بجٹ اور عیدالاضحی

میں کوئی ماہرِ معیشت تو نہیں مگر بزرگوں سے ایک پتے کی بات سُن رکھی ہے کہ جتنی چادر دیکھو اتنے پاؤں پھیلاؤ۔ انسانوں میں ایک دوسرا رویہ بھی بہت عام ہے‘ جس کی ترجمانی اسد اللہ غالب نے یوں کی ہے کہ
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
کئی دہائیوں سے ہم مرزا غالب کے پیروکار بنے ہوئے ہیں اور قرض پر قرض لیے جا رہے ہیں۔ بدھ کے روز آئندہ مالی سال کیلئے پیش کردہ وفاقی بجٹ میں نہایت تخیلاتی ٹیکس عائد کر دیے گئے ہیں اور غریبوں کا ہرگز کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ اس مرتبہ ٹیکس کا ہدف 12970 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے جو گزشتہ برس کی نسبت تقریباً 40فیصد زیادہ ہے۔ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں اُلجھے قارئین سے اتنا عرض کروں گا کہ اختتام پذیر ہوتے ہوئے مالی سال میں تقریباً نو ہزار ارب روپے بطور ٹیکس وصول ہوئے۔ ابھی سے ماہرینِ معیشت‘ تاجروں اور صنعت کاروں کی تنظیمیں عوام کو خبردار کر رہی ہیں کہ آپ کی چمڑی ادھیڑ کر ٹیکس کی دمڑی دمڑی وصول کی جائے گی‘ مگر بجٹ میں حکومت کے شاہانہ اخراجات میں کوئی کمی نہیں ‘بلکہ اضافہ کیا گیا ہے۔
حکمرانوں کے قول اور فعل میں تضاد ہی تضاد ہے‘ ایک طرف 45 ہزار ماہانہ کمانے والے نان فائلر کی سم بلاک کر دی جاتی ہے اور دوسری طرف دبئی میں بغیر ٹیکس دیے اربوں کی پراپرٹی خریدنے والے افسروں اور سیاستدانوں سے کوئی سوال جواب نہیں کیا جاتا۔ وی وی آئی پیز کو ہزاروں یونٹ بجلی اور گیس مفت دی جاتی ہے۔ اخراجات میں کمی کے دعویداروں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے بجٹ میں 30 فیصد اضافہ کیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بظاہر 25 فیصد اضافہ کیا گیا ہے مگر یہ اضافہ ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے ہاتھ سے مزید ٹیکسوں کی صورت لینے کی تیاری بھی کر لی گئی ہے۔ نیز جب مہنگائی کا طوفان آئے گا تو تنخواہ داروں کا باقی ماندہ پانچ‘ سات فیصد اضافہ بھی ہوا میں تحلیل ہو جائے گا۔ اب ذرا دل تھام کر یہ بھی سنیے کہ بجٹ منظوری کے بعد کیا کیا چیزیں مہنگی ہو جائیں گی۔ ویسے تو پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 20 روپے مزید پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی لگنے کے بعد ہر چیز ہی کے ریٹ آسمان پر جا پہنچیں گے مگر جو اشیا ویسے بھی بہت مہنگی ہو جائیں گی‘ ان میں سیمنٹ‘ موبائل فون‘ کاغذ‘ کتابیں‘ کاپیاں‘ سٹیشنری‘ نیوز پرنٹ‘ مشروبات حتیٰ کہ بچوں کا پیکٹ والا دودھ بھی شامل ہے۔
اگر آئی ایم ایف نے اپنی شرائط منواتے ہوئے ''اَنھے واہ‘‘ ٹیکس لگا دینے کا حکم دیا بھی تھا تو کم از کم محکوموں کو کچھ سوچنا چاہیے تھا۔ نان فائلرز کو موبائل فون لوڈ پر 75 فیصد ٹیکس لگانے کا عندیہ بھی دیا جا چکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک سو روپے والے موبائل کارڈ پر صارف کو صرف 25 روپے ملیں گے۔ موبائل فون تو اب کروڑوں عوام الناس کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ اسی طرح خیراتی و فلاحی ہسپتالوں کے آلاتِ جراحی پر پہلے جو سیلز ٹیکس کی چھوٹ تھی‘ اب وہ بھی واپس لے لی گئی ہے۔ دیکھیے ایک طرف ہمارے حکمران زراعت کو ملکی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی قرار دیتے نہیں تھکتے‘ دوسری طرف اسی شعبے کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ بجٹ میں کھاد کی فراہمی اور کسانوں کو سستی بجلی وغیرہ مہیا کرنے کے لیے صرف پانچ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ گزشتہ ماہ پنجاب حکومت نے اپنی ہی مقرر کردہ قیمت پر کسانوں سے غلہ نہیں خریدا۔ اس طرح سے ان کی محنت سے اُگائی گئی گندم گلی کوچوں میں رُلتی اور اونے پونے داموں بکتی رہی۔
جہاں تک پراپرٹی کی خرید و فروخت کا تعلق ہے تو اس پر مزید فیڈرل ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ اب پلاٹ بیچنے اور خریدنے والے کو پہلے سے کہیں بڑھ کر بھاری ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ جب پلاٹ اتنے مہنگے ہوں‘ سیمنٹ اور سینٹری اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہو تو پھر کون مکانات تعمیر کرے گا اور انہیں کون خریدے گا؟ مگربجٹ میں فخریہ بتایا گیا ہے کہ وفاق سے متعلقہ خالی اسامیوں کو سرے سے ختم کر دیا جائے گا۔ یہ اعلان حکومت کی طرف سے بے دردی اور بے حسی کی ایک اور مثال ہے جب تعلیم یافتہ غریبوں کے لیے نچلے گریڈوں میں بھی ملازمت کے دروازے بند کیے جائیں گے اور ہر رشتۂ امید توڑ دیا جائے گا تو پھر ہر طرف مایوسی ہی مایوسی ہو گی۔
ملک کے مختلف چیمبرز آف کامرس کے جہاندیدہ بزنس مینوں اور صنعتکاروں نے بجٹ پر اپنے تجزیوں اور تبصروں کے دریا کو صرف چند سطروں کے کوزے میں بند کر دیا ہے۔ اس خلاصۂ کلام کے بعد مزید سر کھپائی اور بجٹ کے الجھے ہوئے اعداد و شمار کی کھدائی کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بجٹ میں پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر ناقابلِ برداشت بوجھ ڈال دیا گیا ہے‘ نیز کروڑوں صارفین سے مزید بالواسطہ ٹیکس بھی وصول کیے جائیں گے۔ اس بجٹ میں حکومت کا بیان کردہ وسیع تر ٹیکس نیٹ کا وجود دکھائی نہیں دیتا۔ اسی طرح ملک میں صنعت و تجارت کے پھیلاؤ کے لیے کسی طرح کی کوئی سنجیدہ کاوش بھی دکھائی نہیں دیتی۔ صاحبو! یہ ہے اگلے مالی سال کا بجٹ۔
اس سال بجٹ اور عیدالاضحی ساتھ ساتھ آئے ہیں۔ کوئی زمانہ تھا کہ سفید پوش بھی سنتِ ابراہیمی ذوق و شوق سے ادا کیا کرتے تھے مگر قربانی کے جانوروں کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتوں کی بنا پر اب وہ اس سعادت سے بہت بڑی تعداد میں محروم رہتے ہیں۔ مستحسن تو یہی ہے کہ جن لوگوں کو خدا نے قربانی کرنے کی توفیق اور استطاعت عطا کی ہے وہ دل کھول کر گوشت کے ہدیے کو غریبوں‘ سفید پوشوں اور رشتہ داروں تک پہنچائیں۔ ہفتہ کے روز جب یہ کالم آپ کی نظر سے گزرے گا‘ وہ یوم عرفہ ہوگا۔ وقوفِ عرفہ حج کا رکنِ اعظم ہے۔ اللہ نے ہمیں قیامِ ارضِ مقدس کے دوران کئی بار حج کی سعادت عطا فرمائی۔ ہم نے بچشمِ خود دنیا کے 57 اسلامی ملک اور دیگر درجنوں غیرمسلم ممالک سے آئے ہوئے مسلمانوں کے اس عظیم الشان اجتماع کا منظر دیکھا ہے کہ جہاں ہر طرف لبیک اللھم لبیک‘ میں حاضر ہوں‘ اے اللہ میں حاضر ہوں کی صدائیں گونج رہی ہوتی ہیں۔ پھر خطیبِ عرفہ خطبۂ حج ارشاد کرتا ہے۔ اس بار حج ایک ایسے موقع پر آ رہا ہے کہ جب جسدِ اُمہ مسلمہ کا ایک عضو شدید تکلیف اور درد کا شکار ہے۔ مگر افسوس تو یہ ہے کہ باقی جسم ایسا بے درد ہو چکا ہے کہ وہ عدو کی گولیوں کی زد میں آئے ہوئے عضو کی تکلیف کو بالکل محسوس نہیں کر رہا۔
اگر مسلمان حقیقی معنوں میں متحد ہوتے تو دنیا نہ صرف ان کی بات سنتی بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کرتی۔ لکھتے لکھتے میں یہاں تک پہنچا تھا کہ ایک سوال کہیں غیب سے آ کر دامن گیرہو گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ غزہ کے بچے کس حال میں عید گزاریں گے؟ غزہ کے بچے اس حال میں عید منائیں گے کہ وہ اپنے اردگرد پندرہ ہزار بہن بھائیوں اور ہمجولیوں کو نہ پائیں گے۔ ہزاروں بچے ایسے بھی ہوں گے کہ جن میں سے کسی کی ماں نہیں ہو گی تو کسی کا باپ نہیں ہوگا اور کسی بچے کے ماں اور باپ دونوں نہ ہوں گے۔ ان بچوں کے پاس خوراک ہو گی نہ پانی‘ اور قربانی کے گوشت کا امکان تو اور بھی کم نظر آتا ہے‘ مگر ایک بات یقینی ہے کہ ان حالات میں بھی ان بچوں کے لبوں پر مسکراہٹ ہوگی اور ہرگز کوئی شکوہ شکایت نہ ہوگا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں