کیا ہم میں سے کسی نے سوچا تھا کہ ہماری زندگیوں میں ایک دن سابق وزیراعظم عمران خان اور اُن کے قابلِ اعتماد ڈی جی آئی ایس آئی اور اپنے دور کے طاقتور جنرل فیض حمید ایک ساتھ قید ہوں گے؟ تین چار سال پہلے تک ان کا طوطی بولتا تھا اور آج دونوں قید میں ہیں۔ جن کے کہنے پر لوگوں کی زندگیوں کے اچھے برے فیصلے ہوتے تھے‘ وہ آج خود اسی صورتحال میں ہیں جس کا شکار وہ دوسروں کو کرتے تھے۔ مجھے تو یقین نہیں آرہا۔
میں کافی دیر سے انگریزی لفظ Ambitious کا اُردو ڈھونڈنے میں لگا ہوا تھا۔ فوری طور پر کوئی ایک لفظ ذہن میں نہیں آرہا تھا۔ آخرکار گوگل کام آیا اور اس نے درجن بھر الفاظ میرے سامنے رکھ دیے کہ یہ لیں جناب۔ حوصلہ مندانہ‘ جاہ طلب‘ خواہش مند‘ بلند حوصلہ‘ اقتدار‘ فراخ حوصلہ‘ بلند نظر‘ اعزاز‘ ناموری‘ عہدے‘ آرزومند‘ مشتاق وغیرہ وغیرہ۔ سوچتا رہا ان میں سے کون سا لفظ اس انگریزی لفظ کی روح کی ترجمانی کرے گا؟ بار بار یہ سب الفاظ پڑھنے کے بعد میری نظریں جا کر جاہ طلب پر رک گئیں۔ مجھے لگا کہ اُردو میں اس سے بہتر لفظ اس انگلش لفظ کی روح کو نہیں سمجھا سکتا۔
جاہ طلب۔ ذرا ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کر کے سکون سے اس لفظ کو بار بار‘ دھیرے دھیرے دہرائیں اور پھر بتائیں کہ آپ کو کیا محسوس ہوا؟ جاہ طلبی کی خواہش ہمیشہ سے ہر انسان کے اندر رہی ہے۔ کسی میں زیادہ تو کسی میں کم‘ لیکن یہ صفت موجود ضرور ہوتی ہے۔ جاہ طلب انسان یا تو بہت ترقی کرتا ہے یا پھانسی لگتا ہے۔ درمیان میں کوئی راستہ نہیں بچتا اس کے لیے۔ تخت یا تختہ۔ اس میں اس انسان کا قصور نہیں‘ اگر وہ جاہ طلب ہے۔ وہ بہت اوپر جانا چاہتا ہے۔ وہ انسانوں پر حکمرانی کرنا چاہتا ہے۔ وہ خود کو اپنے جیسے انسانوں سے بڑا ثابت کرنا چاہتا ہے۔ وہ خود کو دوسروں سے الگ ثابت کرنا چاہتا ہے۔ وہ غیر معمولی انسان کہلوانا چاہتا ہے۔ اسے دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اس جیسا بننا چاہتے ہیں۔ ویسے جاہ طلب ہونا کوئی بری بات نہیں کیونکہ اس خواہش کے بغیر آپ بیکار ہو جاتے ہیں۔ ساری عمر مشکل سے گزرتی ہے۔ آپ روکھی سوکھی کھا کر بھی گزارہ کر لیتے ہیں۔ شاید بہت سے لوگ اسے قناعت پسندی کہیں گے جو صوفی‘ سادھو‘ سنت میں ہوتی ہے جو دنیا چھوڑ کر جنگلوں میں نکل جاتے ہیں کہ اتنی چھوٹی زندگی میں کیا خوشحال زندگی گزارنا یا دوسروں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر قد اونچا کرنا۔ لیکن جاہ طلب انسان الٹا سوچتا ہے کہ چھوٹی سی اس زندگی میں بڑے بڑے کارنامے سرانجام دینے ہیں۔ مرنے کے بعد بھی نام زندہ رہنا چاہیے۔ لوگ بلے بلے کریں۔ واہ واہ کریں۔ بچوں کو ہماری مثالیں دیں۔ ہمارے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھیں۔ وہ تاریخ میں زندہ رہنے کے رومانس میں ہزاروں‘ لاکھوں لوگ مار دیتے ہیں۔ جنگیں لڑتے ہیں۔ دوسروں کے بچوں کو یتیم‘ عورتوں کو بیوہ کرتے یا غلام بنا لیتے ہیں اور ہمارے جیسے لکھاری انہیں تاریخ میں عظیم جنگجو کا ٹائٹل دیتے ہیں۔ تاریخ میں جس نے بھی زیادہ قتل و غارت کی اُسے بڑا جرنیل مانا گیا۔ اس کے نام کے ساتھ لفظ 'Great‘ کا اضافہ کر دیا گیا۔ سائرس اعظم ہو یا سکندر دی گریٹ یا گریٹ مغل یا گریٹ منگول۔ فہرست طویل ہے۔ یہ سب جاہ طلبی کے اسیر تھے۔
آپ بھی حیران ہوں گے کہ آج مجھے یہ سب باتیں یا فلاسفی کیوں یاد آرہی ہے؟ ایسا کیا ہو گیا؟ جاہ طلب والے انسانوں سے ایسا کیا قصور ہو گیا؟ اگرچہ میرا اپنا ماننا ہے کہ جاہ طلب انسان سے تعلق رکھنا فائدہ مند بھی ہے اور نقصان دہ بھی‘ لہٰذا اگر آپ کو ایسا کوئی بندہ اپنے اردگرد نظر آئے تو اس سے تعلق رکھتے وقت دو تین باتوں کو ذہن میں رکھیں۔ ایسے انسان سے تعلق رکھنے کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ ایسا انسان بہت محنت کرتا ہے کیونکہ اس نے اوپر پہنچنا ہوتا ہے یا عہدہ لینا ہوتا ہے۔ اس کے لیے وہ دن رات محنت کرے گا۔ اسے عام لوگوں سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے‘ لہٰذا اس پورے عمل میں اس کے اردگرد کے لوگ اگر اس کی رفتار کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں کہ وہ بھی اس کے ساتھ نظر آئیں تو انہیں بھی بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ یوں جتنی ترقی وہ جاہ طلب انسان کررہا ہے اس سے زیادہ نہیں تو کچھ کم آپ بھی کر رہے ہیں۔ یوں فطری طور پر اس پروفیشن یا فیلڈ میں آپ بھی ترقی کررہے ہیں۔ یہ جاہ طلب انسان سے دوستی یا تعلق کا سب سے بڑا فائدہ ہے۔ وہ اپنے ساتھ ساتھ آپ کو بھی ترقی کراتا چلا جاتا ہے۔ لیکن یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جاہ طلب انسان کی نظر آپ سے بہت دور‘ اپنے اعلیٰ مقاصد پر ہے‘ جس کے لیے وہ دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔ آپ اس جتنے تو جاہ طلب نہیں ہیں لیکن وہ ہے‘ لہٰذا اگر کسی دن اس جاہ طلب انسان کو ضرورت پڑی آگے جانے کے لیے تو وہ آپ کو اس طرح اپنے پاؤں کے نیچے دے کر آگے بڑھ جائے گا جیسے بندریا کے بارے کہا جاتا ہے کہ اس کے پاؤں جلنے لگے تو اس نے اپنے بچوں کو اپنے پاؤں تلے دے دیا اور خود ان کے اوپر بیٹھ گئی۔
اس کے علاوہ جاہ طلب انسان چاہے عہدے کے لیے کوشش کررہا ہے یا بہت پیسہ کمانا چاہتا ہے تو وہ ایسے ایسے خطرات مول لے گا جو ہو سکتا ہے وہ افورڈ کر سکتا ہے کیونکہ اس نے پوری منصوبہ بندی کررکھی ہے لیکن آپ کو ہرگز علم نہیں ہے کہ اس کے کرتب سے آپ پر کیا اثرات ہوں گے۔ یا تو آپ مارے جائیں گے یا اس کے ساتھ دربار میں بیٹھے ہوں گے۔ اس لیے آپ نوٹ کریں کہ تاریخ میں ہمیشہ سے کہا جاتا ہے کہ جب کسی بھی بادشاہ کے خلاف کامیاب بغاوت ہوتی تھی تو صرف اکیلا بادشاہ قتل نہیں ہوتا تھا‘ اس بادشاہ کا پورا خاندان‘ عورتیں‘ بچے اور خواجہ سرا تک قتل ہو جاتے تھے۔ اس کے بعد بادشاہ کے درباریوں کی باری آتی تھی جو دربار چلاتے تھے‘ جو بادشاہ کو یہاں تک لائے تھے‘ جنہیں اس جاہ طلب بادشاہ نے یہاں تک پہنچنے کے لیے استعمال کیا تھا اور وہ ہنسی خوشی استعمال ہوئے تھے۔ اس وقت بادشاہ کو واہ واہ کر کے اٹھانے والے یہی درباری تھے۔ آج ان سب درباریوں کے سر قلم ہوئے یا قید ہو گئے۔
اب جنرل(ر) فیض حمید کی گرفتاری ہی دیکھ لیں۔ کون سوچ سکتا تھا کہ ایسا طاقتور انسان بھی یوں حراست میں آئے گا۔ جنرل (ر)فیض کا کسی بھی اہم عہدے کے لیے کوشش کرنا ایک فطری انسانی فعل تھا۔ ہم سب اپنے اپنے لیول پر سب کرتے ہیں لیکن اگر خدا آپ کو وہ عہدہ نہیں دینا چاہتا تو پھر اسے پانے کے لیے آپ کو کس حد تک جانا چاہیے؟ سر دھڑ کی بازی لگانی چاہیے یا کوشش کا رُخ بدل دیں اور معاملہ تقدیر پر چھوڑ دیں؟
مجھے انگلینڈ کے بادشاہ ہنریVIII کا لارڈ تھامس بولین یاد آرہا ہے جس نے بادشاہ کی قربت پانے اور لارڈ بننے کے لیے بادشاہ سے رشتہ داری کا سوچا۔ اپنی بیٹی این بولین کی بادشاہ سے شادی کرائی‘ بیٹا بھی اعلیٰ عہدے پر جا پہنچا۔ وہ بھی بادشاہ کے قریب ہو گیا۔ کچھ سالوں بعد بادشاہ ہنری نے بیوی کو قتل کرایا‘ اس کے بھائی کو پھانسی لگائی لیکن سسر کو کچھ نہیں کہا۔ جب دربار کا ایک اہم افسر اس کو بتانے گیا کہ وہ اب آزاد ہے‘ اسے کچھ نہیں کہا جائے گا تو اس نے فوراً پوچھا: میری جاگیر تو میرے پاس رہے گی؟ اس پر اس افسر نے کہا: تم نے اس جاگیر اور دربار میں اعلیٰ عہدے اور جاہ طلبی کے چکر میں بیٹی قتل کرائی‘ بیٹا پھانسی لگ گیا لیکن اب بھی تمہیں اپنی جاگیر کی فکر ہے۔ جاہ طلبی کے مارے انسان جو کچھ تم نے کیا‘ کیا اس کی واقعی اتنی اہمیت تھی کہ تم نے بیٹی اور بیٹا قتل کرا دیا۔
Was it worth?