مرکزی جمعیت اہلِ حدیث ‘برطانیہ کی منظم اور متحرک جماعت ہے۔ اس جماعت کے زیر اہتمام ہر سال برطانیہ کے طول و عرض میں مختلف کانفرنسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں سے اسلامی دعوت کانفرنس خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ مجھے اس کانفرنس میں 2007ء سے لے کر آج تک کئی مرتبہ شرکت کرنے کا موقع ملا۔ یکم جولائی کو مرکزی جمعیت اہلِ حدیث برطانیہ کے نئے امیر مولانا شعیب احمد میرپوری اور ناظمِ اعلیٰ ذکاء اللہ سلیم نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے برطانیہ میں کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔ میں نے اس دعوت کو قبول کر لیا اور 13جولائی کو لاہور سے برطانیہ کیلئے روانہ ہوا۔ لاہور ایئرپورٹ پر بہت سے پاکستانی دوست احباب سے ملاقات ہوئی جنہوں نے مختلف مذہبی عناوین کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سیاسی منظر نامے کے حوالے سے گفتگو کی۔ جب بھی کسی عوامی مقام پر لوگوں سے ملاقات کا موقع ملتا ہے تو عوام میں جہاں دین کی محبت نظر آتی وہیں پر وہ ملک کے مستقبل کے بارے میں بھی متفکر نظر آتے ہیں۔
لاہور ائیر پورٹ پر سعودی عرب میں مقیم ایک سنجیدہ پاکستانی سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں انہوں نے بھی بہت سے دینی مسائل پر گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاسی صورتحال پر تشویش اور ملک میں سیاسی استحکام کیلئے نیک تمناؤں اور جذبات کا اظہار کیا۔ لاہور سے ابوظہبی پہنچے تو وہاں بھی مختلف ممالک کی طرف سفر کرنے والے پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اپنے ملک سے وابستگی رکھنے کی وجہ سے کسی بھی شعبۂ زندگی سے وابستہ معروف لوگوں کا احترام کرتے اور ان سے محبت رکھتے ہیں۔ یہ محبت درحقیقت اسلام اور ملک کی نسبت سے ہوتی ہے۔ ساڑھے تین گھنٹے ابوظہبی میں رکنے کے بعد فلائٹ مانچسٹر کیلئے روانہ ہوئی اور برطانوی وقت کے مطابق صبح سات بجے جہاز رَن وے پر اتر گیا۔ مانچسٹرکا موسم معتدل تھا۔ ایئر پورٹ پر نیلسن سے تعلق رکھنے والے دیرینہ دوست شاہ نواز موجود تھے جن کے ساتھ دو گھنٹے گپ شپ کرنے کے بعد ہم برمنگھم میں پہنچے۔
برمنگھم میں پاکستان سے تعلق رکھنے والی ممتاز علمی شخصیت ڈاکٹر حماد لکھوی‘ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث برطانیہ کے ناظم اعلیٰ ذکاء اللہ سلیم‘ معروف مذہبی رہنما مولانا شریف اللہ شاہد اور حافظ عبدالستار عاصم موجود تھے۔ عصر کی نماز کے بعد آلم راک کی خوبصورت اور دل آویز مسجدِ محمدی میں پہنچا تو وہاں ڈاکٹر عبدالہادی العمری‘ مولانا شعیب احمد میر پوری‘ مولانا شفیق الرحمن شاہین اور دیگر احباب کو موجود پایا۔ ڈاکٹر حماد لکھوی صاحب نے قضیۂ فلسطین کے حوالے سے بڑی بصیرت افروز گفتگو کی۔ اس موقع پر مجھے بھی خطاب کرنے کا موقع ملا اور مجھے زوالِ امت کے اسباب کے حوالے سے اپنی چند گزارشات کو رکھنے کی دعوت دی گئی۔ اس موقع پر میں نے جن نکات کو بیان کیا‘ وہ درج ذیل ہیں؛
1۔اعتقادی کمزوریاں: قرونِ اولیٰ کے مسلمان اللہ کی وحدانیت پر پختہ ایمان رکھتے تھے اور شجر‘ حجر اور ستاروں کے حوالے سے کسی بھی قسم کے توہمات کا شکار نہ تھے لیکن بتدریج دنیا کی دیگر اقوام کی طرح مسلمانوں میں بھی کئی ایک اعتقادی کمزوریاں داخل ہو گئیں۔ ستاروں کی روشنی میں اپنے مستقبل کو دیکھنے کی کوشش کرنا اور الحاد جیسے فتنے آج مسلمانوں میں بھی موجود ہیں۔ اللہ کی ذات کے ساتھ والہانہ وابستگی انتہائی ضروری ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل اور بھروسا کرتا‘ اسی سے اپنی امیدوں کو وابستہ کرتا اور اس کی خشیت کو اپنے دل میں جگہ دیتا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کے حامی اور مددگار بن جاتے ہیں۔
2۔ قرآن سے دوری: جب تک مسلمانوں کا تعلق قرآن مجید سے مضبوط رہا‘ وہ زمین پر غالب رہے لیکن جب انہوں نے قرآن مجید سے انحراف کیا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذلت کو ان کا مقدر بنا دیا۔ قرآن مجید میں اللہ نے یہود کی ذلت کی وجہ بیان کی کہ وہ آیاتِ الٰہیہ کا انکار کیا کرتے تھے۔ گویا کہ آیاتِ الٰہیہ سے انحراف کرنے کی وجہ سے انسان زوال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے بجا طورپر کہا تھا کہ؛
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
3۔رسول اللہﷺ کے اسوہ سے انحراف: جو شخص بھی نبی کریمﷺ کے اسوہ سے انحراف کرتا ہے وہ مختلف طرح کے فتنوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کے احکامات کی مخالفت کرنے کے انجامِ بد کے حوالے سے سورۃ نور کی آیت 63میں ارشاد فرمایا ''سو لازم ہے کہ ڈریں وہ لوگ جو خلاف ورزی کرتے ہیں رسول کے حکم کی‘ اس بات سے کہ کہیں نہ آپڑے اُن پر کوئی فتنہ یا نہ آلے انہیں دردناک عذاب‘‘۔
4۔دین کے بعض حصوں کو قبول کرنا اور بعض کا انکار کرنا: بہت سے لوگ کتاب و سنت پر یقین رکھنے کے باوجود دین کے بعض حصوں کودرست سمجھتے اور بعض حصوںکا انکار کر دیتے ہیں۔ اپنی خواہشات اور مفادات کو ترجیح دیتے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکامات سے رو گردانی کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 85میں ایسے لوگوں کے حوالے سے ارشاد فرمایا ''پھر کیا تم کتاب کے بعض پر ایمان لاتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ تو اس شخص کی جزا جو تم میں سے یہ کرے اس کے سوا کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں رسوائی ہو اور قیامت کے دن وہ سخت ترین عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے اور اللہ ہرگز اس سے غافل نہیں جوتم کرتے ہو‘‘۔
5۔ناشکری: جب انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے اپنی نعمتوں کو چھین لیتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالی نے اس حوالے سے سورۃ نحل میں ایک بستی کی مثال دی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ نحل کی آیت نمبر 112 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور اللہ نے ایک بستی کی مثال بیان کی جو امن والی‘ اطمینان والی تھی‘ اس کے پاس اس کا رزق کھلا ہر جگہ سے آتا تھا‘ تو اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا‘ اس کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے‘‘۔ اللہ کی اس ناراضگی سے بچنے کیلئے انسان کو شکر گزاری کا راستہ اختیار کرنا اور دل‘ زبان اور اعمال سے شکر گزار ہونے کا ثبوت دینا چاہیے۔
6۔فسق و فجو اور گناہوں کا ار تکاب: انسان کی زندگی میں آنے والے بہت سے مصائب کا تعلق اس کی خطاؤں اور گناہوں کے ساتھ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس حقیقت کو سورۃ الشوریٰ کی آیت نمبر 30میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور جو بھی تمہیں کوئی مصیبت پہنچی تو وہ اس کی وجہ سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور وہ بہت سی چیزوں سے در گزر کر جاتا ہے‘‘۔ جب اجتماعی حیثیت سے گناہ کیے جاتے اور نافرمانیوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے تو پھر خشکیوں اور تریوں میں فساد ظاہر ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ روم کی آیت نمبر 41میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ''خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہو گیا‘ اس کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا تاکہ وہ انہیں اس کا کچھ مزہ چکھائے جو انہوں نے کیا ہے تاکہ وہ باز آ جائیں۔‘‘
اس موقع پر میں نے شرکائے کانفرنس کے سامنے اس بات کو رکھا کہ اگر ہم اپنے کھوئے ہوئے عروج کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اللہ کی توحید سے والہانہ وا بستگی‘ قرآن مجید کے احکامات سے تمسک‘ سنت نبوی شریف سے تعلق‘ شکر گزاری پر مداومت اور فسق و فجور کے بجائے نیکی اور توبہ کے راستے کو اختیار کرنا ہوگا۔ اگر ہم یہ اقدامات کر لیتے ہیں تو یقینا ہم اپنے کھوئے ہوئے عروج کو واپس حاصل کر سکتے ہیں۔ لوگوں نے بڑی دلجمعی سے تقاریر کو سنا اور بہت پُرجوش انداز میں خطبا سے ملاقات کی۔ یوں اسلامی دعوت کانفرنس کا یہ سیشن اپنے جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کو لیے اختتام پذیر ہوگیا۔