کراچی ایک بار پھر قاتلوں کے حوالے

جناب گلزار احمد صدیقی طویل عرصہ تک طائف میں مقیم رہے۔ وہ سعودی عرب کے محکمہ ٹیلی فون میں انجینئر تھے۔ میں نے ان جیسا بھلا مانس انسان کم ہی دیکھا ہے۔ وہ ان لوگوں میں شامل تھے جو دوسروں کے کام آ کر دلی راحت محسوس کرتے تھے۔
بعد ازاں کراچی سے تعلق رکھنے والے صدیقی صاحب نے وطن واپس آ کر اپنے ہی شہر میں ایک آرام دہ جدید مکان تیار کر لیا۔ یہاں ہی چند برس قبل ان کا انتقال ہوا تھا۔ صرف ایک ہفتہ قبل برسوں کے بعد مسز حسنہ گلزار اپنی صاحبزادی‘ داماد اور دو نواسوں کے ساتھ لاہور ہمارے گھر تشریف لائیں تو میری بیگم اور بیٹی کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ گلزار صدیقی مرحوم کے داماد اسلام آباد میں ایک اچھی سرکاری پوسٹ پر کام کر رہے ہیں۔ مجھے معلوم ہوا کہ وہ دوبارہ ٹرانسفر کروا کر کراچی جا رہے ہیں۔ ہمارے مرحوم دوست کے نواسے‘ جو سکول میں پڑھتے ہیں‘ کراچی جانے پر بہت خوش تھے۔ ہم نے ساری صدیقی فیملی سے کہا کہ کراچی میں امن و امان کی صورت انتہائی مخدوش ہے‘ آپ اسلام آباد کی پُرسکون زندگی کو چھوڑ کر نہ جائیں۔ اس پر بیگم صدیقی نے کہا کہ کراچی میں ہر پل جان کا خطرہ تو موجود ہے مگر کیا کریں‘ اپنے پیاروں سے دور بھی نہیں رہا جاتا۔
یہ فیملی ابھی لاہور سے واپس اسلام آباد ہی پہنچی تھی کہ محترمہ حسنہ گلزار کو یہ اندوہناک خبر ملی کہ ان کے بھانجے اتقاء معین کو ڈاکوؤں نے کراچی میں قتل کر دیا ہے۔ گزشتہ ہفتہ کے روز‘ شام کے وقت 27 سالہ گولڈ میڈلسٹ میکینکل انجینئر حافظ اتقاء معین سے ڈاکوؤں نے موبائل‘ نقدی اور موٹر سائیکل چھین لی اور جاتے جاتے ان کے سینے اور سر میں گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ کراچی میں یہ قتل و غارت گری عام ہے۔ حکمران اسے ''سٹریٹ کرائم‘‘ کا نام دیتے ہیں جبکہ یہ سیدھی سیدھی دہشت گردی ہے جس میں چنگیز صفت قاتل صرف نقدی اور موبائل چھیننے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ کوئی مزاحمت کرے یا نہ کرے‘ وہ لوٹنے کے بعد اپنے شکار کا خون بہا کر اپنی وحشت و دہشت کی پیاس بجھاتے ہیں۔ بوری بند لاشوں کے دورِ ہیبت ناک کے بعد ایک بار پھر کراچی دہشت گرد شکاریوں کے نرغے میں ہے جہاں انہیں پولیس روکنے میں کامیاب ہوئی ہے نہ کوئی اور سکیورٹی ایجنسی۔ یہ دہشت گرد شکاری اتنے نڈر اور بے دھڑک ہیں کہ وہ شہر کے صرف غریب علاقوں میں ہی نہیں بلکہ کراچی کے پوش علاقوں میں بھی دندناتے پھرتے ہیں۔ انجینئر اتقاء کی شہادت پر نہ صرف کراچی بلکہ سارے ملک میں ایک کہرام برپا ہو گیا اور سندھ حکومت کی پُرزور مذمت کی گئی مگر اس کے دو ہی روز بعد ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے صنعتکار کو اُن کی گا ڑی ہی میں ڈاکوؤں نے گولیوں سے بھون ڈالا۔ یہ بزنس مین بینک سے دس لاکھ روپے نکلوا کر لا رہے تھے۔ اسی طرح نسبتاً غریب علاقے کورنگی میں پرانے جوتوں کے ایک پھیری فروش سے بھی سب کچھ چھین کر ان دہشت گردوں نے اس محنت کش کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔
ثقہ اخباری رپورٹوں کے مطابق گزشتہ پانچ ماہ کے دوران ان سفاک قاتلوں نے کراچی کی اس شکار گاہ میں 73 انسانوں کو نہایت بے دردی کے ساتھ شکار کیا۔ 2023ء میں ایسے ہی قاتلوں نے 108معصوم نوجوانوں اور بوڑھوں کی زندگیوں کے چراغ گل کیے۔ دنیا میں حکومتیں امن و امان قائم کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ سعودی عرب کی پولیس کا ماٹو ہے ''العیون الساحرہ‘‘ یعنی جاگتی آنکھیں۔ مگر کراچی میں تو یوں گمان ہوتا ہے کہ ''جاگتی آنکھیں‘‘ شہریوں کی حفاظت میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں۔ اگرچہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی امان و امان کی صورتحال کوئی قابلِ رشک نہیں مگر کراچی تو ایک مقتل گاہ میں بدل چکا ہے۔ میں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑتا کہ صوبہ سندھ میں حالیہ انتخاب جیتنے والی پیپلز پارٹی یا ایم کیو ایم کی کامیابی میں فارم 47 کے طلسماتی چراغ کا کتنا حصہ ہے‘ مگر دہائیوں پر پھیلی ہوئی ان دونوں جماعتوں کی کراچی میں بالخصوص اور سندھ میں بالعموم صفر کارکردگی اظہر من الشمس ہے۔ کراچی خوش قسمت تھا کہ وہاں شرح خواندگی ملک میں سب سے زیادہ تھی اور ہے‘ مگر اس لحاظ سے یہ شہر بدقسمت ہے کہ اسے جو حکمران ملے اُنہیں گورننس‘ شہریوں کی تعلیم‘ صحت‘ امن و امان اور روزگار سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ان کا اولین ہدف اپنی ذاتی خوشحالی تھی‘ اور ہے۔
کراچی کی تشویشناک صورتحال ہم اوپر بیان کر آئے ہیں‘ مگر افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ اندرونِ سندھ جہالت‘ بیروزگاری‘ پسماندگی اور بیماریوں کی آماجگاہ ہے۔ یہاں ڈرے سہمے ہاری‘ وڈیروں اور سرداروں کے رحم و کرم پر زندگی کی سانسیں پوری کرتے ہیں۔ سچ بات یہ ہے کہ میں نے جواں سال بلاول بھٹو زرداری سے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں۔ میرا خیال یہ تھا کہ بلاول بھٹو سندھ میں گورننس‘ تعلیم اور روزگار کے شعبوں میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیں گے جو ان کے والد گرامی انجام دے سکے‘ نہ ان کی والدہ اور نہ ہی ان کے نانا محترم ذوالفقار علی بھٹو۔ میرا اندازہ تھا کہ بلاول بھٹو جدید خطوط پر اندرون سندھ کے شہروں ہی کو نہیں دیہات کو بھی اسی طرح ماڈل بستیاں بنائیں گے جیسی وہ فرانس‘ جرمنی اور سوئٹزر لینڈ وغیرہ میں دیکھ کر آئے ہیں۔نجانے مجھے یہ گمان کیوں تھا کہ بلاول کراچی کو اپنی خاص توجہ سے ''کچرا کنڈی‘‘ کے بجائے ایک صاف ستھرا اور پُرامن بزنس سٹی بنائیں گے‘ مگر میرا یہ خواب چکنا چور ہو گیا ہے۔ اب کراچی کے دیہی اور شہری علاقوں کی پہلے سے کہیں بڑھ کر حالت ابتر ہے۔
بدھ کے روز جناب بلاول بھٹو نے کابینہ اور پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اپنی حکومتی پالیسیوں‘ امن و امان کی مخدوش حالت اور دم توڑتی ہوئی گورننس کا اعتراف کرنے کے بجائے ایسی تقریر کی جو انتخابی جلسوں میں کی جاتی ہے۔ وہ بات کہ جسے بلاول بھٹو کے خطاب کا سرِآغاز ہونا چاہیے تھا‘ اس کا سارے فسانے میں کہیں ذکر نہ تھا۔ انہوں نے بلا روک ٹوک کراچی میں دندناتے ہوئے دہشت گرد قاتلوں کے بارے میں کوئی اظہارِ خیال نہ کیا۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے انجینئر اتقاء جیسے ہیرے جواہر‘ جو نہ صرف اپنے خاندان کا روشن مستقبل تھے بلکہ ملک و قوم کا بھی نہایت گراں قدر اثاثہ تھے‘ کی المناک اموات پر اظہارِ افسوس کیا نہ اظہارِ تشویش اور نہ ہی غمزدہ خاندانوں کے لیے کسی طرح کا کلمۂ تعزیت پیش کیا۔ بلاول بھٹو روایتی سیاسی باتیں دہرانا بند کریں۔ اب کچھ عرصے کے لیے کراچی سے ملنے والا اربوں کا ٹیکس اس شہرکے امن و امان اور خوشحالی پر لگائیں۔ سندھ کا نقشہ بدلیں۔ 18ویں ترمیم کے بعد صوبے خود مختار ہیں‘ اب وہ وفاق پر کم تکیہ کریں۔ پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین اب سارے سندھ بالخصوص کراچی کے امن و امان کے لیے کوئی انقلابی پالیسی وضع کریں۔
اگر حکومتِ سندھ سے امن قائم نہیں ہوتا تو پھر وہ عوام کو اسلحہ کے لائسنس دے تاکہ ہر شخص اپنی حفاظت خود کر سکے۔ اگر لائسنسز کا اجرا ممکن نہ ہو تو پھر بلاول بھٹو زرداری پولیس اور دیگر حفاظتی اداروں کو خبردار کریں کہ اب اگر بے گناہ شہریوں کے آزادانہ قتل کی ایک واردات بھی ہوئی تو آئی جی پولیس کٹہرے میں کھڑا ہوگا۔ اگر چیئرمین پیپلز پارٹی کراچی کے شہریوں کو قاتلوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں تو پھر ان کے پاس عروس البلاد کی حکمرانی کا کوئی اخلاقی حق ہوگا نہ قانونی جواز۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں