قراردادِ مقاصد اور سیکولر ژولیدہ فکری

پاکستان کی قومی تاریخ کے تین فیصلے ایسے ہیں جو ابھی تک مٹھی بھر ژولیدہ فکر سیکولر دانشوروں کے دلوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں۔ جب یہ دکھ اور کرب ان کیلئے ناقابلِ برداشت ہو جاتے ہیں تو پھر وہ انہی شکست خوردہ افکارِ کہنہ کی پٹاری میں سے کوئی خیالِ خام برآمد کر کے اسے ''فلسفیانہ رنگ‘‘ میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ روزِ روشن کی طرح واضح تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی سعی ٔ لا حاصل کا ارتکاب بھی کرتے ہیں۔
ان سیکولر حضرات کیلئے پہلا زخم دو قومی نظریہ تھا‘ یعنی مسلم اور ہندو دو الگ الگ قومیں اور الگ الگ تہذیبیں ہیں۔ہماری تاریخ کا دوسرااہم ترین فیصلہ قراردادِ مقاصد کا پہلی دستور ساز اسمبلی سے منظور ہو جانا ہے۔ قراردادِ مقاصد نے دستورِ پاکستان کیلئے ایک ایسا چراغِ راہ مہیا کر دیا ہے جس سے یہاں اسلامی سیاست و ثقافت کی راہیں کشادہ ہو گئیں اور تیسرا فیصلہ 1973ء کا متفقہ اسلامی جمہوری آئین ہے۔
میرا ہمیشہ سے یہ خیال تھا کہ وجاہت مسعودصاحب لبرل کیمپ کے فرنٹ لائن کھلاڑی ہونے کے باوجود اپنے مخالفین پر تیر اندازی کے دوران حفظِ مراتب اور آدابِ گفتگو کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں مگر ''قراردادِ مقاصد اور مولانا شبیر احمد عثمانی‘‘ کے عنوان سے اُن کے کالموں میں حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی کے بارے میں غیر شائستہ طرزِ کلام سے بہت مایوسی ہوئی۔ علامہ عثمانی جید عالمِ دین تھے اور وہ قائداعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کے قریب ترین تھے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی کے بارے میں وجاہت مسعود صاحب کے جارحانہ و گستاخانہ لب و لہجے کے صرف دو نمونے یہاں پیش کیے جا رہے ہیں ''علامہ شبیر احمد عثمانی اور ان کے پشتیبان انگاروں پر لوٹ گئے... یہی وہ نقطہ تھا جس پر مولانا شبیر احمد عثمانی نے حرف ِدشنام دراز کیا‘‘۔ دوسرا نمونہ ملاحظ فرمائیے: ''چنانچہ اگست ہی میں قائداعظم کو امیر المومنین کے خطاب کی پیشکش سے دام بچھایا گیا۔ پھر نوائے وقت میں 'شیخ الاسلام‘ کے تقرر کا اشقلہ چھوڑا گیا۔ جو قوم بیس برس پہلے 'امام الہند‘ کا تصور مسترد کر چکی تھی وہ میر عثمان علی خان کے وظیفہ خوار اور نواب بہاولپور کے مشیر کو کیسے 'شیخ الاسلام‘ تسلیم کرتی... شبیر احمد عثمانی نے جمعیت علمائے اسلام کی سربراہی کے علاوہ از خود یوپی اور حیدر آباد دکن کے مہاجرین کی نمائندگی کی خلعت بھی اوڑھ لی تھی... وہ مسلمان آبادی میں بھی ملاؤں کی حکومت کو ترجیح دیتے تھے‘‘۔ وجاہت مسعود کے اس طرزِ بیان کے بارے میں بقول مرزا غالب یہی کہا جا سکتا ہے کہ:
تمہِیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
24 جون 2024ء کو ایک بار پھر یہی کالم نگار ایک معاصر میں میں لکھتے ہیں کہ ''علم سیاسیات کا معمولی طالب علم بھی جانتا ہے کہ ایک سیکولر حکومت جمہوری بھی ہو سکتی ہے اور غیر جمہوری بھی‘تاہم ایک جمہوری حکومت کیلئے سیکولر بندوبست لازم ہے‘‘۔ تاہم سیاسیات کے ''معمولی طالبعلم‘‘ کے علم میں یہ بات ہونی چاہئے کہ دنیا کا کوئی جمہوری ماڈل مادر پدر آزاد نہیں ہوتا۔ وہ کچھ حدود و قیود کا پابند ہوتاہے۔ کوئی پارلیمنٹ‘ کوئی ایوان محض عددی اکثریت سے اپنے ملک کی خود مختاری یا دفاع وغیرہ کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔
قراردادِ مقاصد ہماری پہلی قانون ساز اسمبلی نے 12 مارچ 1949ء کو منظور کی تھی۔ یہ قرارداد بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے اسلامی فلاحی ریاست کے تصور کی حقیقی عکاسی کرتی ہے۔ یہ قرارداد قائداعظمؒ کے معتمد خاص اور ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے خود پیش کی تھی۔ اس قرارداد کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ حقیقی اقتدارِ اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور اس نے یہ اختیار پاکستان کی ریاست کو عوام کے ذریعے منتقل کیا ہے۔ عوام یہ اختیار اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود و قیود کے اندر رہ کر استعمال کریں گے۔ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ پاکستان میں آئین و قانون سازی قرآن و سنت کی حدود میں رہ کر کی جائے گی۔ قراردادِ مقاصد دراصل آئینِ پاکستان کا ابتدائیہ تھا۔1973ء کے متفقہ اسلامی جمہوری آئین نے یہاں سیکولر ازم کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند کر دیا ہے۔ سیکولر ازم کیا ہے؟ اس سے مراد یہ ہے کہ دنیاوی امور سے مذہبی خیالات و تصورات کو علیحدہ کر دیا جائے‘ گویا دین کو سیاست سے جدا کر دیا جائے۔
جناب لیاقت علی خان نے اسی اجلاس میں جمہوریت کے اسلامی تصور کی وضاحت کی اور بتایا کہ اسلام رنگ‘ نسل اور کسی امتیاز کے بغیر ریاست کے تمام شہریوں کو برابر کے حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اسلام نے مساوات کی قابلِ رشک مثال قائم کی ہے۔ قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں اس مساوات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لیاقت علی خان نے یہ وضاحت بھی کی کہ غیر مسلموں کو بھی اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کرنے اور اپنی ثقافتی روایات کو پروان چڑھانے کی آزادی ہوگی۔
وجاہت مسعود نے 24 جون کے کالم میں یہ بھی لکھا ہے کہ راجہ صاحب محمود آباد قائداعظم کے قریبی رفیق اور مسلم لیگ کے خزانچی تھے۔ یہاں تک تو درست ہے آگے چل کر وہ کسی مستند حوالے کے بغیر لکھتے ہیں کہ راجہ صاحب کی طرف سے اسلامی ریاست کی حمایت پر جناح صاحب کے ساتھ اُن کے اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ قائداعظم راجہ صاحب کے اسلامی ریاست سے متعلقہ خیالات سے اتفاق نہ کرتے تھے۔دیکھئے ہمارے لبرل حضرات اپنی آزادانہ تمناؤں کے شیش محل تعمیر کرنے کیلئے کتنے دور ازکار غیر مستند دلائل کا سہارا لیتے ہیں۔
نواب بہادر یار جنگ شعلہ بیاں مقرر تھے اور بانیٔ پاکستان اُن کے خطاب کی دل کھول کر داد دیا کرتے تھے۔ وجاہت مسعود صاحب اپنے کالم میں قائداعظمؒ کو سیکولر ثابت کرنے کیلئے ایک دلچسپ دلیل لائے ہیں کہ ''قائداعظمؒ کی موجودگی میں نواب بہادر یار جنگ نے 26 دسمبر 1943ء کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس سیاست کی بنیاد کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہﷺ پر نہیں ہے وہ شیطانی سیاست ہے اور ہم ایسی سیاست سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔ ہمارے پنڈال سے وہ لوگ اُٹھ جائیں جو خدا کے انکار پر اپنے معاشی نظام کی بنیاد رکھتے ہیں۔ قرآن کے واضح اور اٹل احکامات میں تحریف و اضافہ کر کے مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد نواب بہادر یار جنگ نے قائداعظمؒ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ قائداعظم! میں نے پاکستان کو اس طرح سمجھا ہے اگر آپ کا پاکستان یہ نہیں تو ہم ایسا پاکستان نہیں چاہتے۔ قائداعظمؒ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ ہمیں قبل از وقت چیلنج کیوں دے رہے ہیں‘‘۔اس مکالمے سے کالم نگار قائداعظمؒ کو سیکولر ثابت کرنے کی کیسی معصومانہ کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ یہاں قائداعظمؒ نے نواب بہادر یار جنگ سے اتفاق کرتے ہوئے انہیں اپنی مسکراہٹ سے داد مزید دی۔ قائداعظمؒ نے قیام پاکستان سے قبل 101 بار واضح کیا کہ پاکستان کا دستور اور قانون سازی اسلامی اصولوں پر کی جائے گی۔ قیام پاکستان کے بعد یہی بات انہوں نے چودہ مرتبہ کہی۔ فروری 1948ء میں بحیثیت گورنر جنرل انہوں نے امریکی عوام کے نام ریڈیو پیغام میں پاکستان کوپریمیئر اسلامی ریاست قرار دیا اور کہا کہ پاکستان کا دستور جمہوری ہوگا جس کی بنیاد اسلامی اصول و ضوابط پر رکھی جائے گی۔ قراردادِ مقاصد قائداعظمؒ کے اسی وژن کی ترجمان ہے۔کیا کسی اور ملک کے دانشور اپنے وطن کی نظریاتی و تاریخی بنیادوں کو یوں کھودتے نظر آتے ہیں؟ جن قومی موضوعات پر بحث و تمحیص کئی دہائیاں قبل مکمل کر کے اُن پر فیصلہ سازی کی مہرِ تصدیق ثبت کر دی گئی ہو اُن پر اب گفتگو کنفیوژن پھیلانے کی سعی ٔ لاحاصل کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارے لبرل دوست اپنی صلاحیتیں تخریب پاکستان کی بجائے تعمیر پاکستان میں صرف کریں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں