کمر توڑ بجلی کے بل اور حکمرانوں کے سنگدلانہ رویے

تین چار روز قبل ایک انگریزی معاصر میں ایک کارٹون شائع ہوا۔ اس میں کارٹونسٹ نے ہماری موجودہ کربناک اور المناک صورتحال ایک تصویر میں بیان کر دی ہے۔ کارٹون میں عام آدمی انجرپنجر بنا گھٹنوں کے بل زمین پر پڑا ہے۔ اس کی کمر پر متعدد ٹیکسوں کی ایک ناقابلِ برداشت بھاری سل رکھی ہوئی ہے۔ سل پر وزیر خزانہ خوشی سے اچھلتے ہوئے فضا میں آئی ایم ایف کی دل لبھاتی ڈیل کو اشارے کر رہے ہیں کہ سرکار جو آپ نے حکم دیا ہم نے کر دکھایا اب توساجن نیچے آ کر اپنے وصل سے ہمیں فیض یاب کرو۔
گھریلو صارفین کے لیے اب بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت 48.84 روپے تک مقرر کی گئی ہے۔ ٹیکسز ملا کر اب ایک عام گھریلو صارف کوبجلی کا ایک یونٹ 65 روپے میں ملے گا۔ اس پر بھی بس نہیں کی گئی 300 سے زائد یونٹ استعمال کرنے والے سفید پوشوں پر ایک ہزار روپے تک فکسڈ چارجز بھی عائد کر دیے گئے ہیں جبکہ کمرشل اور صنعتی صارفین کے لیے مقرر کردہ چارجز میں 355 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے۔ اس ہوشربا اضافے کے بعد ایک طرف عام آدمی کے لیے بجلی کے بلوں کی ادائیگی ناممکن ہو جائے گی تو دوسری طرف صنعتکاروں کے لیے اپنی ملوں اور فیکٹریوں کا پہیہ گردش میں رکھنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ اپنے انتخابی جلسوں میں اس حکومت کے امیدواروں نے 300 یونٹ تک مفت بجلی فراہم کرنے کے وعدے اور ہر گھر کو سولر سسٹم دینے کے دعوے کیے تھے مگر یہ سب جھوٹ کے پلندے کے علاوہ کچھ نہیں۔
ایک طرف عوام پرناقابلِ برداشت بجلی بلوں اور ہوشربا مہنگائی کے اضافے لاد دیے گئے ہیں اور دوسری طرف وزیراعظم ہاؤس اور ایوانِ صدر کی تزئین و آرائش کے لیے پہلے سے کہیں بڑھ کر بجٹ مختص کر دیاگیا ہے۔ قومی اسمبلی کے کروڑوں روپے ماہانہ آمدنی والے الیکٹ ایبلز کی تنخواہوں میں بھی کئی گنا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ انہیں بزنس کلاس میں ایئر ٹکٹس کی مد میں مزید فنڈز فراہم کیے جائیں گے جبکہ اکانومی کلاس میں سفر کرنے والے اوورسیز مزدوروں اور عام شہریوں پر 150 فیصد کا ناقابلِ تصور اضافی ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔بدھ کے روز لاہور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی کہ دستور کی نظر میں سب شہری برابر ہیں تو پھر حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران کو حالیہ بجٹ میں پراپرٹی کی سیل پر انکم ٹیکس کی چھوٹ کیوں دی گئی ہے؟ شاید پاکستان میں اس سے پہلے ایسی غریب کش اور سنگدلانہ حکومت نہیں دیکھی گئی۔ خود وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ جس ملک میں بجلی اور گیس مہنگی ہو وہاں کا وزیراعظم چور ہوتا ہے ‘اب محترمہ کا کیا تبصرہ ہے؟
حالیہ منظور شدہ بجٹ میں عوام‘ کاروباری حلقوں‘ چھوٹے بڑے تاجروں اور سفید پوشوں پر ٹیکسز کی بھرمار کر دی گئی ہے۔ تنخواہ دار طبقے کو کچھ امید تھی کہ حکومت اُن کے ٹیکس ریٹ اور سلیب کم کرے گی۔ اب تنخواہ دار طبقہ 39 فیصد تک ٹیکس ادا کرے گا۔
انرجی اور مہنگائی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس ساتھ کا میکانزم کیا ہے یہ ہم آگے چل کر بیان کریں گے‘ پہلے گزشتہ چند دہائیوں کے دوران مہنگائی کی شرح پر ایک نظر ڈال لیں۔ 1980ء تا 1990ء کی دہائی میں 15 تا 20 فیصد مہنگائی تھی‘ 1990ء کی دہائی میں یہ شرح بڑھ کر 25 فیصد تک چلی گئی‘ 2000ء میں مہنگائی میں اچھی خاصی کمی واقع ہوئی اور یہ کم ہو کر12 فیصد تک آ گئی۔آج ہماری جی ڈی پی یعنی قومی پیداوار میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس وقت پاکستان میں شرح نمو 2.38 فیصد ہے جبکہ مہنگائی 23.41 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
یوں تو آج ہر شے مہنگی ہے مگر بجلی و گیس کے بلوں کے علاوہ اشیائے خورو نوش بھی عام آدمی کی دسترس سے باہر ہیں۔ ملک میں اس قدر مہنگائی کے تین بڑے اسباب ہیں۔ پہلا سبب تو بجلی کے ریٹس میں بے پناہ اضافہ ہے۔ بجلی کے اضافی نرخ دو دھاری تلوار ہیں۔ یہ تلوار ایک طرف سے غریبوں کی گردنوں پر چلتی ہے اور دوسری طرف جب قابلِ برداشت نرخوں پر صنعت کاروں کو بجلی نہیں ملتی تو وہ اپنی فیکٹریاں اور ملیں بند کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ ایک طرف تو لاکھوں کی تعداد میں باروزگار کاریگر‘ ہنر مند اور عام مزدور بیروزگار ہو جاتے ہیں تو دوسری طرف برآمدات کا حجم بہت کم ہو جاتا ہے۔
میری بعض براہِ راست معلومات کے مطابق اس وقت ملک میں کئی فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں۔ یہ صنعتکار یہاں سے پیسہ اکٹھا کرتے ہیں تو نسبتاً کسی پُرامن اور کم ٹیکسز والے ملک میں جا کر ملیں لگا لیتے ہیں یا اسی رقم سے دبئی میں جا کر پلازے خرید لیتے ہیں۔ انڈسٹری کا پہیہ تیزی سے گردش میں رہے تو شرحِ نمو بڑھتی ہے اور روزگار کے مواقع پھیلتے اور برآمدات سے زرِمبادلہ آتا رہتا ہے‘ جب یہ چشمے خشک ہو جاتے ہیں تو پانی کے ایک ایک گھونٹ کو اور خوراک کے ایک ایک لقمے کے لیے ترسنے والوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔
2023ء میں فوڈ آئٹمز کے مہنگے ہونے کے کچھ نئے اسباب بھی سامنے آئے ہیں۔ 2023ء کے پہلے گیارہ ماہ کے دوران پاکستان سے اشیائے خورو نوش کی برآمدات میں 37 فیصد اضافہ ہوا۔ صرف 2023ء کے ایک سال میں ہماری فوڈ ایکسپورٹ 5.8 بلین ڈالر سے بڑھ کر 8 بلین ڈالر ہو گئی۔ اس اضافے کا ایک فوری سبب یہ بھی تھا کہ انڈیا نے اپنے ملک میں پیدا ہونے والے باسمتی چاول کی بیرونِ ملک ایکسپورٹ پر پابندی لگا دی تھی۔ بھارتی حکومت نے چاول کی برآمد پر پابندی اپنے ملکی صارفین کے تحفظ کے لیے لگائی جبکہ ہم اپنے صارفین کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے اکثر سیاستدان چاہے‘ وہ حکومت کے ہوں چاہے اپوزیشن کے‘ اقتدار کی جنگ میں مگن ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں اور انہوں نے 12 جولائی کو اسلام آباد میں بجلی کے بلوں کے خلاف دھرنے کا اعلان کیا ہے۔
ہمارے بڑے بڑے ماہرینِ مالیات و اقتصادیات ابھی تک ہماری معاشی پسماندگی کا اصل سبب جاننے میں ناکام رہے ہیں۔ ایک بات ہمیں سمجھ لینی چاہیے کہ جب تک ہم انرجی یعنی بجلی کا مسئلہ حل نہیں کرتے‘ سستی بجلی پیدا نہیں کرتے اُس وقت تک ہماری شرحِ نمو نہیں بڑھے گی اور نہ ہی جان لیوا مہنگائی سے نجات ملے گی۔ ہم آئی پی پیز کے ذریعے اس وقت دنیا میں مہنگی ترین بجلی خرید رہے ہیں حتیٰ کہ اُس بجلی کا بھی بل ادا کرتے ہیں جو ہم استعمال نہیں کرتے۔ جب تک ہم پن بجلی‘ چھوٹے بڑے ڈیموں سے بجلی نہیں بناتے اس وقت تک ہم اس عذاب ِمسلسل سے نجات حاصل نہیں کر سکتے۔ ہمیں ایک طرف کالا باغ اور بھاشا ڈیم بنانے ہوں گے اور دوسری طرف ہر دریا اور بہتے ہوئے پہاڑی نالوں پر مقامی ضروریات کے لیے بجلی پیدا کرنا ہوں گی۔یاد رکھئے کہ آئی ایم ایف سے قرضے ایک وقتی اقتصادی حربہ ہے یہ کوئی مستقل معاشی حل ‘نہیں اگر ہم نے اسی رویے کو جاری رکھا تو اگلے سال ہمارے کشکولِ گدائی میں نہ کوئی دوست خیرات ڈالے گا اور نہ ہی آئی ایم ایف ہمیں کوئی قرضہ دے گا۔ ترقی و خوشحالی کے لیے ہمیں فوری طور پر ہائیڈورو الیکٹرک انرجی کی بنیاد پر متفقہ قومی پالیسی اور سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں