساب کیا جائے۔
حاضر سروس جرنیلوں تک ہم فقیروں کی رسائی کہاں۔ اس لیے میں اپنے قارئین کو اپنی ملاقاتوں یا ذاتی رابطوں کی بنا پر تو کوئی فرسٹ ہینڈ انفارمیشن نہیں دے سکتا۔ البتہ آئی ایس آئی کے دو ریٹائرڈ جرنیلوں سے ملاقاتوں کا مختصر احوال ضرور سنا دیتا ہوں۔ اس کے بعد جنرل(ر) فیض حمید پر ممکنہ مقدمات کے حوالے سے میں جو کچھ آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کی سطور سے اور بین السطور اخذ کر سکا ہوں‘ وہ عرض کردوں گا۔
جنرل اسد درانی 1990ء سے 1993ء تک ڈی جی آئی ایس آئی رہے۔ وہ ایک کثیر المطالعہ شخص تھے۔ مرزا اسد اللہ غالب نے کہا تھا کہ شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے۔ بعض اوقات کتابوں کے عنوانات بھی مصنف کی رسوائی یا مشہوری کا سبب بن جاتے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کے مصنفین میں بھارتی بھی شامل تھے۔ اسد درانی کے خلاف فوجی عدالت میں کارروائی ہوئی اور پھر انہیں سزا بھی سنائی گئی‘ تاہم بعد ازاں یہ سزا تبدیل کر دی گئی۔
جنرل درانی 2000ء سے 2002ء تک سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر رہے۔ زیارتوں کیلئے وہ طائف تشریف لائے تو یہاں مجھ سمیت کئی پاکستانی پروفیسروں‘ ڈاکٹروں‘ تاجروں اور عوامی نمائندوں سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ طائف کے کچھ مقدس یادگاری مقامات کی زیارت کیلئے میں انہیں ڈرائیو کرکے لے گیا۔ راستے میں اُن سے بے تکلف بات چیت کا موقع ملا۔ اس گفتگو میں انہوں نے کہا کہ فوج کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے مگر ساتھ ہی یہ اقرار بھی کیا کہ عملاً فوج براہِ راست یا بالواسطہ سیاسی معاملات میں شامل رہتی ہے۔
آئی ایس آئی کے جن دوسرے ڈی جی سے بعد از ریٹائرمنٹ ہماری یاد اللہ تھی وہ جنرل (ر) حمید گل تھے۔ اُن کے ساتھ ہماری ملاقات نہیں بلکہ ملاقاتیں ہوتی رہیں اور آزادانہ تبادلہ خیال بھی ہوتا تھا۔ جنرل صاحب مخاطب کی بات بغور سنتے اور پھر اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے۔ جنرل حمید گل جہادِ افغانستان کے دوران مجاہدین اور پاک فوج کے درمیان نہایت مضبوط رابطہ تھے۔ مجاہدین اور طالبان اُن کا بہت احترام کرتے تھے۔ حمید گل سرگودھا کے جم پل تھے۔ 2012ء میں یہ خاکسار یونیورسٹی آف سرگودھا میں پروفیسر تھا۔ اس دوران جنرل صاحب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری کی دعوت پر وہاں تشریف لائے تھے۔ انہوں نے یونیورسٹی ہال میں طلبہ اور اساتذہ سے پاکستان کی فوجی و سیاسی تاریخ کے حوالوں سے نہایت فکر انگیز اور ایمان افروز خطاب کیا۔
یوم آزادی سے دو روز قبل پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کی طرف سے یہ بریکنگ نیوز جاری کی گئی کہ جنرل(ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ خبر کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں‘ البتہ قارئین کو اتنا یاد کرانا ضروری ہے کہ اُن کی گرفتاری 2017ء میں ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سکیم اسلام آباد کے مالک کی طرف سے درج کرائی گئی شکایت کے حوالے سے عمل میں لائی گئی ہے۔ آئی ایس پی آر کی خبر کے مطابق یہ کارروائی سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل میں کی گئی ہے۔
بعض سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ جنرل فیض حمید کو ایک سیاسی جماعت کی طرفداری کرنے کی بنا پر فوجی تحویل میں لیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ 2018ء تک بانی پی ٹی آئی کیلئے شہرِ اقتدار کے دروازے وا کرنے کیلئے جو کوششیں کی گئیں وہ انفرادی نہیں اجتماعی نوعیت کی تھیں۔ البتہ دورانِ اقتدار عمران خان اور فوجی قیادتوں کے مابین رابطوں میں جنرل فیض حمید ایک طرف کچھ کہتے اور دوسری طرف کچھ اور۔ اس سلسلے میں بھی بعض باتیں ثبوتوں کے ساتھ طشت ازبام ہو گئی ہیں۔
جاہ و منصب کی خواہش اور فوج میں ٹاپ پر پہنچنے کی تمنا ہر افسر اور جرنیل میں موجود ہوتی ہے مگر جنرل فیض حمید میں یہ خواہش ہوسِ جاہ میں تبدیل ہو گئی تھی۔ ہوس خواہش کا وہ نقطۂ عروج ہوتا ہے جو اپنے ہدف کے حصول کیلئے ہر طرح کی کارروائی روا سمجھتا ہے۔
لگتا یوں ہے کہ فوج کے اندر رہتے ہوئے جنرل (ر) فیض حمید کی سول اور عسکری قیادتوں اور اعلیٰ فوجی افسران کے درمیان غلط فہمیاں اور دوریاں پیدا کرنے میں موصوف کے دہرے کردار اور ہوسِ جاہ کی تکمیل کیلئے درپردہ کارروائیوں کو بھی کسی حد تک نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ غالباً اسی لیے فوج سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد فیض حمید کے خلاف فوری طور پر کوئی تادیبی و احتسابی کارروائی نہ کی گئی۔ اس تاخیر کا ایک سبب تو ٹاپ سٹی کیس کی انکوائری رپورٹ کا انتظار بھی تھا مگر آئی ایس پی آر کے 12اگست والے بیان کا یہ حصہ قابلِ غور ہے۔ یہ وہ سطور ہیں کہ جن کے اندر کئی سوالوں کا جواب پنہاں ہے۔ ''آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے خلاف ریٹائرمنٹ کے بعد متعدد مواقع پر پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے واقعات بھی ثابت ہوئے‘‘۔
ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ تک ریٹائرڈ جنرل صاحب خاموش رہے اور پھر ان کے سابق حکمران اور حال جیل کے مکین کے ساتھ رابطے بحال ہو گئے۔ ان رابطوں کے بارے میں فوجی ترجمان کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان کے آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کی تصدیق ہوئی ہے۔ ''آرمی ایکٹ‘‘ کیا ہے؟ اس کی تفصیلات تو ہمیں معلوم نہیں مگر بادی النظر میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کوئی عام شہری یا سابق فوجی افسر اپنی فوج یا فوجی قیادت کے خلاف کسی کارروائی میں شامل ہو گا تو اسے فوج کے خلاف سازش گردانا جائے گا۔ 15اگست کو یہ بین السطور بات کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق بانی پی ٹی آئی کے جنرل(ر) فیض حمید کے ساتھ رابطوں کی تفصیلی تفتیش کیلئے دو ریٹائرڈ بریگیڈیئرز اور ایک ریٹائرڈ کرنل کو بھی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ اس سے پہلے اڈیالہ جیل کے ایک ڈپٹی اور ایک اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ ہونے کے باوجود جنرل(ر) فیض حمید کو اتنا تو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ اُن کی نقل و حرکت اور اُن سے ملنے والوں کی آمد و رفت کی کڑی نگرانی کی جا رہی ہوگی۔ فوجی نظام اور اس کی داخلی خود احتسابی کے طریق کار سے آگہی رکھنے والے بعض ریٹائرڈ فوجی افسران کا کہنا ہے کہ فوج کا احتساب میرٹ پر ہوتا ہے اور کسی کو ناحق سزا دی جاتی ہے اور نہ کسی سے ناروا رو رعایت برتی جاتی ہے۔ آئی ایس آئی کے ایک سابق ڈائریکٹر جنرل اسد درانی اب ایک مصنف‘ مقرر اور تجزیہ کار کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ فوج کو اب لوگوں کو اقتدار میں لانے اور انہیں گھر بھیجنے کے کام سے دست کش ہو جانا چاہیے۔ جنرل (ر) اسد درانی نے ایک گہری بات کہی ہے کہ بعض لوگ تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی تاریخ خود بنائیں گے۔ اس طالب علم کی رائے میں تاریخ بنانے والے اس ایڈونچر کے جال میں خود پھنس جاتے ہیں۔ غالباً جنرل(ر) فیض حمید کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ فیض حمید کے فوجی احتساب میں وہی سبق ہے جو آقائے دو جہاں نے اس حدیث پاک میں دیا ہے کہ خود احتسابی سے کام لو اس سے قبل کہ تمہارا احتساب کیا جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں