فلسطینی نیلسن منڈیلا‘ مروان برغوثی

تازہ ترین خبروں کے مطابق اسرائیل نے ایک بار پھر غزہ کے شہریوں کو پمفلٹس کے ذریعے وارننگ دی ہے کہ وہ شہرسے نکل جائیں۔ وہ کہاں جائیں‘ یہ اسرائیل کا مسئلہ نہیں۔ اسرائیل گزشتہ نو ماہ سے مسلسل غزہ کے رہائشیوں پر بمباری اور اُن کی نسل کشی کر رہا ہے۔ اس وقت تک 38 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ خوراک کی قلت خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔ فلسطینی بچے دودھ اور دوا نہ ملنے پر دم توڑ رہے ہیں اور انسانیت تڑپ رہی ہے مگر ''عالمی امن و انصاف‘‘ کے ٹھیکیدار اسرائیل کے اشارۂ ابرو پر غزہ میں جنگ بندی کی ہر کوشش کو سبوتاژ کر رہے ہیں اور اسرائیل کو مزید اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔
ان حالات میں مغربی کنارے اور غزہ کے شہریوں نے ایک ایسے فلسطینی قائد سے اُمیدیں وابستہ کر رکھی ہیں جو دونوں فلسطینی علاقوں میں بہت مقبول ہے‘ بالخصوص وہ مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے دلوں میں دھڑکتا ہے۔ مغربی کنارے کے شہروں میں کوئی ایسا گھر نہیں‘ کوئی ایسا ریستوران نہیں‘ کوئی ایسی شاہراہ نہیں اور بڑی بڑی عمارات کی کوئی دیوار ایسی نہیں جہاں مروان برغوثی کی تصاویر آویزاں نہ ہوں۔ مگر حیران کن بات یہ ہے کہ وہ پاپولر لیڈر ہے کہاں؟ وہ آگے بڑھ کر اپنے شیدائیوں اور فدائیوں کی قیادت کیوں نہیں کرتا؟
اس مقبول فلسطینی لیڈر کو غاصب و ظالم اسرائیلی حکومت نے گزشتہ 22 برس سے اپنی جیل میں قید کر رکھا ہے۔ اسے پانچ مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے‘ مگر برغوثی نے برملا اعلان کیا ہے کہ وہ اس عدالت کو غیر قانونی سمجھتا ہے‘ اس لیے وہ اس ظالمانہ مقدمے کی پیروی نہیں کرے گا۔ تاہم گاہے گاہے اس کے وکلا اور اہلِ خانہ جیل میں اسے ملتے رہتے ہیں۔ وہ دنیا کو بتاتے ہیں کہ برغوثی نیلسن منڈیلا کی طرح فولادی اعصاب کا مالک ہے۔
مروان برغوثی 2002ء میں اسرائیلیوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے سے پہلے الفتح کا صف اوّل کا لیڈر تھا۔ وہ الفتح کے قائد یاسر عرفات مرحوم کا مشیر تھا۔ اپنی گرفتاری سے قبل وہ اسرائیلی پارلیمنٹ کے ممبران سے ملاقاتیں کرتا تھا۔ برغوثی تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق مسلح جدوجہد کو بھی درست سمجھتا ہے‘ تاہم وہ منڈیلا کی طرح سیاسی مذاکرات پر بھی یقین رکھتا ہے۔
مغربی کنارے کے ایک تھِنک ٹینک 'سنٹر فار پالیسی اینڈ سروے ریسرچ‘ نے مئی 2024ء میں فلسطینی قائدین کی مقبولیت کا اندازہ لگانے کے لیے مغربی کنارے اور غزہ میں ایک سروے کرایا جس کے مطابق مروان برغوثی کو 42 فیصد جبکہ اسماعیل ہنیہ کو 27 فیصد اور محمود عباس کو صرف پانچ فیصد فلسطینیوں نے بطور لیڈر پسند کیا۔ برغوثی کی مقبولیت کا اس بات سے اندازہ لگائیے کہ حماس کے قائد اسماعیل ہنیہ نے اسرائیل جیلوں میں محبوس فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے جو فہرست اسرائیل کے حوالے کی ہے‘ اس میں سرفہرست مروان برغوثی کا نام ہے۔ اگرچہ مستقبل کے فلسطین میں برغوثی اسماعیل ہنیہ کا سیاسی مدمقابل ہو سکتا ہے مگر ہنیہ نے ذاتیات سے ماورا ہو کر سوچا ہے کہ جس قائد کی سوچ اور اپروچ سے اہلِ فلسطین کے لیے ایک پُرامن مستقبل یقینی بنایا جا سکتا ہے‘ اس کی رہائی سب سے پہلے ہونی چاہیے۔ مروان برغوثی پر اسرائیل نے یہ الزام عائد کر رکھا ہے کہ اس نے 2000ء میں اہلِ غزہ کے انتفاضہ کی پذیرائی کی اور انہیں مسلح جدوجہد پر اُکسایا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اہلِ فلسطین ہی نہیں‘ کئی سابق اسرائیلی حکومتی قائدین‘ انٹیلی جنس ذمہ داران اور سمجھدار سیاستدان مستقل اور پائیدار امن کے لیے برغوثی کی رہائی کو بہت ضروری سمجھتے ہیں۔ ایمی ایلون اسرائیلی پارلیمنٹ کا سابق رکن اور داخلی انٹیلی جنس کا ڈائریکٹر تھا۔ اُس کا کہنا ہے کہ آج کی سیاسی اسرائیلی کمیونٹی میں کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا جو برغوثی کی رہائی کے حق میں ہو۔ اس سابق اسرائیلی ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ برغوثی رہا ہو کر نہ صرف غزہ کی جنگ کو ختم کرا سکتا ہے بلکہ دو ریاستی فارمولے کو عملی جامہ پہنانے میں بھی بھرپور کردار ادا کر سکتا ہے۔
موساد کے 1998ء سے لے کر 2002ء تک ڈائریکٹر رہنے والے ایفریم ہیلوے نے عالمی میڈیا کو بتایا کہ اگر ہم واقعی اسرائیل فلسطین مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں اور ہر وقت کی جنگوں سے نجات پانے کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں ایک ایسے فلسطینی قائد کی ضرورت ہے کہ جس پر بیک وقت فلسطینی بھی اعتماد کر سکیں اور ہم بھی۔ موساد کے اس سابق ڈائریکٹر نے کہا کہ ہم کب تک کٹھ پتلیوں کی تلاش میں رہیں گے۔ یہ کٹھ پتلیاں ہمیں کیا دے سکتی ہیں‘ یہ ہمیں صفر نتائج کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتیں۔
مروان برغوثی مغربی کنارے کے ایک گاؤں کے ایک کسان گھرانے میں 1959ء میں پیدا ہوا۔ 1970ء کی دہائی میں ایک نوجوان کی حیثیت سے خدمتِ خلق میں پیش پیش ہونے کی بنا پر اسے بہت شہرت ملی۔ برغوثی کو قدرت کی طرف سے یہ نعمت ملی تھی کہ اس کی باتیں لوگوں کے دلوں میں اُتر جاتی تھیں۔ وہ احتجاجی جلسوں اور جلوسوں کی قیادت کرنے لگا۔ فلسطینی اس کی باتوں پر کان دھرتے اور اسرائیل سے نجات حاصل کرنے کے لیے اس کی آواز پر لبیک کہتے تھے۔ 1980ء میں یاسر عرفات کی الفتح تحریک میں ایک جرأت مند اور مدبر لیڈر کے طور پر بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہونے لگا۔ 1990ء کے پہلے فلسطینی انتفاضہ اور اوسلو معاہدے کے بعد فلسطینیوں نے ''فلسطینی اتھارٹی‘‘ کے قیام کے لیے جمہوری ادارے قائم کرنے اور انتخابات کی تیاری شروع کردی‘ تاہم عالمی ضمانتوں کے ساتھ اسرائیل اور الفتح کے درمیان طے پانے والے معاہدے ٹوٹنے لگے۔ ایک اسرائیلی انتہا پسند نے 1995ء میں اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن کو قتل کر دیا۔ رابن ہی فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدے کا معمار تھا۔ بعد میں آنے والے اسرائیلی حکمرانوں نے اس معاہدے کو نظر انداز کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے ایک بار پھر فلسطینی شہریوں پر فوجی حملے شروع کر دیے اور فلسطینی علاقوں میں تیزی سے یہودی بستیاں تعمیر کرنے لگے۔ برغوثی کے نزدیک اسرائیل کی یہ کارروائیاں اوسلو اور دیگر امن معاہدوں کی صریح خلاف ورزی تھی۔ برغوثی نے واضح طور پر کہا کہ رابن کا قتل دراصل ارضِ فلسطین میں امن کا قتل تھا۔ حماس نے جب امن معاہدے کا یہ حشر دیکھا تو اس نے جہادی کارروائیوں کا آغاز کردیا۔ ان کارروائیوں سے حماس کو کئی جزوی کامیابیاں تو ملیں مگر کوئی نتیجہ خیز صورتحال سامنے نہ آ سکی۔
برغوثی پوری قادر الکلامی کے ساتھ عبرانی زبان بولتے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کے ایک مدبر سیاست دان یوسی بیلن سے رابطہ کر کے اسے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ فلسطینی شہری تبدیلی کے نعرے لگا رہے ہیں۔ چونکہ ہمارے امن معاہدے بے ثمر رہے ہیں اس لیے اب انہوں نے حماس کی مسلح جدوجہد سے اُمیدیں وابست کر لی ہیں۔ دوسرے انتفاضہ کے دوران برغوثی نے ایک جلسے میں شرکت کی۔ اسرائیل نے اسے رملہ سے 2002ء میں گرفتار کر لیا۔ تب سے اب تک اسرائیل اور حماس کی تین جنگیں ہو چکی ہیں مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ اکتوبر 2023ء میں شروع ہونے والی جنگ ابھی تک جاری ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں