مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی رہائش گاہ 5-A ذیلدار پارک لاہور کا ایک بڑا حصہ اب سید مودودی میموریل کہلاتا ہے۔ یہ مرکزِ علم و تحقیق اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے جس کا افتتاح مستقبل قریب میں افادۂ خاص و عام کے لیے ہونے والا ہے۔
آٹھ ستمبر کی شام اس اعتبار سے یادگار بن گئی کہ اس کی خنک گھڑیوں میں مولانا محترم کا ذکرِ خیر ہوا۔ جناب مجیب الرحمن شامی کی مولانا سے طویل نیاز مندی کا سلسلہ دو دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے بڑے یقین سے کہا کہ محفوظ ہیں سب یادیں اور یاد ہیں سب باتیں۔ حاضرین کے ساتھ اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے انہوں نے 54 برس قبل 18 جنوری 1970ء کے اس جلسۂ عام کا آنکھوں دیکھا احوال مختصراً بیان کیا جس جلسے پر عوامی لیگ نے منظم حملہ کرکے جماعت کے تین کارکنوں کو شہید‘ سینکڑوں کو زخمی اور متعدد کو لاپتا کر دیا تھا اور مولانا مودودیؒ کو جلسۂ عام میں پہلی انتخابی تقریر نہیں کرنے دی گئی تھی۔ اُس روز کی مزید جھلکیاں دکھانے سے پہلے میں آپ کو اسی پلٹن میدان کے چھ برس قبل کے چند مناظر دکھاتا ہوں۔
والد گرامی مولانا گلزار احمد مظاہری اپنی ڈائری میں تحریر فرماتے ہیں: آج 27 نومبر 1964ء ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی معیت میں مشرقی پاکستان کا پروگرام ہے۔ آج اڑھائی بجے دوپہر لاہور سے ہماری پرواز اُڑی۔ ہمارا جہاز 38 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتا ہوا جب مشرقی پاکستان میں داخل ہوا تو نیچے دریا اور سبزہ دلکش منظر پیش کر رہے تھے۔ ہم مشرقی پاکستان کے وقت کے مطابق ساڑھے پانچ بجے ڈھاکہ پہنچ گئے۔ ایئر پورٹ پر ہزاروں افراد مولانا کے استقبال کے لیے جمع ہیں۔ ہوائی اڈے کی چھتیں بھی عوام سے بھری ہوئی ہیں۔ فلک شگاف نعرے لگ رہے ہیں۔ یہ مناظر بڑے دل خوش کن ہیں۔
مولانا گلزار احمد مظاہری مزید براں 29 نومبر 1964ء کو اپنی ڈائری میں تحریر فرماتے ہیں: آج ڈھاکہ کا جلسۂ عام تھا۔ میں مقامی ذمہ داران کے ہمراہ جلسہ کے انتظامات کا جائزہ لینے پلٹن میدان پہنچا۔ ٹھیک چار بجے مقررہ وقت پر جلسہ کی کارروائی کا آغاز ہوا۔ تقریباً 25 ہزار کی حاضری ہو گی۔ چند منٹ میرا خطاب ہوا۔ مولانا محترم کی تقریر بڑی خاموشی اور سنجیدگی سے سنی گئی۔ مولانا 15 منٹ تقریر کرتے تھے‘ پھر پروفیسر غلام اعظم صاحب اس کا بنگلہ میں ترجمہ کرتے تھے۔ یاد رہے کہ یہ دورہ ایوب خان اور مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی انتخاب سے چند ہفتے قبل ہو رہا تھا۔ اُس وقت تک ایوب خان ہی برسراقتدار تھے‘ تاہم جلسے میں حکومت کی طرف سے کسی طرح کی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔ دینی مزاج اور اسلام پسند بنگالی عوام نے مولانا مودودیؒ کا جگہ جگہ پُرتپاک خیرمقدم کیا۔ جماعت کی مخالف سیاسی جماعتوں نے اظہارِ اختلاف تو کیا مگر کہیں پر بنگالی تعصب اور تشدد کا مظاہرہ دیکھنے میں نہ آیا۔ ہمارے بنگالی بھائیوں کی اکثریت مادرِ ملت کی حامی تھی۔ چھ برس کے بعد وہی جماعت اسلامی‘ وہی مولانا مودودیؒ مگر اب ان کے مخالفوں کے دلوں میں بنگالی تعصبات کے الاؤ بھڑکا دیے گئے۔ مجیب الرحمن شامی نے 18 جنوری 1970ء کو پلٹن میدان میں اپنی آنکھوں سے جو خونچکاں مناظر دیکھے وہ انہوں نے ہفت روزہ زندگی میں 2 فروری 1970ء کو ایک طویل چشم دید رپورٹ میں اپنے تجزیے کے ساتھ بعنوان ''میں کیسے بھول جاؤں؟‘‘ میں قلم بند کیے تھے۔
شامی صاحب کے زبانی و تحریری بیان کے مطابق: جماعت اسلامی کے جلسے سے صرف ایک ہفتہ قبل عوامی لیگ کا پلٹن میدان میں جلسہ منعقد ہوا جس میں شیخ مجیب الرحمن نے مولانا مودودیؒ سمیت مغربی پاکستان کے ''آقاؤں‘‘ کے خلاف بہت زہر اُگلا۔ جماعت اسلامی کا 18 جنوری 1970ء کا جلسہ ٹھیک تین بجے پلٹن میدان میں پروفیسر غلام اعظم کی صدارت میں شروع ہو گیا۔ تین بج کر 20 منٹ پر جلسہ گاہ میں تھوڑا سا شور برپا ہوا اور کچھ لوگوں نے جلسہ گاہ میں بھاگو بھاگو کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ ساڑھے تین بجے کے قریب ایک صاحب نے مجھے کہا کہ آپ نے دیکھا ہے کہ وہ چاقو لہرا رہے ہیں‘ چند ہی لمحے بعد جماعت کے حامی ایک نوجوان کو اٹھا کر لایا گیا۔ اس کے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔ اسے مسجد کے پاس لٹا دیا گیا۔ اس کے بعد تو زخمیوں کا تانتا بندھ گیا۔ جلسے کے منتظمین نے بینروں کے ڈنڈے بنا لیے اور ان سے حملہ آوروں کو روکنے کی کوشش کی۔ یہ حملے قدرے پسپا ہوئے تو حاضرین نے نمازِ عصر کے لیے پلٹن میدان میں ہی صفیں درست کر لیں۔ پتھروں کی بارش میں نماز ادا ہوئی۔ اسی دوران حملہ آور دوبارہ سٹیڈیم کے گیٹ سے اندر گھس آئے۔ اس دوران پولیس آ گئی۔ پولیس چند لمحے وہاںرکی اور پھر اس نے شرپسندوں کو اندر آنے کا راستہ دے دیا۔ اسی دوران سینکڑوں شرپسند اندر گھس آئے اور انہوں نے لوگوں کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ حملہ آوروں نے باہر نکلنے کے تمام راستے مسدود کر دیے اور سٹیج پر قبضہ کر لیا۔ اس دوران پولیس دور سے تماشا دیکھتی رہی۔ جماعت کے کارکنان پلٹن میدان کی دیواریں پھلانگ کر اپنی جانیں بچاتے رہے۔ مولانا مودودیؒ نے سوا چار بجے تقریر کرنی تھی‘ لیکن وہ جلسہ گاہ پہنچ ہی نہ سکے۔ وہ سڑکوں پر راستے تلاش کرتے رہے‘ جو بند کر دی گئی تھیں۔
آپ نے پلٹن میدان کے دو مناظر دیکھے۔ یہاں پوچھنے والے کئی سوالات ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ 1964ء سے لے کر 1970ء تک کے چھ برسوں میں بنگالی عصبیت کا زہر ہمارے مشرقی پاکستانی بھائیوں کے جسموں میں اُتارا جاتا رہا اور مغربی یا مشرقی پاکستان کہیں بھی ہمارے حکمرانوں‘ سیاست دانوں‘ اختیاراتِ کلی کی مالک مقتدرہ‘ باخبر صحافیوں‘ تجزیہ کاروں اور دانشوروں کو خبر ہی نہ ہوئی کہ معاملات کہاں تک پہنچ چکے ہیں۔ مغربی پاکستان کے بعض واجب الاحترام صحافی محبتوں کا زمزم بہاتے رہے اور انہیںکچھ اندازہ نہ ہوا کہ اس ''زمزم‘‘ کی تہہ میں تعصبات کا آتش فشاں دہک رہا ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر مقتدر قوتوں کو ان چھ برسوں کے دوران جسم و جاں میں سرایت کرنے والی زہر ناکی کا اندازہ ہو گیا تھا تو اس کے علاج کے لیے انہوں نے کوئی تریاق کیوں تلاش نہیں کیا تا کہ ملک سکوت ڈھاکہ کے صدمے سے محفوظ رہ سکتا ؟ اسی طرح دور اندیشی اور معاملہ فہمی کی شہرت رکھنے والے نامور سیاستدان بھی مستقبل میں جھانک کر یہ اندازہ نہیں لگا سکے کہ مرض کس حد تک لاعلاج ہو چکا ہے۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ یحییٰ خان اور اس کی حکومت نے شیخ مجیب الرحمن کو مار دھاڑ کے لیے فری ہینڈ کیوں دے رکھا تھا؟
1960ء کی دہائی کے آخر میں ہر طرف تعصبات کے شعلوں کو ہوا دی گئی۔ انتہا پسندی اور تعصبات کی آگ بھڑکانے والے خود اس الاؤ میں جل کر بھسم ہو جاتے ہیں۔ اس آگ میں پہلے بنگا بندھو شیخ مجیب الرحمن جل کر بھسم ہوئے‘ پھر ان کی صاحبزادی سابق وزیراعظم حسینہ واحد نے کوئی سبق حاصل نہ کیا اور وہ بھی مسلسل 15 برس تک انتہا پسندی کے شعلوں کو بھڑکاتی اور ہزاروں کی تعداد میں سیاسی مخالفین کو کٹھ پتلی عدالتوں اور جعلی پولیس مقابلوں میں مرواتی رہی اور جاتے جاتے اس نے لگ بھگ ہزار افراد کو پولیس کے ہاتھوں مروا ڈالا۔ اب حسینہ واجد پر قتل کے مقدمات چلانے کے لیے بنگلہ دیشی حکومت اسے انڈیا سے واپس مانگ رہی ہے۔
ہم سے علیحدگی کے بعد چین سے بنگالی بھائی سوئے ہیں نہ ہم‘ تاہم ہمارا اور ان کا مرض ایک ہی ہے۔ نہ انہیں سچی جمہوریت اور فری اینڈ فیئر انتخابات حاصل ہوئے‘ نہ ہمیں۔ اس منزل کی تلاش میں بنگالی بھائی اور ہم ابھی تک بھٹک رہے ہیں۔