مشرف دور میں جنرل معین الدین حیدر کی سربراہی میں افغانستان بھیجے جانے والے وفد نے قندھار میں مُلا عمر سے ملاقات کی اور انہیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان اور افغانستان دو علیحدہ‘ آزاد اور خود مختار ممالک ہیں جن کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحدیں ہیں اس لیے ان سرحدوں کو پار کرنے کیلئے پاسپورٹ‘ ویزا اور دیگر سفری دستاویز ضروری ہیں۔ یہ سن کر پہلے تو مُلا عمر نے مؤقف اختیار کیا کہ برادر اسلامی ملکوں کی حیثیت سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان بارڈر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان نے طالبان کی پہلی حکومت کو باقاعدہ تسلیم کر لیا تھا۔ آپسی تعلقات کی مینجمنٹ اور آمد و رفت کو ریگولیٹ کرنے کیلئے دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے ہاں سفارت خانے کھول رکھے تھے۔ پاکستان نے دونوں ملکوں میں آمد و رفت کیلئے ضروری دستاویز کی موجودگی لازمی قرار دے رکھی تھی اور اس مقصد کیلئے کابل میں پاکستانی سفارت خانہ ویزا جاری کرتا تھا مگر افغان طالبان‘ جن میں حکومت کے اراکین بھی شامل تھے‘ کا اصرار تھا کہ وہ بغیر ویزا اور پاسپورٹ کے جہاں سے چاہیں اور جب چاہیں سرحد عبور کرکے پاکستان میں داخل ہوسکتے ہیں۔ جنرل معین الدین حیدر کے مطابق جب پاکستانی وفد نے مُلا عمر کو بتایا کہ حکومتِ پاکستان اب اس کی اجازت نہیں دے گی اور نہ صرف پاسپورٹ اور ویزا لازمی قرار دے گی بلکہ صرف مخصوص مقامات سے ہی افغانستان اور پاکستان کے لوگ سرحد پار کر سکیں گے تو وہ راضی ہو گئے۔
راقم الحروف نے ایک تحقیقی مقالہ کی تیاری کیلئے جنرل معین الدین حیدر کا انٹرویو کیا۔ اُس انٹرویو میں اُن کا کہنا تھا کہ مشرف حکومت میں افغان طالبان کے ساتھ پاکستانی حکام کی بات چیت کے نتیجے میں مُلا عمر نے بامیان میں مہاتما بدھ کے مجسمے کو مسمار کرنے اور نائن الیون کے بعد اسامہ بن لادن کو امریکیوں کے حوالے کرنے پر بھی انتہائی غیر لچکدار رویہ اختیار کیا تھا۔ اسامہ بن لادن کے مسئلے پر بحث کے دوران جب پاکستانی وفد کی جانب سے اُنہیں افغانستان پر امریکی حملے کے امکان سے آگاہ کیا گیا تو مُلا عمر نے پاکستانی وفد سے کہا کہ ہمیں امریکی حملے سے خوفزدہ مت کرو کیونکہ افغانستان نے اب تک کوئی جنگ نہیں ہاری۔پاکستان نے اگرچہ افغانستان میں طالبان کی پہلی حکومت کو تسلیم کر رکھا تھا تاہم مشترکہ سرحد سے متعلقہ مسائل کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پائی جاتی تھی۔ان مسائل میں سرحد پر آمد و رفت کو کسی ضابطے اور قانون کے تابع لانے کے علاوہ پاکستان کے راستے افغانستان کی تجارت کا مسئلہ بھی شامل تھا۔ ہر طرف سے خشکی سے گھرا ہونے کی وجہ سے افغانستان درآمدات و برآمدات کیلئے اپنے ہمسایہ ممالک پاکستان اور ایران پر انحصار کرتا ہے۔ ان میںپاکستانی روٹ مختصر ہے اور اسی وجہ سے افغانستان کی ترجیح ہے۔ افغانستان کی بیرونی تجارت زیادہ تر کراچی بندرگاہ سے ہوتی ہے۔ اس کو ریگولیٹ کرنے کیلئے دونوں ملکوں کے درمیان افغان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ 1965ء اور 2010 ء موجود ہیں۔ افغان تجارت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کنٹینرز کے ذریعے باہر سے آنے والا سامان افغانستان پہنچ کر پاکستان کو سمگل کر دیا جاتا ہے۔ سوویت یونین کے افغانستان پر حملہ آور ہونے سے وہاں شروع ہونے والی مزاحمتی جنگ کے دوران بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ پر کوئی تعطل نہیں آیا تھا بلکہ سرحدوں پر بلا روک ٹوک آمد و رفت کی وجہ سے اس میں کئی گنا اضافہ ہو چکا تھا جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات بھی بڑھ چکے تھے۔ جب مشرف حکومت کی اس سنگین مسئلے کی طرف توجہ دلائی گئی تو انہوں نے اس کا حل ڈھونڈنے کیلئے ایک وفد کابل بھیجا۔ وفد نے افغان حکام کو یہ بتایا کہ ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے منگوائی جانے والی بیشتر اشیا‘ جن کے استعمال پر افغان طالبان نے اپنے ہاں پابندی عائد کر رکھی ہے‘ پاکستان سمگل کی جاتی ہیں جس سے پاکستانی معیشت کو بھاری نقصان پہنچ رہا ہے اس لیے ان اشیا کی ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے درآمد پر پابندی لگا دی جائے‘مگر افغان حکام نے پاکستان کا یہ مؤقف تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاک افغان سرحد پر غیر قانونی آمد و رفت کے علاوہ مختلف اشیا کی سمگلنگ آج بھی جاری ہے اور ماضی کی افغان حکومتوں کی طرح طالبان کی عبوری حکومت بھی اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنے کی خواہاں نہیں۔
اس سے جو سبق حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ طالبان کو کسی دبائو‘ دھمکی یا طاقت کے بل بوتے پر اپنے مؤقف سے دستبرداری پر مجبور نہیں کیا جا سکا۔ خاص طور پر جب انہیں یقین ہو کہ ان کا مؤقف ان کے قومی مفادات کے مطابق ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے مسئلے پر افغان طالبان کے ساتھ بات چیت میں پاکستان کو اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔ اب یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ تمام دنیا ٹی ٹی پی کو دہشت گرد سمجھتی ہے اور پاکستان نے اس پر باقاعدہ پابندی عائد کر رکھی ہے مگر افغان طالبان اسے دہشت گرد نہیں سمجھتے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کردہ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق افغانستان میں دو درجن کے قریب سرگرم دہشت گرد گروپوں میں سب سے بڑا گروپ ٹی ٹی پی ہے جس کے اراکین جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں اور نہ صرف افغانستان میں آزادانہ گھومتے پھرتے ہیں بلکہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی ملوث ہیں اور انہیں افغان طالبان کا بھرپور تعاون اور مدد بھی حاصل ہے۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جب امریکی اور طالبان وفود کے درمیان افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا پر بات چیت ہو رہی تھی تو امریکیوں کی طرف اس شرط پر خصوصی طور پر اصرار کیا جا رہا تھا کہ افغان سرزمین کو امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ افغان طالبان نے یہ شرط مان لی مگر اس ضمن میں القاعدہ کی ذمہ داری اٹھانے پر راضی نہ ہوئے کیونکہ امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف 20 سالہ جنگ میں القاعدہ نے طالبان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ کالعدم ٹی ٹی پی کا معاملہ بھی بالکل ایسا ہی ہے۔ اگست2021ء میں کابل پر قبضہ کرنے کے بعد افغان طالبان کی طرف سے ٹی ٹی پی کے افغان طالبان کے شانہ بشانہ امریکہ اور نیٹو افواج کے خلاف جنگ میں شرکت کا انکشاف اور اس کی قربانیوں کا اعتراف بھی کیا گیا۔ اس حقیقت کے پیشِ نظر افغان طالبان کی طرف سے کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کسی کارروائی کی توقع رکھنا عبث ہے‘ بھلا وہ اپنے کامریڈ ان آرمز کے خلاف کیوں کوئی کارروائی کریں گے؟ کابل انتظامیہ اُلٹا پاکستان میں ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کی ذمہ داری حکومتِ پاکستان پر ڈالتی ہے کیونکہ ان کے بقول 2021ء میں پاکستانی حکام اور ٹی ٹی پی کے درمیان کابل میں ہونے والی بات چیت میں اول الذکر نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔ افغان طالبان کا مؤقف ہے کہ وہ پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کیلئے تو کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے اور نہ پاکستان کو اس کی توقع رکھنی چاہیے۔