میں کسی داد و تحسین کا حقدار نہیں

بحرین کے چوراہے پر گاڑیاں رکیں تو اچانک ایک گاڑی کے سامنے دو تین نوجوان نمودار ہوئے۔ انہوں نے گاڑی کے سامنے بینر لہرا دیے۔ جن پر لکھا تھا: انت بطل۔ تم ہمارے قومی ہیرو ہو۔ ایک نئی گاڑی کی ٹیسٹ ڈرائیو کرتے ہوئے ادھیڑ عمر کا بحرینی تاجر بہت حیران ہوا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟
تھوڑی دیر میں ایک ٹرک آ کر سگنل پر کھڑا ہو گیا اس پر بھی ایک بڑا سا بینر آویزاں تھا‘ جس پر لکھا انت بطل یا ابوالیتامیٰ۔ اے یتیموں کے باپ تم ہیرو ہو۔ چند ہی لمحوں کے بعد اردگرد کی سب گاڑیوں کے دروازوں کے شیشے اوپر کیے گئے تو ہر شیشے پر خلیل الدیلمی کی بڑی بڑی تصویریں چسپاں تھیں۔ پلک جھپکنے میں بہت سے مرد اور عورتیں اسی طرح کے بینر اٹھائے سڑک پر دو رویہ آ کر کھڑے ہو گئے۔
تشہیر و پروپیگنڈے سے دور بھاگنے والے بحرین کے مخیر شخص خلیل الدیلمی‘ جن کا ایک لقب یتیموں کا باپ اور دوسرا ابو احمد ہے‘ کی سمجھ میں کچھ بات آ گئی کہ ان کے مداحوں نے انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے یہ ''سازش‘‘ تیار کی ہے۔ ابوالیتامیٰ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ وہ مسلسل ہاتھ ہلا کر اور سینے پر ہاتھ رکھ کر لوگوں کی محبت کا جواب دے رہا تھا۔
جب انہیں گاڑی سے باہر آنے اور مداحوں کی دو رویہ قطار کے درمیان سے گزرنے کی درخواست کی گئی تو اس وقت فرطِ جذبات سے وہ زار و قطار رو رہے تھے۔ دو رویہ قطار کے اختتام پر سفید لباس میں ملبوس ایک خاتون نے انہیں میڈل پہنایا۔ جس داد و تحسین‘ میڈلز اور مدح سرائی سے وہ زندگی بھر دامن بچاتے رہے بالآخر محبت و تشکر کے جذبات سے بُنے ہوئے جال میں گرفتار ہو کر انہیں خراجِ تحسین وصول کرنے کے لیے سرنگوں ہونا پڑا۔ اس موقع پر جب پہلے سے تیار ایک اینکر نے ان سے سوال کیا کہ یہ عظیم الشان داد و تحسین وصول کر کے آپ کے کیا جذبات ہیں؟ اس کے جواب میں ہزاروں یتیموں اور مسکینوں کی کفالت کرنے والے ارب پتی تاجر نے جو الفاظ کہے وہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ ابو احمد نے فصیح عربی میں کہا ''میں کسی دادو تحسین کا حقدار نہیں! اللہ نے مجھ پر اپنا فضل کیا۔ اس کی عطا کردہ دولت کا کچھ حصہ اس کے بندوں تک پہنچا دیا۔ اس میں میرا کیا کمال ہے؟‘‘۔
اس خوبصورت 'سازش‘ میں بحرین کا ایک مقبول ٹی وی پروگرام اور بحرینی حکومت بھی شامل تھی تاہم اس منصوبے میں حقیقی روح تو ابو الیتامیٰ کے مداحوں اور اُن یتیموں و مسکینوں نے شرکت کرکے پھونکی تھی جن کی ابو احمد برس ہا برس سے کفالت کر رہا ہے۔ وہ یتیم بچوں کے ساتھ کھیل کر اور ان کا دل بہلا کر بہت خوشی محسوس کرتے ہیں۔ابو احمدکے بعض اقوال ضرب المثل بن چکے ہیں‘ مثلاً دنیا میں ایک مسافر کی طرح رہو ناکہ مقیم کی طرح‘ایک دوسرا قول یہ ہے کہ اللہ کی محبت کو اپنے دل میں مستقل طور پر بساؤ۔
ایک ہم ہیں کہ رمضان المبارک میں کسی کو آٹے کا ایک تھیلا یا گھی کا ایک ڈبہ دیتے ہیں تو اس کی بھی وڈیو بناتے ہیں‘ فیس بک پر لگاتے ہیں اور سوشل و مین سٹریم میڈیا پر اس کا چرچا کرتے ہیں اور یوں محتاجوں اور کم وسیلہ لوگوں کی ضرورت مندی کا سرعام مذاق اڑاتے اور اُن کے دل مجروح کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ کلچر بہت عام ہے۔ تاہم اپنے یہاں بھی بعض ایسے غریب پرور مخیر حضرات ہیں کہ جن کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے کو خبر نہ ہو۔ کچھ ایسے اللہ والے بھی اپنی اسی مادیت پسند سوسائٹی میں موجود ہیں کہ جن کے عظیم کارہائے خیر کے بارے میں سن کر ارتجالاً لبوں پر یہ مصرع آ جاتا ہے۔
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی
شیخوپورہ میں شرقپور روڈ پر رضائے الٰہی کے طلب گار ایک زمیندار شیخ محمد افضل نے اپنی 17 ایکڑ زمین یتیموں کے ایک نیک نام ادارے'آغوش‘ کے نام وقف کر دی۔ اس ادارے نے اس زمین پر یتیم بچوں اور بچیوں کے لیے الگ الگ اعلیٰ معیار کے تعلیمی ادارے اور ہوسٹل تعمیر کر دیے ہیں۔ ان بچوں کی معیاری تعلیم کے ساتھ ساتھ اُن کی اعلیٰ تربیت کا بھی بندوبست کیا گیا ہے۔ مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ یہاں یتیم بچوں کی رہائش اور خور و نوش کا اہتمام و انتظام کسی اعلیٰ ترین ایلیٹ کلاس بورڈنگ ہاؤس سے بڑھ کر ہے‘ کم نہیں۔ شیخ محمد افضل صاحب کی ایک بیٹی تھی جو اُن کی زندگی میں ہی فوت ہو گئی ۔ وہ اسی ادارے میں ہی سکونت پذیر رہے۔ بچے انہیں دادا ابو‘ دادا ابو کہہ کر پکارتے تو فرطِ شفقت و محبت سے اُن کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے۔ بچے اُن کے لیے کھانا لاتے اور اُن کے ساتھ خود بھی تناول کرتے تو شیخ صاحب کا دل باغ باغ ہو جاتا کہ اُن کے دو‘ چار پوتے پوتیاں نہیں یہ سینکڑوں بچے انہی کے ہیں۔
دس سال قبل جب اس ادارے کی تعمیرات کا آغاز ہو رہا تھا تو افتتاح کے لیے اس وقت کے گورنر پنجاب چودھری محمد سرور صاحب وہاں تشریف لے گئے تھے۔ اس موقع پر جب مختلف شخصیات نے شیخ صاحب کے اس کارِخیر کو بہت سراہا تو اُن کا جواب بھی بحرینی تاجر جیسا تھا کہ اس میں میرا کیا کمال ہے‘ جس اللہ کا مال تھا‘ اس نے مجھے یہ توفیق دی کہ میں اسے شفقتِ پدری سے محروم بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کے لیے پیش کردوں۔
البتہ اس موقع پر شیخ محمد افضل نے گورنر چودھری محمد سرور اور عمائدینِ علاقہ کے سامنے ایک دلچسپ بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ اس علاقے میں مجھ سے بڑے بڑے زمیندار اور نواب موجود ہیں مگر اُن کے کہنے پر اُن کے پاس علاقے کا تھانیدار بھی چل کر نہیں آتا۔ دیکھئے میں نے اپنی زمین اللہ کی خوشنودی کے لیے وقف کر دی تو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا گورنر خود چل کر ہمارے پاس آیا ہے۔ ایک سال قبل شیخ صاحب کا انتقال ہو گیا۔ اس صدمے سے 'آغوش‘ کے یتیم بچوں کو یوں محسوس ہوا کہ جیسے وہ ایک بار پھر آغوش سے محروم ہو گئے ہیں۔ کئی روز تک بچے بہت مغموم رہے۔ الخدمت کے احسان اللہ وقاص صاحب نے بتایا کہ ملک بھر میں اس طرح کے 22 مراکز یتامیٰ کی کفالت کر رہے ہیں۔ایک بار پھر بحرینی آرکیٹکٹ خلیل الدیلمی المعروف ابوالیتامیٰ کے لیے سرپرائز خراجِ تحسین تقریب کا منظر ذہن میں تازہ کر لیجئے۔ اس موقع پر آنسوؤں کی برسات میں خلیل الدیلمی نے کہا تھا کہ اللہ کا دیا ہوا مال میں اس کے بندوں پر خرچ کر رہا ہوں تو اس میں میرا کیا کمال ہے۔
وضاحت: 29جون کو میرا کالم ''حافظ نعیم الرحمن کا پہلا امتحان‘‘ شائع ہوا۔ اس میں عرض کیا تھا کہ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک معزز چینی مہمان تشریف لائے تو اُن کے ساتھ ہونے والی میٹنگ میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی سرکردہ شخصیات موجود تھیں۔ بظاہر جماعت اسلامی کی کوئی نمایاں پارلیمانی شخصیت اخبارات و ٹی وی پر نظر نہ آئی تو میں نے یہ لکھ دیا کہ اس کانفرنس میں جماعت شریک نہ تھی۔ تاہم جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل جناب امیر العظیم نے تصحیح کرتے ہوئے مجھے توجہ دلائی کہ جماعت کی نمائندگی کے لیے اس کانفرنس میں قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور کے صاحبزادے جناب آصف لقمان قاضی موجود تھے۔ ہم اس تسامح پر معذرت خواہ ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں