کولہو میں جتے پھول سے بچے

بعض تصویریں یادداشت کی دیواروں پر یوں چسپاں ہو جاتی ہیں کہ مٹائے نہیں مٹتیں اور ساری زندگی آپ کو ہانٹ کرتی رہتی ہیں۔ بارہ‘ تیرہ برس قبل سرگودھا کے ایک پٹرول پمپ پر ایک اندھی بھکارن کا ہاتھ تھامے ہوئے پانچ چھ برس کا ایک نہایت خوبصورت بچہ دکھائی دیا۔ اندھی ماں بچے کے سہارے بھیک مانگ رہی تھی۔ مجھے اس بچے میں امکانات کا ایک جہاں نظر آیا۔ دو دہائیوں کے بعد یہ بچہ ایک فوجی‘ ایک ڈاکٹر‘ ایک بیورو کریٹ‘ ایک انجینئر اور نہ جانے کیا کیا دکھائی دے رہا تھا۔ امیر کے ہوں یا غریب کے‘ بچے کمانے کے لیے نہیں ہوتے‘ وہ نشوونما پانے اور تعلیم و تربیت کے حصول کے لیے ہوتے ہیں۔ آج بارہ جون‘ بچوں کا عالمی دن ہے۔
میں نے گدا گر ماں کو اپنا کارڈ دیتے ہوئے کہا کہ میں فلاں کالج کا پرنسپل ہوں‘ دو روز کے بعد مجھے وہاں آ کر ملو۔ ہم بچے کی تعلیم و تربیت اور تمہارے خاندان کی مکمل کفالت کا بندوبست کریں گے ‘مگر وہ خاتون ہمارے پاس نہ آئی اور بدستور بھیک مانگتی رہی۔ ایک روز پھر میں بطورِ خاص اُس پٹرول پمپ پر گیا اور میں نے ماں کوگدا گری ترک کرنے کی تلقین کی مگر اس پر کچھ اثر نہ ہوا۔
پاکستان کے چائلڈ لیبر کے کولہو میں جتے کوئی دو‘ چار‘ دس بچے نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں پانچ سال سے لے کر پندرہ سال تک کے ننھے منے پھول ڈھابوں‘ ورکشاپوں‘ دکانوں‘ کھیتوں کھلیانوں اور گھروں میں اپنے حالات سے پریشان ہو کر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ جس طرح سے ہر بیج میں ایک تناور اور سربفلک شجر بننے کے امکانات ہوتے ہیں اسی طرح چائلد لیبر کے کولہو میں جتے پھول سے ہر بچے میں پل بڑھ کر ایک خوشحال زندگی گزارنے اور معاشرے کا ایک انتہائی باوقار شخص بننے کا یقینی چانس موجود ہوتا ہے۔ جہاں جہاں اس بات کا شعور غریب والدین میں پایا جاتا ہے‘ وہاں وہاں اللہ تعالیٰ اُن کی دستگیری کا بھی کوئی انتظام فرما دیتے ہیں‘ تاہم بنیادی طور پر یہ ہر مہذب قوم کی حکومت اور معاشرے کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر بچے کی بارہویں جماعت تک تعلیم‘ نیز اسے ہنر مند بنانے کا انتظام کرے۔ آج کے دور میں بھی ایسے بے حس اور ظالم معاشرے موجود ہیں کہ جہاں اُن کی آنکھوں کے سامنے کولہو میں جتے پھول مرجھا جاتے ہیں۔ وہ ورکشاپوں اور ڈھابوں میں انتہائی ذلت آمیز زندگی گزارتے گزارتے زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں‘ جبکہ اسی بستی اور اسی شہر کے اُن کے ہم عمر خوشحال گھرانوں کے چشم و چراغ بہترین تعلیم کے بعد اعلیٰ مناصب حاصل کر لیتے ہیں۔
12 جون عالمی طو رپر بچوں کا دن ہے۔ چائلڈ لیبر کے بارے میں ایک بات سمجھنے کی ہے کہ بچوں کی مشقت اور حالات کے جبر کے تحت جاں لیوا محنت مزدوری اور چائلڈ ورک میں فرق ہے۔ اگر ''بچوں کا کام‘‘ ان کی شخصی و جسمانی نشوونما اور تعلیم میں حرج کا باعث نہ ہو تو یہ چائلڈ لیبر نہ کہلائے گی۔ مثال کے طور پر اگر بچے سکول کے بعد گھر والوں کا کسی ہلکے پھلکے کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں تو یہ بچوں کی مشقت نہ ہوگی۔
عالمی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ سے زائد بچے کسی نہ کسی طرح کی چائلڈ لیبر کا حصہ بننے پر مجبور ہیں۔ پاکستانی بچوں کی تعداد کا 33فیصد چائلڈ لیبر کی نہایت اذیت ناک اور پُرمشقت زندگی گزار رہا ہے۔ میں آج سے بیس برس قبل تقریباً دو دہائیاں ایک ایسے ملک میں گزار کر واپس آیا کہ جہاں چائلڈ لیبر کا کوئی تصور نہ تھا۔ وہاں سبھی بچے سکول جاتے تھے۔ اس ملک میں گھروں میں خواتین میڈز تو ہوتیں مگر کہیں پر کسی بچے سے ہرگز لیبر نہ لی جاتی تھی۔ غریب خاندانوں کی کفالت خود حکومت کرتی تھی۔ پاکستان واپس آ کر جب میں نے گھروں میں کمسن بچیوں کو اپنے سے کہیں بھاری بچوں کو اُٹھاتے دیکھا‘ انہیں گھروں میں بارہ بارہ بلکہ سولہ سولہ گھنٹے کام کرتے دیکھا تو گویا میری جان نکل گئی۔ اسی طرح کم عمر لڑکوں کو‘ جنہیں ''چھوٹے‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا ہے‘ ورکشاپوں میں میلے کچیلے کپڑے پہن کر استاد کی جھڑکیاں سنتے اور 'پلگ پانا‘ پکڑاتے دیکھا تو دل پر گویا آری چل گئی ۔ تب مجھے اندازہ ہو ا کہ من حیث القوم ہم جذبات سے عاری اور احساسات سے محروم ہو چکے ہیں۔
عالمی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق چائلڈ لیبر سے دنیا بھر میں تقریباً 25 کروڑ بچے متاثر ہیں۔ ان میں سے کم و بیش 17 کروڑ دس لاکھ بچوں سے سخت مشقت والے کام لیے جاتے ہیں۔ یہ بچے کانوں میں کام کرتے ہیں۔ کھیتی باڑی اور ہیوی مشینری پر محنت مزدوری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ براعظم ایشیا میں چائلڈ لیبر بہت زیادہ ہے۔ یہاں 12 کروڑ بچے پُرمشقت محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ براعظم افریقہ میں تو ہر تیسرا بچہ مزدور ہے۔ 90 لاکھ بچوں کو جرائم پیشہ بنا دیا گیا ہے۔ تقریباً تین لاکھ بچے مختلف تنظیموں کے ساتھ عسکری کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ بھارت‘ جس کی آٹھ فیصد شرح نمو کا بہت چرچا کیا جاتا ہے‘ وہاں 45 کروڑ بچوں کے پاس شدید مشقت والے کام کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ بنگلہ دیش اور نائیجیریا میں بھی کروڑوں کی تعداد میں بچے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ اب ایک بار پھر اپنے وطن عزیز کی طرف لوٹتے ہیں۔ فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لادوا نہ تھے
ہمارے قائدین کرام بڑے بڑے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں‘ کبھی یہاں یورپ کا نظامِ انصاف برپا کرنے اور کبھی چین کا صنعتی انقلاب لانے کی باتیں کرتے ہیں‘ کبھی تعلیم سے بے بہرہ اڑھائی کروڑ بچوں کو سکولوں میں لانے کی نوید سناتے ہیں تو کبھی غریبوں کیلئے لاکھوں مکانات تعمیر کرنے اور ہر گھر کو نہایت کم قیمت پر سولر بجلی فراہم کرنے کی خوش خبری سناتے ہیں مگر کرتے اس کے الٹ ہیں۔ اڑھائی کروڑ بچوں کو تعلیم دینے کے بجائے سرکاری پرائمری سکولوں کے خاتمے کی پس پردہ منصوبہ بندی کی گئی اور اب اس پر عملدرآمد شروع ہے۔
صرف چند سالوں میں ہماری آبادی تقریباً دوگنا ہو گئی ہے مگر ہمارے حکمران اپنے اقتدار کی باہمی کشا کش میں مصروف ہیں اورگہرے غور و خوض سے کام لینے اور فیصلہ کرکے اس پر عملدرآمد کرنے کی انہیں فرصت نہیں۔ اگر حکومت سنجیدگی سے پلاننگ کرے‘ ملک سے کرپشن اور چور بازاری کا خاتمہ کرے اور علمائے کرام کی ہدایات کے مطابق آبادی کنٹرول کرنے کا منصوبہ عوام کے سامنے پیش کرے تو صدیوں میں نہیں‘ سالوں میں حقیقی انقلاب آ سکتا ہے۔
کئی دہائیوں سے ایک امریکی رائٹر ڈیل کارنیگی کی کتابیں بہت مقبول ہیں۔ وہ دل لگتی باتوں اور عملی مثالوں سے پریشاں حال اور ہمت ہار کر بیٹھ جانے والے لوگوں کی زندگی میں ایک نئی روح پھونک دیتے ہیں اور انہیں ایک بار پھر شاہراہِ زندگی پر گامزن کر دیتے ہیں۔ اُن کی ایک انتہائی مقبول کتاب کا ٹائٹل ہے ''پریشان ہونا چھوڑیے‘ جینا شروع کیجئے‘‘۔ میرا بھی حکمرانوں کیلئے یہ مشورہ ہوگا کہ ''بیان دینا بند کیجیے اورصدقِ دل سے عوام کی خدمت کیجیے‘‘۔ پھر دیکھیے کیسے کیسے کرشمے رونما ہوتے ہیں۔ بہرحال حکومت اور معاشرہ اپنی بے حسی ختم کرے‘ چائلڈ لیبر کے خاتمے کو اپنی اوّلین ترجیح قرار دے اور کولہو میں جتے پھول سے بچوں کو اس مشقت سے آزاد کروا کے سکولوں میں بھیجے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں