بات ہی کچھ ایسی تھی کہ جس نے غم و غصے کے شدید اظہار کے بعد حکومتی اور اپوزیشن ارکان کو یکجا کر دیا۔ قومی اسمبلی میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف نے یک زباں پی ٹی آئی رہنماؤں کی پارلیمنٹ کے اندر سے گرفتاری کی پُرزور مذمت کی اور اسے پارلیمنٹ پر حملہ قرار دے دیا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ایوان کے وقار پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔اب تو سردار ایاز صادق نے یہ بھی کہہ دیا کہ سوچنا پڑے گا کہ عہدہ رکھوں یا چھوڑ دوں۔پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی علی محمد خان نے ایوان میں ایک پُرجوش تقریر کی اور پارلیمنٹ کے اندر روشنیاں گل کر کے صبح کاذب کے وقت ارکانِ اسمبلی کو اٹھانے کی پُر زور مذمت کی ۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری نے بھی پارلیمنٹ کے اندر سے کی گئی گرفتاریوں پر شدید تنقید کی۔ 12 ستمبر کو مولانا فضل الرحمن نے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں کہا کہ احتجاجاً تین روز کے لیے اسمبلی بند کر دینی چاہیے۔ حکومتی پارٹی کے اکثر ارکان گم سم دکھائی دیے البتہ خواجہ آصف نے پارلیمنٹ کے تقدس کی پامالی کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے۔
سپیکر قومی اسمبلی نے چارٹر آف ڈیموکریسی کی تجویز کے تحت 18 رکنی خصوصی کمیٹی قائم کر دی ہے۔12 ستمبر کو اس کمیٹی کا پہلا اجلاس بھی ہو گیا ہے جس میں خورشید شاہ کو متفقہ طور پر اس کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا ہے۔اس کمیٹی کے ایک رکن نے ہمیں بتایا کہ مولانا فضل الرحمن کمیٹی کے رکن نہیں مگر سپیکر کی خصوصی درخواست پر وہ اس ابتدائی اجلاس میں شریک ہوئے۔ مولانا نے کے پی اور بلوچستان کے حالات کو بہت تشویشناک قرار دیا ہے۔ دیگر ارکانِ کمیٹی نے ان نازک حالات میں قومی مفاہمت کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا ہے۔ کمیٹی کے ایک رکن حامد رضا نے پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر سے اپنی گرفتاری کا احوال بھی سنایا جس پر سب ارکان نے اظہارِ تاسف کیا۔ پی ٹی آئی کے ان ارکانِ اسمبلی کو گراؤنڈ فلور پر واقع مسجد سے لے کر تھرڈ فلور تک سے حراست میں لیا گیا۔دیکھئے حالات کو سنبھالنے کی بڑی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے‘تاہم قومی اسمبلی کے اندر طرفین کو احتیاط سے کام لینا چاہیے اورتحریک انصاف کو چاہیے کہ علی امین گنڈا پور کی گرم گفتاری اور شعلہ بیانی کو کنٹرول کرے کیونکہ یہ پارٹی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔
تحریک انصاف کے سنگجانی جلسے سے قبل نہایت جلد بازی میں جلسے جلسوں کے بارے میں ایک متنازع قانون سازی کی گئی اور طرح طرح کی نئی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ بہرحال کمیٹی کے اس پہلے اجلاس میں اکثر ممبران نے اپنے اپنے اختلافات بھلا کر ایوان کا تقدس بحال کرنے کیلئے مثبت جذبات کے ساتھ ایک چھت تلے اکٹھے ہونے کا خیرمقدم کیا۔ البتہ کمیٹی اجلاس میں تازہ ترین مسئلے پر فوکس کرنے کے بجائے خواجہ آصف گڑے مردے اکھاڑتے رہے۔ ایک موقع پر وہ شدتِ جذبات سے مغلوب ہو کر ایوان سے واک آؤٹ بھی کر گئے مگر محمود اچکزئی سمیت کئی ممبران انہیں منا کر واپس اجلاس میں لے آئے۔ خواجہ صاحب کے ایک ساتھی رکنِ کمیٹی نے مجھے بتایا کہ خواجہ صاحب کے بہت سے دوستوں کی رائے یہ ہے کہ ان دنوں بات بات پر وہ جس طرح جذباتی ہو جاتے ہیں اس سے تو لگتا ہے کہ اُن کا بلڈ پریشر آؤٹ آف کنٹرول ہے۔ بہرحال اس مثبت ورکنگ ریلیشن شپ کیلئے اٹھائے گئے پہلے قدم کا ہم نعمان شوق کے الفاظ میں یوں خیرمقدم کرتے ہیں:
تم اپنا پہلا قدم تو بڑھاؤ بسم اللہ
خدا سنبھالنے والا ہے جاؤ بسم اللہ
گزشتہ کئی ہفتوں سے کچھ آئینی ترامیم کا ایک پیکیج لانے کیلئے حکومت اندر ہی اندر تیاری کر رہی ہے۔ دوتہائی اکثریت کے تمام تر حکومتی دعووں کے باوجود ابھی تک مطلوبہ تعداد اُن سے مینج نہیں ہو سکی۔ بطورِ خاص سینیٹ میں جوڑ توڑ اور لین دین کی خبریں بھی اسلام آباد کے حلقوں میں گردش کر رہی ہیں مگر یہاں لاہور بیٹھ کر اُن کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ اعلیٰ عدالتوں کے ضمن میں خفیہ ترمیمی پیکیج کی کچھ کچھ نقاب کشائی ہو رہی ہے۔ اب تک بعض ذرائع سے یہ معلوم ہوا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 179 کے مطابق سپریم کورٹ کا جج 65 برس تک عہدے پر برقرار رہ سکتا ہے۔حکومت عمر کی اس حد کو بڑھا کر 68 سال کرنا چاہتی ہے۔
اسی طرح حکومت ہائیکورٹ کے جسٹس کی عمر کی حد کو 62 برس سے بڑھا کر 65 برس کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ بعض اسمبلی کے ذمہ دار ذرائع سے یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ اس ترمیمی پیکیج میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ ججوں کی تقرری‘ اُن کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر وغیرہ میں بھی انتظامیہ کو فیصلہ کن اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حکومت سب سے بڑی عدالتی تبدیلی یہ کرنا چاہتی ہے کہ سپریم کورٹ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصے کو دستوری فیڈرل کورٹ اور دوسرے حصے کو عام جرائم کے مقدمات کیلئے سپریم کورٹ رہنے دیا جائے۔ دونوں کے چیف جسٹس الگ الگ ہوں گے۔ درونِ خانہ اس تقسیم کے مقاصد تو اہلِ مصلحت کو معلوم ہوں گے مگر بادی النظر میں دو بڑی عدالتوں کیلئے اس شاہ خرچی کے وسائل کہاں سے آئیں گے؟ اسی لیے مولانا فضل الرحمن نے جمعرات کے روز اسمبلی کے فلور پر کہا ہے کہ اداروں میں ایکسٹینشن کا عمل غلط ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ جے یو آئی نے اپنے ارکانِ اسمبلی و سینیٹ کو ان ترامیم کے لیے ووٹنگ میں حصہ لینے سے روک دیا ہے۔
ان مجوزہ ترامیم کی تفصیلات تو اُس وقت سامنے آئیں گی جب بلی مکمل طور پر تھیلے سے باہر آجائے گی۔ بہرحال یہ امر افسوسناک ہے کہ وسیع تر جمہوری و عدالتی تقاضوں کو نظر انداز کر کے حکومت محض وقتی و شخصی ضرورتوں کے تحت آئین میں ترمیم اور عدالتی نظام سے چھیڑ چھاڑ کر رہی ہے۔ اگر یہ ترامیم قومی مفادات کی آئینہ دار ہیں تو پھر حکومت اپوزیشن کو بھی آن بورڈ لے تاکہ ہر طرح کے شکوک و شبہات دور ہو سکیں اور دوتہائی اکثریت بھی حسبِ ضرورت مل سکے۔مدتوں سے مولانا فضل الرحمن جو بات کرتے ہیں وہ ''آئین کے تناظر میں‘‘ کرتے ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے اسلام آباد میں اُن کے دولت کدے پر حکمران اور اپوزیشن قائدین حاضر ہوتے رہے ہیں۔ حکومت مولانا کے ارکانِ اسمبلی کے ووٹوں سے دوتہائی اکثریت لے کر اپنے نمبر پورے کرنے کا خواب اپنے دل میں سجائے ہوئے تھی۔ جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے وہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جمعیت علمائے اسلام کے پارلیمانی وزن کو اپنے پلڑے میں ڈال کر اعلیٰ عدالتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کی جانے والی ترامیم کا راستہ روکنا چاہتی ہے۔ چند روز پہلے تک تو مولانا کے ذومعنی جملوں سے کوئی اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ یہ پروانہ حکومت کی طرف جائے گا یا اپوزیشن کی طرف آئے گا تاہم بدھ کے روز مولانا نے دو ٹوک انداز میں بیان دیا کہ وہ اپوزیشن کا حصہ ہیں اور آئین و جمہوریت سے متصادم قانون سازی کی حمایت نہیں کریں گے۔لگتا یوں ہے کہ پارلیمنٹ پر گرفتاریوں کے لیے سفید پوشوں کے حملے کے بعد مولانا ان آئینی ترامیم کی مخالفت کرنے کیلئے یکسو ہو گئے ہیں۔
ملک کو اس وقت کثیر الجہات بحران درپیش ہے۔ ایک طرف خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں امنِ عامہ کی مخدوش صورتحال ہے۔ دوسری طرف سیاسی بے چینی بڑھ رہی ہے اور تیسری طرف تمام تر حکومتی دعووں کے باوجود دس کروڑ سے زائد پاکستانی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان حالات میں حکومت نیک نیتی کے ساتھ پی ٹی آئی کی طرف سے اٹھائے گئے پہلے مفاہمتی قدم کا خیر مقدم کرے۔