میں نے پہلی دفعہ ان لوگوں کو بھی پریشان دیکھا ہے جنہیں برسوں سے بڑا ریلکس دیکھتاتھا۔ اس پریشانی کی وجہ ملک کے سیاسی حالات نہیں بلکہ بجلی کے بھاری بلز ہیں۔ ان لوگوں کی حالت دیکھ کراحساس ہوا کہ اگر حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ وہ لوگ‘ جو بالائی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں‘ وہ بھی بلز کی گرمائش محسوس کرنے لگ گئے ہیں تو پھر عام آدمی کا کیا حال ہوگا۔
میں نے اس مہینے کا اپنا بجلی کا بل چیک کیا اور کل رقم کو کل یونٹس پر تقسیم کیا تو پتا چلا کہ فی یونٹ قیمت اس وقت 60 روپے ہوچکی ہے۔ یہ گھریلو صارفین کی بات ہورہی ہے۔ کمرشل صارفین کا فی یونٹ تو 80 روپے تک پہنچ چکا ہے۔ یہ سلسلہ رک نہیں رہا بلکہ اب تو روزانہ کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ کبھی ڈالرکا ریٹ اس طرح روز اوپر جاتا تھا‘ جس طرح اب بجلی کا جاتا ہے۔ ڈالر کا ریٹ تو ایک جگہ رک گیا ہے لیکن اس کی جگہ بجلی نے لے لی ہے۔ مجھے یاد ہے 2018-19 ء میں امپورٹ کی گئی ایل این جی پر بننے والی بجلی کا ریٹ14 روپے فی یونٹ تھا اور اس کی تفصیلات قومی اسمبلی میں اُس وقت کے وزیر توانائی نے پیش کی تھیں۔ مجھے یہ جان کر دھچکا لگا تھا کہ اگر گیس پر بنائی گئی بجلی بھی14 روپے فی یونٹ ہے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے کیونکہ ہمیں بتایا گیا تھاکہ گیس پر چلنے والے آئی پی پیز سستی بجلی پیدا کریں گے۔ اس وقت تیل سے بننے والی بجلی کا ریٹ 23 تا24 روپے تھا اور ٹیکسز ڈال کر 28 تا30 روپے پڑ رہا تھا۔ مجھے یاد ہے جب پیپلز پارٹی دور میں ترکی سے لائے گئے جہاز پر نصب کرائے کے بجلی گھر سے بجلی پیدا کی گئی تو وہ فی یونٹ40 تا50روپے کے درمیان پڑ رہی تھی اور شور مچ گیا کہ اتنی مہنگی بجلی تو ملک کا بیڑا غرق کر دے گی۔ اب ہم 60 روپے تک پہنچ چکے ہیں۔
لوگ پوچھیں گے کہ ان چار پانچ برسوں میں بجلی کی قیمت اتنی کیوں بڑھ گئی ؟ اس کی ایک بڑی وجہ ڈالر کا ریٹ ہے جو اُس وقت 120 سے 124روپے کے قریب تھا جب فی یونٹ بجلی 24روپے سے 30 روپے تک تھی یا گیس پر بننے والی بجلی 14روپے فی یونٹ پڑ رہی تھی۔ آپ ڈالر میں بجلی کی ادئیگی کے معاہدے کرچکے ہیں۔ اب پاکستانیوں کو کمانا روپے میں ہے لیکن ادائیگی ڈالروں میں کرنی ہے۔ پیپلز پارٹی نے اس ملک میں آئی پی پیز متعارف کرائے جن سے پہلی دفعہ یہ طے ہوا کہ بجلی کا ریٹ ڈالروں میں ہوگا۔ اس وقت بھی شور مچا تھا کہ معاہدے مہنگے کیے گئے ہیں۔ ان حکمرانوں اور بیوروکریٹس کو داد دیں جنہوں نے ایسا سوچا کہ پاکستانی قوم کو بجلی ڈالر ریٹس میں دی جائے گی۔ لگتا تھا پاکستان کے ہرگھر میں سونے کی کانیں نکل آئی ہیں اور ہر بندہ روز سونے کی اینٹ گھر سے نکال کر بیرونِ ملک ایکسپورٹ کر کے ڈالرز لا رہا ہے۔ اس پر نواز شریف کی پارٹی نے رولا ڈالا اور پیپلز پارٹی پر سنگین الزامات لگائے کہ اس ڈیل میں پیسہ بنایا گیا ہے۔ مزے کی بات ہے جب نواز شریف خود تیسری دفعہ وزیراعظم بنے تو انہوں نے بھی وہی روٹ لیا اور آئی پی پیز کی مزید بھرمار ہوئی۔ چین نے اپنے ہاں کوئلے کے پلانٹس بند کر دیے تھے کہ اس سے آلودگی نے چینیوں کا جینا حرام کر دیا تھا لیکن اس دور میں ہم چین سے کوئلے کے بجلی گھر پاکستان لے کر آئے اور ان میں سے ایک پلانٹ ساہیوال میں لگایا گیا۔ عموما کوئلے کے پلانٹس ساحلی علاقوں میں لگائے جاتے ہیں لیکن شریف خاندان نے عجیب تجربہ کیا اور پنجاب کے دل میں زرخیز زمینوں پر یہ پلانٹ لگایا اور اس کیلئے مرضی کا ٹیرف اپنے لاڈلے بیوروکریٹس کی مدد سے نیپرا سے لیا۔ اس پلانٹ کیلئے کوئلہ بھی بیرونِ ملک سے منگوایا جاتا ہے جس پر الگ سے ڈالرز خرچ ہورہے ہیں۔ کوئلے سے سستی بجلی کیسے پیدا ہوگی اگر کوئلہ بیرونِ ملک سے منگوایا جائے گا؟ ایک کوئلے کا پلانٹ سندھ میں لگا ‘اس کا مالک اس وقت قطر میں بیٹھا ہے اور گھر بیٹھے پاکستان سے ڈالر کما رہا ہے۔عوام اس کی بجلی کا بل اسے وہیں بھیج رہے ہیں۔ ایسے معاہدے اس ملک کے دوست کیسے کر سکتے ہیں کہ آئی پی پیز جتنی بجلی پیدا کریں گے وہ سب خریدی جائے گی‘ چاہے خرچ ہو یا نہ ہو۔ جس ملک کی ضرورت26 ہزار میگا واٹ ہو اور وہاں 40 ہزار میگاواٹ سے زیادہ پیدا کرنے والے پلانٹس لگا کر ان کو ادائیگی 40ہزار میگا واٹ کی ہورہی ہے اور ڈالر وں میں ہورہی ہے‘ وہاں یہی حشر ہونا تھا جو ہورہا ہے۔حتیٰ کہ جو آئی پی پیز معاہدے ختم ہورہے ہیں ان کے بارے رپورٹس آرہی ہیں کہ انہیں دوبارہ کنٹریکٹ دیے جارہے ہیں۔
یہ طے ہے کہ اس ملک کے چند حکمرانوں نے آف شور کمپنیاں بنا کرعالمی فرنٹ مینوں کے ذریعے یہ آئی پی پیز اس ملک میں لگائے ہیں اور وہی اس وقت بجلی کے نام پر قوم کو لوٹ رہے ہیں۔20 ‘30سال پہلے تک ملک میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کی شرح 70فیصد تھی اور30 فیصد باقی ذرائع سے بجلی پیدا ہورہی تھی۔ پھر سیاسی حکومتوں نے آئی پی پیز متعارف کرائے اور اب 70‘ 80فیصد بجلی آئی پی پیز تیل پر پیدا کررہے ہیں اور عوام کا تیل نکال دیا ہے۔
اس ملک کے سمجھدار عوام نے بھی ڈیم نہیں بننے دیے‘ جس کا نتیجہ یہ بھگت رہے ہیں۔ ڈیم سے بننے والی بجلی سستی ہوتی ہے۔ لیکن اس قوم کو خودکشی کا شوق چڑھا ہوا تھا جس کا فائدہ حکمرانوں نے اٹھایا اور سب کچھ فیول پر شفٹ کر دیا۔ اس طرح حکمرانوں نے جب خود یہ بجلی کا کاروبار شروع کیا تو انہوں نے گیس اور آئل کے نئے کنویں تلاش کرنے کا کام سلو یا بالکل ختم کر دیا۔ نئی کمپنیوں کو بھی ٹھیکے نہ ملے۔ مطلب وہی تھا کہ آئل اور گیس اس ملک میں امپورٹ ہوتی رہے اور ہمارے کمائے ڈالرز بیرونِ ملک شفٹ ہوتے رہیں۔ اس وقت پاکستان کی گیس آئل اور انرجی امپورٹ کا بل 35ارب ڈالرز کے قریب بتایا جارہا ہے اور ہماری کل ایکسپورٹس 30 ارب ڈالرز ہیں۔ کسی دن شاہد خاقان عباسی‘ جن میں آج کل قوم اور ملک سے محبت جاگ پڑی ہے‘ ہمیں بتائیں گے ان کے دور میں جب وہ پٹرولیم کے وزیر تھے کتنے آئل اور گیس کے ذخائر تلاش کرنے کیلئے عالمی کمپنیوں کو کنٹریکٹس دیے گئے؟ یا پھر بیرونِ ملک حکومتوں سے گیس کے کنٹریکٹ کرنے پر زور رہا؟ آپ نے ان برسوں میں کبھی سنا کہ پاکستان میں کوئی عالمی کمپنی گیس کے کنوئوں پر کام کررہی ہے یا کوئی خبر آئی ہو کہ فلاں جگہ کنواں مل گیا یا ذخائر نکل آئے ہیں؟ برسوں پہلے یہ خبریں آتی تھی اب وہ خبریں آنا بند ہوچکی ہیں۔
اب سب کچھ امپورٹ ہورہا ہے۔ آئی پی پیز نے اتنا مال بنایا ہے اور بنا رہے ہیں کہ جنرل مشرف نے ایک دفعہ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اسے آئی پی پیز والے ایک ارب روپے دینے کو تیار ہیں اگر وہ ان کے فی یونٹ کا ریٹ صرف ایک سینٹ بڑھا دیں۔ اس ملک کے دشمن وہی ہیں جنہوں نے ضرورت سے زیادہ آئی پی پیز پلانٹس لگا کر ڈالروں میں ریٹ دے کر اب ڈالر 280 روپے تک لے گئے ہیں۔ جب تک ڈالر ایک120 روپے تک تھا تو بجلی بھی افورڈ ہورہی تھی۔
جو قوم ڈیم نہیں بننے دی گی وہ ان عالمی ٹھگوں کے ہاتھوں ہی لٹے گی۔ ویسے اندازہ کریں اس ملک کا جہاں کے عوام روپوں میں کما کر ان عالمی لٹیروں کو بل ڈالروں میں دے رہے ہیں اور ان ٹھگوں کی محبت میں غرق بھی ہیں۔