غزہ‘ عدالتوں پر تنقید اور یومِ آزادی

ان دنوں بیچارے مظلوم فلسطینی ایک وادیٔ موت سے دوسری وادیٔ موت کی طرف لٹے پٹے بھاگتے ہیں۔ ایک جگہ ان پر بموں کی بارش کی صورت میں دردناک موت مسلط کر دی جاتی ہے تو موت کے منہ سے بچ جانے والے کسی دوسری جائے پناہ کی تلاش میں گرتے پڑتے چلے جاتے ہیں۔ وہاں ابھی وہ سانس بھی نہیں لے پاتے تو پھر سفاک قاتل وہاں بھی پہنچ جاتے ہیں۔
غزہ سٹی میں التابعین سکول میں قائم پناہ گزین کیمپ ہے۔ ہفتے کے روز علی الصباح وہاں فلسطینی نمازِ فجر ادا کر رہے تھے جب ان پر اسرائیل نے ہزاروں پاؤنڈ وزنی بم گرائے۔ زندہ انسانوں کے جسموں کے پرخچے اڑ گئے۔ 110 نمازی شہید ہو گئے۔ اوپر کے فلور پر موجود خواتین اور بچے زندہ جل گئے۔ یہ امریکی ساختہ بم تھے۔ اتوار کی شام اسرائیلی طیاروں نے خان یونس پر بمباری کی اور ساتھ ہی فضا سے یہ پرچیاں بھی گرائیں کہ راتوں رات یہاں سے نکل جاؤ ورنہ مارے جاؤ گے۔ 25 لاکھ اہلِ غزہ ٹریپ ہو چکے ہیں۔ ایک طرف سمندر ہے دوسری طرف صحرائے سینا ہے اور اوپر سے ہر وقت موسلادھار برستی ہوئی آتش و آہن کی بارش ہے۔
کہاں ہیں کہاں ہیں‘ ثنا خوانِ تہذیبِ مغرب کہاں ہیں؟ اپنے تئیں انسانی حقوق کے چیمپئن کہاں ہیں۔ امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو اندھی حمایت حاصل ہے۔ پونے دو ارب کی مسلم آبادی گزشتہ دس ماہ سے اپنے مسلمان بھائی بہنوں کے ساتھ یہ ظلمِ عظیم ہوتا دیکھ رہی ہے اور ڈری سہمی ہوئی ہے۔ ان 57اسلامی ممالک میں ڈالروں کے حساب سے بعض کھرب پتی بھی ہیں‘ بڑی بڑی فوجوں والے ممالک بھی ہیں حتیٰ کہ ان میں سے ایک تو ایٹمی قوت بھی ہے۔ مگر ان سب مسلمان قیادتوں کی حالت ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ امتِ مسلمہ کیلئے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ امریکہ کی سرپرستی میں اسرائیل اہلِ غزہ کی بچی کھچی آبادی کی مکمل نسل کشی پر تلا ہوا ہے اور اس وقت تک وہ سیز فائر کی طرف نہیں آنا چاہتا جب تک کہ ان فرزندانِ حریت کا (اللہ نہ کرے) خاتمہ نہیں کر دیتا۔ کئی دہائیوں سے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلق رکھنے والے عرب ممالک کم از کم اسے جنگ بندی پر تو آمادہ کریں۔ جن جن مسلم ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں وہ اپنے تعلقات منقطع یا معطل کریں کیونکہ یہی اضعف الایمان ہے۔ چند روز قبل اسلامی وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس جدہ میں منعقد ہوا مگر اس میں بے جان سی قرارداد منظور کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے۔
اوپر عنوان میں دیے گئے تینوں موضوعات اتنے اہم ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی مؤخر نہیں کیا جا سکتا تھا۔ 12جولائی کو پارٹیوں کی اضافی سیٹوں کے بارے میں جاری ہونے والے سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے پر پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز صاحبہ نے گرم گفتاری کی آخری حدوں کو چھو لیا اور اس غیظ و غضب میں انہوں نے عدالتی تقدس اور احترام کو بھی ملحوظ خاطر نہ رکھا۔ گویا یہ پارٹی پالیسی کا اعلان کیا جا رہا تھا۔ اس کے بعد تو اس پارٹی لائن کو فالو کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ وزیر پٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک فیصلے پر شدید تنقید کرتے ہوئے طنزیہ طور پر یہاں تک کہہ گئے کہ عدلیہ پارلیمان سے قانون سازی کا اختیار بھی واپس لے لے۔ ڈاکٹر صاحب کو اتنا تو معلوم ہونا چاہیے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کیلئے لامحدود آزادی حاصل نہیں‘ اس کیلئے آئین میں ہی کچھ حدود و قیود طے کر دی گئی ہیں‘ ان سے ماورا کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔ پارٹی کے ایک سینئر رہنما رانا ثنا اللہ فرماتے ہیں کہ پارلیمنٹ جو قانون بنائے گی‘ عدالتیں اس کے مطابق فیصلہ کریں گی۔ آگے فرماتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے جج کا کام تقاریر کرنا نہیں کہ اپنا مؤقف پیش کرے۔ رانا صاحب ماشاء اللہ خود قانون کے طالب علم ہیں‘ کیا انہوں نے عدلیہ کے ماتھے کے ایک چمکدار جھومر ایم آر کیانی کے بارے میں نہیں سنا کہ وہ فیصلے بھی کرتے تھے اور تقاریر بھی کرتے تھے۔ ان کی جرأتِ گویائی اور شگفتہ بیانی پر مشتمل تقاریر تین انگریزی اور ایک اردو کتاب ''افکارِ پریشاں‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ جب صدر ایوب خان کے مارشل لاء کے ابتدائی زمانے میں ہر طرف ہُو کا عالم تھا اور گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان آف کالا باغ کے جاہ و جلال کی ہیبت طاری تھی‘ اس وقت جسٹس ایم آر کیانی نے ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ پہلی حکومتوں نے تو قوم کو صرف سبز باغ دکھائے تھے اس حکومت نے اسے کالا باغ بھی دکھا دیا۔
مجھے دو شخصیات کی عدالتِ عظمیٰ پر شدید تنقید پر بہت حیرت ہوئی۔ ایک تو چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور دوسرے جناب عرفان صدیقی۔ میرے انتہائی واجب الاحترام صدیقِ مکرم جناب عرفان صدیقی کی عدالتِ عظمیٰ کے خلاف پیہم جنگ جویانہ تنقید مسلسل باعثِ حیرت ہے۔ تفصیلات نظر انداز کرتے ہوئے میں ان کی اجازت سے صرف دو سوالات پوچھنے کی جسارت کروں گا۔ پہلا تو یہ کہ اگر عدالتِ عظمیٰ ریویو پٹیشن میں اپنا 12 جولائی کا فیصلہ برقرار رکھتی ہے اور اس نکتے کو قبول نہیں کرتی کہ ان کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے‘ نیز وہ یہ فیصلہ بھی صادر کر دیتی ہے کہ اس فیصلے کے بعد پارلیمنٹ کی کی گئی قانون سازی بھی آئین کی روح کے منافی ہے تو اس صورت میں پارلیمنٹ کا ردِعمل کیا ہوگا؟ کون یہ فیصلہ کرے گا کہ عدالتی فیصلہ اور پارلیمانی قانون سازی آئین کے مطابق ہے یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ بھی سپریم کورٹ کے عزت مآب جج صاحبان ہی کریں گے ۔
پیر کے روز سپریم کورٹ نے( ن) لیگ کے تین امیدواروں کی اسمبلی رکنیت بحال کر دی ہے۔ اب پی ٹی آئی والے سپریم کورٹ پر تنقید کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس کے خلاف فیصلہ آئے گا وہ عدالتِ عظمیٰ کو نشانۂ تنقید بنائے گا۔ سوال یہ ہے کہ بالفرض کسی نکتہ آفرینی یا قانونی سقم کی بنا پر یہ ثابت بھی کر دیا جائے کہ یہ سیٹیں پی ٹی آئی کو نہیں مل سکتیں تو کیا پی ٹی آئی کی سیٹوں کے مال غنیمت پر کسی قانونی و اخلاقی ضابطے کے تحت (ن) لیگ اور دوسری اتحادی جماعتیں قبضہ جما سکتی ہیں؟ ''مالِ غنیمت‘‘ کی اس شاخِ نازک پر جو آشیانہ بنے گا وہ کتنا ناپائیدار ہوگا۔
شاید عرفان صدیقی صاحب اس طالب علم سے اتفاق کریں گے کہ:
شکارِ مردہ سزاوارِ شہباز نہیں
آج 14اگست ہے۔ تمام اہلِ پاکستان کو 77واں یوم آزادی مبارک ہو۔ اس خوشی کے موقع پر ربِ ذوالجلال نے ارشد ندیم کے گولڈ میڈل کی صورت میں ساری قوم کو زبردست مسرت و شادمانی سے سرشار کیا ہے۔
یوم آزادی کے موقع پر میں اپنے سمیت قوم سے صرف ایک سوال پوچھتا ہوں کہ کیا یہ وہ پاکستان ہے جس کا خواب علامہ اقبالؒ نے دیکھا تھا اور جس کی تعبیر بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 14اگست 1947ء کو ساری دنیا کے سامنے پیش کر دی تھی؟ ہرگز یہ وہ پاکستان نہیں۔ قائد کے پاکستان میں قانون کی بالادستی تھی‘ قائد کے پاکستان میں رشوت ستانی ناپید تھی‘ قائد کے پاکستان میں قول و فعل کا تضاد نہ تھا‘ قائد کے پاکستان میں سچ کا بول بالا تھا۔ اگر آج قائداعظمؒ زندہ ہوتے تو اپنے وطن کا یہ حشر دیکھ کر بہت آزردہ‘ رنجیدہ بلکہ آبدیدہ ہو جاتے۔ شاید اسی لیے ڈاکٹر خورشید رضوی نے کہا تھا:
میں وہ محروم کر پایا نہ زمانہ تیرا
تو وہ خوش بخت کہ جو میرے زمانے میں نہیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں