کتابوں کا قرض

قرض کوئی ایک طرح کا نہیں کئی طرح کا ہوتا ہے۔ مثلاً مال و زر کا قرض‘ مہ و سال کا قرض‘ دیدۂ بینا کا قرض اور نگاہِ یار کا قرض وغیرہ۔ جناب فیض احمد فیض کا حوصلہ قابلِ داد تھا کہ انہوں نے جھٹ سے نگاہِ یار کا قرض چکا دیا۔ وگرنہ اسے چکانا آسان نہیں۔
قرضِ نگاہِ یار ادا کر چکے ہیں ہم
سب کچھ نثارِ راہِ وفا کر چکے ہیں ہم
اب دیکھئے افتخار عارف قرضِ مہ و سال کی عدم ادائیگی پر کتنے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
ابھی سے برف اُلجھنے لگی ہے بالوں سے
ابھی تو قرضِ مہ و سال بھی اُتارا نہیں
میں کتابوں کا مقروض ہوں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران جو کتابیں میری سٹڈی میں جمع ہو گئی ہیں بلامبالغہ اُن میں سے ہر کتاب تاریخ‘ حکمت‘ ادب و سیاست اور ذاتی زندگی کے انتہائی محیر العقول واقعات کا خزانہ ہے۔ ریزہ ریزہ کاموں میں شب و روز اُلجھنے اور روزمرہ کے موضوعات پر خامہ فرسائی کرنے کے باوجود میں ان خزانوں سے گاہے گاہے فیض یاب اور لطف اندوز تو ہوتا رہا ہوں مگر قارئین کو یہ خبر نہیں دے سکا کہ کیسے کیسے علم و ادب کے موتی علامہ عبدالستار عاصم نے جمع کر کے ذوقِ مطالعہ رکھنے والوں کی ضیافتِ طبع کے لیے پیش کر دیے ہیں۔ آج کے کالم میں زیر نظر چار کتابوں کا ایک اجمالی تعارف ہی کروا سکوں گا۔ تفصیل ان شاء اللہ پھر کبھی۔
ابتدا بزرگ صحافی جناب محمود شام کی کتاب ''روبرو‘‘ سے کرتے ہیں۔ یہ کتاب نوجوان اخبار نویس محمود شام کے سیاسی رہنماؤں سے 1970ء کی دہائی کے دوران کیے گئے انٹرویوز کا انتخاب ہے۔ آج کے بزرگ صحافی شام صاحب شدتِ احساس اور سارے جہان کا درد اپنے جگر میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ وہ صرف صاحبِ نظر اور صاحبِ بصیرت صحافی ہی نہیں بلکہ خوبصورت نثر لکھنے والے ادیب اور صاحبِ طرز شاعر بھی ہیں۔ محمود شام لکھتے ہیں ''1969ء میں 29سال کی عمر میں مشرقی و مغربی پاکستان کے قائدین سے میں نے ایک ہی طرح کے دس سوالات پوچھے تھے۔ سب بہت خلوص سے ملے تھے۔ ڈھاکہ کی گلیاں‘ موتی جھیل‘ پلٹن میدان یاد ہیں۔ کراچی کا 70 کلفٹن‘ چار سدہ اور ایبٹ آباد سب اپنی جگہ موجود ہیں۔ اُس وقت قائدین کی آنکھوں میں احساسِ زیاں جھلکتا تھا۔ اب تو قائدین رہے ہی نہیں۔ پارٹیاں خاندانی کمپنیاں بن چکی ہیں۔ شہزادے شہزادیاں اُتاری جا رہی ہیں‘‘۔ اس کتاب میں 1970ء کی دہائی کے تقریباً ہر سیاسی و مذہبی لیڈر کے ساتھ شام صاحب کی بے تکلف ملاقات کا احوال نہایت دلچسپ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ کتاب میں ذوالفقار علی بھٹو‘ خان عبدالقیوم خان‘ شیخ مجیب الرحمن‘ مولوی فرید احمد‘ پروفیسر غلام اعظم‘ میاں طفیل محمد‘ بے نظیر بھٹو‘ کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ وغیرہ سے وہی دس سوالات پوچھے گئے تھے۔ ان قائدین کرام کے جوابات سے آپ اتفاق فرمائیں یا نہیں‘ مگر ہر جواب فکر انگیز ضرور ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ ہر پڑھے لکھے پاکستانی کے لیے بالعموم اور سیاست و تاریخ کے ہر طالب علم کے لیے بالخصوص نہایت ضروری ہے۔
اب آتے ہیں دوسری کتاب کی طرف جو جناب ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے لکھی ہے۔جناب ڈاکٹر زاہد منیر عامر نامور ادیب‘ اعلیٰ پائے کے نثر نگار‘ صاحبِ طرز شاعر‘ اردو ادب کے استاد‘ محقق اور نقاد ہیں۔ اردو ہی نہیں فارسی‘ عربی‘ اطالوی اور ترکی شعر و ادب وغیرہ کے بارے میں ان کی کتابوں کا اگر کالم میں تذکرہ کیا جائے تو کالم کا دامن بھر جائے گا مگر پروفیسر موصوف کی کتابوں کی فہرست مکمل نہ ہو پائے گی۔ بلادِ اسلامیہ اور دیارِ افرنگ کے بارے میں اُن کے کئی سفرنامے ہیں۔ اپنے سفر ناموں میں وہ اپنی خوبصورت نثر نگاری سے ایک طرف ان علاقوں کی خوبصورت تصویر کشی کرتے ہیں تو دوسری طرف وہ محققانہ عرق ریزی اور عالمانہ شان سے اس سرزمین کی تاریخ‘ تہذیب اور ادب و ثقافت کا نہایت دلچسپ پیرائے میں جائزہ بھی پیش کرتے ہیں۔ ان کی زیر نظر کتاب ''مصر‘ خواب اور تعبیر‘‘ انہی صفات کا مرقع ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہیں۔ اکثر سفرنامہ نگار کسی علاقے کا مجمل تذکرہ جبکہ ڈاکٹر صاحب تفصیل بیان کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی کتاب کے اہم موضوعات میں مصر کی تاریخ و تہذیب‘ شعر و ادب‘ تعلیم و تعلم‘ اقبال و مصر‘ جوانانِ مصر اور جامعۃ الازہر شامل ہیں۔ عربی زبان و ادب اور عرب و مسلم ورلڈ کی سب سے بڑی اسلامی تحریک الاخوان المسلمون کے مرکز مصر سے آگاہی کے لیے یہ کتاب ایک لازمی نصاب کی حیثیت رکھتی ہے۔
دوسری جانب اگر آٹو بائیو گرافی‘ جسے اردو میں خود نوشت کہتے ہیں‘ کی بات کی جائے تو یہ ہمیشہ میری پسندیدہ کتب میں سرفہرست رہی ہیں۔ خود نوشتہ ادب میں مشہور مزاحیہ شاعر سیّد سلمان گیلانی کی کتاب ''میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی‘‘ ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ یہ کتاب نہیں ایک مقناطیس ہے۔ اس خود نوشت کو آپ ہاتھ میں لیں گے تو محیر العقول واقعات کی کہکشاں آپ کو اپنے ساتھ ماضی و حال کی دنیاؤں میں لیے لیے پھرتی ہے۔ ایک دینی خانوادے سے تعلق رکھنے والے گیلانی صاحب اپنے والد گرامی سیّد امین گیلانی کے ساتھ لڑکپن سے ہی جلسوں میں شرکت کرتے تھے۔ 1970ء کی دہائی میں دینی و سیاسی تحریکوں میں وہ پیش پیش رہا کرتے تھے۔ ان اجتماعات میں سلمان گیلانی صاحب نعتیں اور قومی ترانے پڑھا کرتے تھے۔ مدینہ منورہ کے سفر کے دوران انہیں خواب میں جگر گوشۂ رسول سیّدہ فاطمہ الزھراؓ کی زیارت ہوئی تھی۔ اس کا بھی تفصیلی تذکرہ ان صفحات میں شامل ہے۔ 511 صفحات کی کتاب پڑھتے ہوئے کہیں بھی آپ کو بوجھل پن کا احساس نہیں ہوتا اور ایسے ایسے حیران کن تاریخی واقعات اور روحانی تجربات پڑھ کر آپ پہروں سر دھنتے ہیں۔ بسم اللہ کیجئے اور گیلانی صاحب کی کتاب ''میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی‘‘ پڑھنا شروع کیجئے۔
بھیرہ ملتان کی طرح پاکستان کا ایک تاریخی شہر ہے۔ اس شہر کی شہرت صرف پرانی تاریخ اور پرانے طرزِ تعمیر کی بنا پر ہی نہیں بلکہ یہ ایک علمی و روحانی مرکز بھی ہے۔ بیسویں صدی کی تین نامور علمی و دینی شخصیات مولانا افتخار احمد بگوی‘ حضرت پیر کرم شاہ اور مولانا گلزار احمد مظاہری اس شہر کی پہچان ہیں۔ بھیرہ ہی کے ایک ہونہار سپوت (1886-1982ء) معروف ریاضی دان اور چیئرمین شعبہ ریاضی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ تھے۔ لاہور کی ایک ممتاز طبی‘ دینی‘ علمی و ادبی شخصیت جناب ڈاکٹر انوار احمد بگوی کا تعلق بھی بھیرہ سے ہے۔ بھیرہ لاہور سے اسلام آباد موٹروے کے وسط میں واقع ہے۔ تاریخی مقامات کے نگران جناب کامران لاشاری بھیرہ کے تاریخی مقامات کو بطور یادگار محفوظ کرنے اور ایک دو جگہوں کو میوزیم بنانے کے کام کا آغاز کر چکے ہیں۔
ڈاکٹر انوار احمد بگوی دینی و علمی خاندانِ بگویہ کے چشم و چراغ ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ تاریخی مسجد شیر شاہ سوری کی نظامت و خطابت کا دینی فریضہ بھی یہی خاندان انجام دے رہا ہے۔ ڈاکٹر بگوی صاحب کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی تازہ کتاب ''قلم کاشتہ!‘‘ ان کے قومی‘ علمی‘ تحقیقی‘ معاشرتی اور تہذیبی نوعیت کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں بہت سی دینی‘ علمی‘ ادبی اور سماجی شخصیات اور ان کی نگارشات و خدمات کا ادبی پیرائے میں نہایت خوبصورت تذکرہ کیا گیا ہے۔ دینی و علمی اور تحقیقی و ادبی ذوق رکھنے والے قارئین کے لیے یہ کتاب ایک نایاب تحفہ ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں