انسانی تاریخ میں کچھ واقعات اپنی اثر پذیری کی وجہ سے انمٹ ہو جاتے اور ان واقعات کے ساتھ جڑے ہوئے کردار بھی امر ہو جاتے ہیں۔ کربلا کا واقعہ بھی تاریخ کا ایک ایسا ہی باب ہے جو کئی سو سال گزر جانے پر بھی تازہ ہے۔ یہ واقعہ اصول پسندی‘ راست گوئی‘ صبر‘ استقامت‘ مزاحمت‘ حریت اور قربانی کا استعارہ ہے‘ جب امام عالی مقام حضرت حسینؓ نے یزید کی بیعت سے انکار کیا اور مصلحت کوشی کے بجائے مزاحمت کا راستہ اپنایا۔ یزید نے خلافت کا اعلان کرنے کے بعد والی ٔ مدینہ کو خط لکھا کہ امام عالی مقام حضرت حسینؓ اور عبداللہ بن زبیرؓ کو بیعت پر مجبور کرے‘ لیکن اسے اس میں ناکامی ہوئی۔ امام عالی مقامؓ مدینہ سے مکہ تشریف لے گئے۔
اُدھر کوفہ کے شہر میں کچھ لوگ ایک مکان میں اکٹھے ہوئے‘ ان کا مشترکہ فیصلہ تھا کہ وہ یزید کے ہاتھ پر بیعت نہیں کریں گے۔ یہاں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ امام عالی مقامؓ کو خط لکھا جائے کہ وہ فوری طور پر کوفہ تشریف لائیں۔ جب حضرت امام حسینؓ کو کوفہ کے لوگوں کی طرف سے دعوت نامے ملنا شروع ہوئے تو انہوں نے صورتحال جاننے کا فیصلہ کیا اور اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیلؓ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ کوفہ جا کر لوگوں سے ملیں‘ حالات کاجائزہ لیں اور حقیقی صورتحال سے آگاہ کریں تاکہ اس کی روشنی میں فیصلہ کیا جا سکے۔ مسلم بن عقیلؓ اپنے دو کم سن بچوں کے ہمراہ کوفہ تشریف لے گئے‘ وہاں انہوں نے لوگوں سے ملاقاتیں کیں‘ حالات کا بغور جائزہ لیا‘ ایک روایت کے مطابق ہزاروں افراد نے حضرت امام حسینؓ کے نمائندے کی حیثیت سے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ مسلم بن عقیلؓ لوگوں کے اس والہانہ پن سے بہت متاثر ہوئے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ حضرت امام حسینؓ کی آمد کیلئے حالات مناسب ہیں۔ اس دوران یزید نے عبید اللہ بن زیاد کو کوفہ کا حکمران مقرر کیا جو اپنی سخت گیر طبیعت کی وجہ سے مشہور تھا۔ اسے مسلم بن عقیلؓ کی سرگرمیو ں کی اطلاع ملی تو انہیں گرفتار کر لیا اور انہیں ان کے دونوں بچوں کے ہمراہ شہید کر دیا گیا۔ اب کوفہ کے در و بام پر دہشت کی فضا تھی‘ جس میں حضرت امام حسینؓ کا نام لینا بھی دشوار ہو گیا تھا۔
امام عالی مقامؓ نے کوفہ جانے کا ارادہ کر لیا۔ کوفہ کا شہر دریائے فرات کے کنارے پر آباد ہے‘ حضرت علیؓ کے دورِ حکومت میں اس شہر کی حیثیت دارالخلافہ کی تھی۔ حضرت امام حسینؓ کوفہ کے سفر کیلئے روانہ ہونے لگے تو ان کو مشورہ دیا گیا کہ کوفہ جانا خطرے سے خالی نہیں‘ یہ مشورہ اُن چاہنے والوں کی طرف سے تھا جنہوں نے حضرت امام حسینؓ کا بچپن اور ان کا اپنے نانا سے تعلقِ خاص دیکھا تھا۔ ہجرت کا چوتھا سال تھا جب حضرت علیؓ کے گھر حضرت امام حسینؓ کی پیدائش ہوئی۔ شروع ہی سے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما اپنے نانا کے لاڈلے تھے۔ تمام صحابہ کو حضورؐ کی اپنے نواسوں سے محبت کا بخوبی علم تھا‘ اسی لیے جب حضرت امام حسینؓ نے کوفہ جانے کا فیصلہ کیا تو بہت سے لوگوں نے انہیں نہ جانے کا مشورہ دیا‘ لیکن امام عالی مقامؓ کا یہ اصولی فیصلہ تھا کہ یزید کی بیعت کے مقابلے میں واضح طور پر لوگوں کے پاس دوسرا انتخاب بھی ہو اور یہ وقت مصلحت کا نہیں‘ میدانِ عمل میں کھڑے ہونے کا ہے‘ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے کا ہے‘ یہی حسینؓ کے نانا کا سبق تھا جس پر عمل کا وقت آپہنچا تھا۔ امام عالی مقامؓ نے اپنے گھرانے کے افراد اور کچھ جانثاروں کو ساتھ لیا اور کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ عبیداللہ بن زیاد نے حُر کو ایک ہزار گھڑ سواروں کے ہمراہ امام حسینؓ کو اپنے دربار میں لانے کیلئے بھیجا۔ اس کے بعد عمر بن سعدکو چار ہزار کے لشکر کے ساتھ بھیجا گیا۔ امام عالی مقامؓ کو کہا گیا کہ ایک شرط پر انہیں اور ان کے ساتھیوں کو بحفاظت واپسی کا راستہ دیا جا سکتا ہے کہ امام عالی مقامؓ یزید کی بیعت کر لیں‘ یہی وہ لمحہ تھا جب حضرت امام حسینؓ نے فیصلہ کیا کہ حق اور سچ کی علمبرداری کیلئے وہ اپنی جانیں قربان کر دیں گے‘ لیکن یزید کے ہاتھ پر بیعت نہیں کریں گے‘ یہی وہ فیصلہ تھا جس نے مصلحت اور مزاحمت‘ ملوکیت اور خلافت اور جھوٹ اور سچ کے درمیان فرق کو تمام زمانوں کیلئے واضح کر دیا۔اس دو ٹوک انکار پر حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں پر پانی بند کرنے کا حکم دیا گیا۔ اب ایک لشکر شمر کی قیادت میں کربلا پہنچا۔ ہزاروں کے لشکر کے مقابلے میں امامِ عالی مقامؓ کے قافلے میں صرف 72اصحاب تھے‘ جس میں 32گھڑسوار اور 40پیادہ تھے۔ اسی اثنا میں ایک حیرت انگیز واقعہ پیش آیا۔ حُر‘ جو لشکر کے ایک حصے کی قیادت کر رہے تھے‘ امام عالی مقامؓ کے قافلے سے آ ملے اور یوں حُر دوستی‘ وفا شعاری اور اصول پسندی کا استعارہ بن گیا۔
یہ محرم کی دس تاریخ اور 61 ہجری تھی جب کربلا کے آسمان نے وہ منظر دیکھا جو تاریخِ انسانی پر ہمیشہ کیلئے ثبت ہو گیا۔ جب ایک ایک کرکے امام عالی مقامؓ کے جانثار اور اہلِ بیت ایک بڑے مقصد اور اصول کیلئے شہید ہوتے گئے اور پھر امام عالی مقامؓ کی سب سے بڑی قربانی کا منظر‘ جب اُن کا سر تن سے جدا کر دیا۔ یہ انسانی تاریخ میں مزاحمت کا سب سے ارفع واقعہ ہے۔ اس واقعے کی گونج فارسی اور اردو ادب میں یوں در آئی کہ کربلا سے وابستہ وہ کردار‘ وہ مناظر‘ وہ اصول ہمیشہ کیلئے اَمر ہو گئے۔ اردو شاعری میں کربلا کا ذکر مزاحمت کے ایک توانا استعارے کے طور پر آتا ہے‘ جو زمانوں کے اُلٹ پھیر میں بھی ہمیشہ روشن اور تابندہ رہے گا۔ کربلا دراصل اسلامی تاریخ کے سفر کا نقطۂ معراج ہے۔ اقبال کربلا میں امامِ عالی مقامؓ کی قربانی کو یوں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں:
تا قیامت قطعِ استبداد کرد
موجِ خون او چمن ایجاد کرد
ترجمہ: انہوں ( امام حسینؓ) نے قیامت تک کیلئے ظلم و استبداد کا خاتمہ کر دیا اور اپنے موجۂ خون (سے آبیاری کر کے دشت میں) چمن پیدا کر دیا۔
کربلا کے شہیدوں کا ذکر اس کثرت اور اس تواتر سے ہوتا ہے کہ اردو شاعری میں مرثیہ اصطلاحی معنوں میں کربلا کے معرکے میں دادِ شجاعت دینے والوں کا ذکر بن گیا ہے۔ تقریباً تمام بڑے شعرا نے کربلا کا ذکر اپنی شاعری میں کیا ہے۔ ان میں میر ضمیر‘ میر خلیق‘ انیس‘ دبیر‘ اقبال‘ سید آلِ رضا‘ آتش‘ سودا‘ امیر مینائی‘ یگانہ‘ جوش ملیح آبادی‘ نسیم امروہوی‘ ڈاکٹر صفدر حسین‘ نجم آفندی‘ مصطفی زیدی‘ صبا اکبر آبادی‘ امید فاضلی‘ افتخار عارف‘ محسن نقوی‘ سحر انصاری‘ ہلال نقوی‘ جاوید منظر اور اختر عثمان شامل ہیں۔ یہ فہرست کسی طور پر مکمل نہیں کیونکہ شعرا کی ایک بڑی تعداد نے کربلا کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ اس سلسلے میں تین اہم کتابیں مرثیے کی صنف کا احاطہ کرتی ہیں‘ ان میں سید عاشور کاظمی کی کتاب ''اردو مرثیے کا سفر‘‘، ڈاکٹر ہلال نقوی کی کتاب'' بیسویں صدی اور جدید مرثیہ‘‘ اور پروفیسر اکبر حیدری کشمیری کی کتاب'' ہندو مرثیہ گو شاعر‘‘ شامل ہیں۔ ان کتب کے علاوہ کراچی سے شائع ہونے والا ایک اہم ادبی مجلہ'' رثائی ادب‘‘ بھی شامل ہے‘ جو تحقیق کے نئے در کھول رہا ہے۔ کربلا کا ذکرِ مسلسل اب زمان و مکاں کی حدود سے ماورا ہو چکا۔ افتخار عارف نے اپنی شاعری میں انتہائی ہنر مندی سے کربلا کے استعاروں کی مدد سے عصرِ حاضر کی صورت کشی کی ہے۔
فراتِ وقتِ رواں دیکھ سُوئے مقتل دیکھ
جو سر بلند ہے اب بھی وہ سر حسین کا ہے
کہتے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ یادوں کے نقوش دھندلے پڑ جاتے ہیں‘ لیکن یہ کیسی یاد ہے جو کئی سو سال گزر جانے کے بعد بھی تازہ ہے‘ یہ کیسا غم ہے جس کی آنچ مہ و سال گزرنے کے ساتھ کم نہیں ہوئی‘ تیز تر ہو گئی ہے‘ یہ کیسا لمحۂ افتخار ہے جس کی رُوپہلی روشنی سے اسلام کی ایک نئی صبح طلوع ہوئی تھی اور جس کی روشنی ہمیں آج بھی حق اور باطل‘ مصلحت اور مزاحمت‘ اور ملوکیت اور حریتِ فکر کے راستوں میں فرق سمجھا رہی ہے۔